وقت کا مزاج بہت تیز ہے۔میڈیا اور گلوبلائزیشن کا جا دو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ایسے میں اپنا قومی تشخّص اور اپنی تہذیبی شناخت کی حیثیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔سماجی ،علمی ،ثقافتی اور لسانی رویے بھی اپنی اصل سے دور ہٹ جاتے ہیں ۔اس کا انجام بڑا بھیانک ہوتا ہے ۔ہماری جیسی قوموں کے ساتھ یہی ہورہا ہے۔ہماری بود و باش ،ہماری ثقافتی قدریں اور ہماری مادری زبان کی ابلاغی اثر پزیری کے خدو خال اب اپنی اصل سے بہت دور ہٹ گئے ہیں۔
ستم ظریفی تو یہ ہے اس عظیم نقصان کا احساس سماج کے بہت کم لوگوں کو ہے۔اکثر لوگ اسے عالمگیریت کا نتیجہ سمجھ کر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ان کے لیے اپنی قومی اور تہذیبی شناخت کو کھودینا اتنا اہم نہیں ۔گلوبلائزیشن کے سیلاب میں بہہ کر یورپ ،امریکہ جیسا اندازِ نظر اور طرز حیات اختیار کر لینے کو ترقی اور کامیابی کا ضامن سمجھتے ہیں۔شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ کوّا ہنس کی چال چلنے لگے تو اپنی بھی بھول جاتا ہے۔۔۔اور ہم پاکستانی اور گلگت بلتستانی، زبان و ادب اور بود و باش کے کئی آدرش بھول بیٹھے ہیں۔
میڈیا اور گلوبلائزیشن پر ان قوموں کا اثر ہے جنہوں نے خود کو اس قابل بنا لیا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی میں اُنہوں نے ایسے کارنامے سرانجام دئے ہیں کہ موبائل ہو،ٹی وی ہو یا پھر کمپیوٹر ہو ،اُن ہی کا عمل دخل ہے ۔ہماری جیسی قومیں تو بس انہیں استعمال کر کے، ان کی تقلید کر کے خوش ہیں ۔تقلید بے دانشی سے ہو تو زندگی تضحیک بن جاتی ہے۔ظاہر بات ہے کوّا ،ہنس کی نقّالی ہی کر سکتا ہے ،اس جیسا بن نہیں سکتا ۔
دانا ئے بے بدل،حضرت اقبال فرما گئے ہیں۔۔۔
’’تراش از تیشۂ خو د ،جاد�ۂ خویش
براہِ دیگران رفتن عذاب است
اپنے تیشے سے اپنا راستہ خود تراش لو ۔دوسروں کے راستے پر چلوگے تو زندگی عذاب بن جائے گی ۔‘‘
اس آئینے میں اپنا جو رُوپ دکھائی دیتا ہے اس میں ہماری زبان بھی ،ہمارا لباس بھی ،ہمارے فکری زاویے بھی او ر ہمارے تہذیبی رویے بھی دوسروں کے زیر اثر اپنی پہچان کھوتے جارہے ہیں ۔
اس کا سب سے زیادہ اثر مادری زبانوں پر پڑ رہا ہے ۔اسی میڈیا اور گلوبلائزیشن سے ان کا وجود خطرے میں پڑا ہے۔انگلش او ر اردو کے آکاس بیل نے اس طرح جکڑ لیا ہے کہ ان کی نشو و نما رُک گئی ہے۔گھر میں محض عمومی بول چال کے لیے ایک ملغوبہ سی مادری زبان استعمال ہوتی ہے۔گھر سے باہر قدم قدم پر علم و ادب ،تعلیم و تدریس اور مکالمے و مباحثے کے لیے اردو اور انگلش استعمال ہوتی ہیں۔ایسے میں مادری زبان سکڑ سمٹ کر ایک سطحی بول چال تک محدودہو کر رہ گئی ہے۔
یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی چھ ہزار سے کچھ زائد زبانوں میں سے آدھی کے قریب اس وقت معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں۔اسی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کوئی زبان تبھی ترقی یافتہ اورزندہ کہلاسکتی ہے جب اس میں تدریسی اور تخلیقی فعالیت ہو ۔تعلیمی اداروں میں رائج ہو ۔اس میں علمی ،ادبی ،سائنسی اور تحقیقی کتب کی اشاعت ہو ۔عوام ،خاص کر نوجوان اسے شوق سے بولتے ہوں۔بدلتے ہوئے حالات کے مطابق ڈھلنے ،علم و دانش اور ابلاغ کے جدید ذرائع استعمال کرنے کی اس میں حرکی قوت ہو ۔ایک نسل سے دوسری نسل میں شعوری جذبے سے منتقل ہونے کی فطری صفت ہو۔جسے intergenerational language transmission کہا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں زبان کی ترقی اور کامیابی کے جو اصول بتائے گئے ہیں ،ان کی روشنی میں دیکھیں تو گلگت بلتستان کی مادری زبانیں ان معدوم ہوتی ہوئیں زبانوں میں شامل ہیں جن کا وجود خطرے میں ہے۔
خاکم بدہن ! اگر ایسا ہوگیا تو یہ ہماری ثقافتی اور سماجی رویوں کی موت ہوگی ۔مادری زبان ہی ہماری قومی شناخت کا بنیادی عنصر ہے ۔یہ ہماری اجتماعی سوچ کی ترجما ن ہے ۔اپنی مٹی سے جُڑے رہنے کا اعتبا رہے۔یہ اعتبار کبھی مٹنا نہیں چاہیے۔ورنہ ہماری اصل ہی مٹ جائے گی۔
زبان کی اہمیت ظاہر کرتی ہوئی دو لائنیں انگلش میں بھی ملاحظہ کر لیں جو یونیسکو کی اسی رپورٹ کے مطالعے کے دوران نظر سے گزریں۔اس میں جو باتیں ہیں ان کاعکس میری تحریر میں بھی ملے گا ۔ان دو لائنوں کو انگلش میں پڑھنے کا اپنا ہی مزہ ملے گا۔
"Languages are vehicles of our culture,collective memory and values.They are an essential component of our identities,and a building block of our diversity and living heritage.”
یہ المیہ مگر رہا ہے کہ جی بی میں مادری زبانوں کی بقا اور ترویج کے لیے پہلے کو ئی منظم اور سائنٹیفیک کام نہیں ہوا تھا۔سرکاری سطح پر بھی ،عوامی سطح پر بھی ۔شعر و ادب اور تخلیق و تالیف کی قلیل سی کتب یہاں کی تمام مادری زبانوں میں منظرِ عام پر ضرور آئی تھیں ۔مگر صوتی اظہار کے لیے مخصوص حرفی علامات کا ایسا جمعہ بازار لگا ہوا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ حروفِ تہجی کی ایسی گرم بازاری تھی کہ ایک ہی زبان کے اہلِ قلم بھی ایک دوسرے سے مختلف لکھتے تھے۔پھر ان میں فنی اور لسانی بنیادوں پہ ایسی پیچیدگیاں تھیں کہ ان کا نظامِ لکھائی پڑھائی (orthography)جدید ذرائع ابلاغ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔اسی وجہ سے کتب کی اشاعت نہیں ہورہی تھی۔اسی وجہ سے مادری زبانوں میں تدریسی اور تخلیقی سلسلے منقطع تھے۔
2017 میں جہاں بہت سے اچھے برے کام ہوئے۔ان میں ایک قابلِ تحسین کام صوبائی حکومت کا مادری زبانوں کو سکولوں میں بہ طورِ مضمون رائج کرنے کا فیصلہ تھا۔
پچھلے ایک مضمون میں تفصیل سے ذکر کیا تھا کہ اس سلسے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ۔شنا ،بلتی ،بروششکی ،کھواراور وخی زبانوں کے ماہرین اور اہلِ تحقیق اس کمیٹی میں شامل تھے۔معروف شینا ، اردو شاعر اور اعلا افسر ظفر تاج صاحب اس کے سربراہ تھے۔ ان کی زاتی دل چسپی ،زبان و بیان کے اصولوں سے آشنائی اور احساسِ ذمہ داری کی بہ دولت ابتدائی مرحلے میں شینا کا دقّت طلب کام بہ احسن سرانجام پایا تھا۔ اس میں فنی ،لسانی اور جدید سائنسی امور مدنظر رکھے گئے تھے۔
یہ کمپیوٹر کا دو ر ہے ۔پہلے کی طرح کتابت کے ذریعے کتابیں شائع نہیں کی جاتیں ۔کمپیوٹر پر کمپوز کر کے طباعت و اشاعت کے مراحل تک پہنچایا جاتا ہے۔اس کے لیے لازمی تھا کہ شینا کے جو مخصوص اصوات ہیں ان کی حرفی علامات ایسی وضع کی جائیں جو کمپیوٹر کے لیے قابلِ عمل ہو۔
unicode ایک بین الاقوامی کمپیوٹرائزڈ نظامِ لکھائی پڑھائی ہے۔ اس نے دنیا بھر کی زبانوں کی اصوات (آواز ) کے مطابق معیاری حروف اور علامات مرتب کیے ہیں ۔انہی اصولوں کے مطابق کمپیوٹر پہ لکھا جاتا ہے۔
اب کمپیوٹر کا نظام ا نہی کا بنایا ہوا ہے۔اس لیے ہمیں سر جھکا کے ان ہی کے اصولوں کے مطابق چلنا ہوتا ہے۔شنا حروفِ تہجی پر کام کرنے والی ٹیم انہی خطوط کے مطابق حروف اور علامات وضع کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔اس اہم او ر بنیادی کامیابی کے بعدظفر صاحب کی اور اکثر اہلِ قلم کی یہ خواہش تھی اور یہ ایک منطقی خواہش تھی کہ باقی زبانوں کے لیے بھی حروفِ تہجی کی تشکیل انہی خطوط پہ ہو تاکہ اس پورے خطے کی زبانیں ایک مشترک اصول کے تحت ایک دوسرے سے مربوط ہوسکیں ۔اس سے نہ صرف لسانی تنوّع کا حسن نظر آئے گا بلکہ ایک لسانی ہم آہنگی بھی ہوگی ۔مطلب یہ کہ ہر زبان بولنے ،لکھنے اور پڑھنے والا اپنے انداز میں اسے برتے گا مگر حروفِ تہجی بہت حد تک مشترک ہوں گے ۔
جی بی کی تمام زبانوں کو یک جِہتی لسانی و فنی اصولوں پہ متفق کرانے کے لیے ظفر تاج صاحب بڑے متحرک تھے۔ان ہی کی زاتی توجہ سے،FLI (فورم فار لینگویج انّیشی ایٹیو اسلام آباد ۔۔۔یہ ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو شمالی پاکستان کی دم توڑتی زبانوں کی بقا کی کوششیں کرتی ہے۔فنی اور لسانی آسانیاں فراہم کرتی ہے۔) کے لسانی ماہرین نے گلگت کا دورہ کیا ۔۲۹ دسمبر ۲۰۱۷ سے تین دن کے تربیتی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا ۔تمام زبانوں کے ماہرین نے اس میں شرکت کی ۔
اور اس ورکشاپ کے آخری دن ایک تاریخ ساز کارنامہ رُو بہ عمل ہوا ۔پہلی دفعہ مادری زبانوں کا صوتی اور صوری (آواز اور حروف و علامات )نظام کو متفقہ عملی شکل دی گئی۔۔
ا س ورکشاپ کی تفصیلات آپ کل پڑھ لیں گے ۔
(***)
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button