کالمز

وزیراعلیٰ ایک بار پھر عوامی عدالت میں

تحریر :فیض اللہ فراق

مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کا وہ جملہ ہر دور کی جمہوری تاریخ میں لکھا جائیگاجس میں انہوں نے کہا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے یہ بات حقیقت ہے کہ ریاستوں کا وجود جہاں عوام کیلئے ضروری ہے وہاں عوام بھی ریاستوں کیلئے ناگزیر ہیں دونوں لازم و ملزوم ہیں عوامی ووٹوں سے سیاسی حکومتیں بنتی ہیں اور انہی حکومتوں سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ یہ عوامی جذبات و احساسات پر مبنی فیصلوں کے ذریعے دلوں میں اپنا مقام بنالیں،جمہوری نظام کی پختگی کیلئے عوام و سیاست دانوں کے مابین کوئی خلا نہیں ہونا چاہیے دونوں کی آپس میں جڑت اور وابستگی جمہوریت کی مضبوطی تصور کی جاتی ہے عوام سے راہ فرار اختیار کرنے والے سیاستدانوں کا حشر بہت برا ہوتا ہے او روہ تاریخ کے اوراق میں زندگی نہیں پاتے اور نہ ہی کڑے وقتوں میں عوام ایسے لوگوں کی مدد کرتی ہے عوامی ووٹوں سے منصب اقتدار پر فائز رہنے والی شخصیات عوامی عدالت میں پیش ہونے کی جرات نہیں کرپاتی کیونکہ یہ لوگ عوامی توقعات پر پورانہیں اترسکتے ہیں اور نہ ہی ان کی جذبات کی قدر دانی کاگر انہیں آتے ہیں ۔بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں جمہوریت و سیاست کا شعبہ روبہ زوال کی جانب گامزن ہے اور ایک تماشہ بنا ہوا ہے یہاں تک کہ سماج کا یہ اہم شعبہ نابالغ سیاسی و سماجی رویوں کی وجہ سے ایک گالی بنتا جارہاہے جس کی وجہ سے ملکی تاریخ میں جمہوری تسلسل کو بڑی آسانی سے ختم کیا جاتا رہا ہے یہ ادارہ آج تک مستحکم اس لئے نہ ہوسکا کہ اس سے جڑے افراد اپنی باطنی کمزرویوں کا شکا ر رہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جمہوری لوگ جمہوریت کو پختہ کرتے اس کے برعکس ان لوگوں نے وقتی اقتدار اور کرسی کو اپنا مطمع نظر رکھتے ہوئے ہر دور میں صرف مہروں کا کردار ہی ادا کیا اور ایک دوسرے پر الزم تراشی اورایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا فریضہ انجام دیا۔عشروں پر محیط ملکی جمہوری تاریخ نے موجودہ دورمیں ایک نیا رخ اختیار کیا ہے جس کے اچھے برے نتائج جلد متوقع ہیں ملک کا انتہائی قلیل آبادی کا علاقہ گلگت بلتستان میں جمہوری تاریخ کا آغاز 1960ء کی دہائی سے ہوا ہے اور 1990کی دہائی سے باقاعدہ جماعتی بنیادوں پر الیکشن کے ذریعے عوامی ووٹوں سے نمائندوں کا انتخاب ہوتا چلا آرہاہے ۔جمہوریت کی روح عوام کی خدمت ہے جبکہ ماضی کے مختلف ادوار میں گلگت بلتستان سطح پر مذکورہ جمہوری روح کو زخم خوردہ کیاگیا ہے ۔ماضی میں ایسی کوئی مثال قائم نہیں ہوسکی جس میں عوامی نمائندے عوامی عدالت میں پیش ہوں خوش آئندپہلو یہ ہے کہ موجودہ وزیراعلیٰ گزشتہ کچھ مہینوں سے کھلی کچہریوں کے ذریعے عوامی عدالت میں حاضری دیتے ہیں اور عوام کے براہ راست تلخ سوالات کے جوابات دیتے ہوئے ان کے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں ۔یقیناًاس طرز کی سرگرمیاں عوام و حکمرانوں کے مابین پیدا شدہ خلا کو پر کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔گزشتہ روز وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حفیظ الرحمن نے سب ڈویژن جگلوٹ کے مقام پر وزیراعلیٰ کیمپ آفس کا افتتاح بھی کیا اور کھلی کچہری کے عنوان سے منعقدہ پروگرام میں عوامی عدالت میں پیش بھی ہوئے عوام نے طرح طرح کے سوالات کے ذریعے مسائل کے انبار لگادیے جبکہ تاریخ میں پہلی بار اسی سب ڈویژن کے لئے مختلف شعبہ جات میں 2ارب کے منصوبے منظور ہوئے ہیں جن میں سے بعض پر کام کا آغاز ہوچکا ہے کھلی کچہری میں جگلوٹ کی عوام نے پانی ،بجلی ،گندم،سکولز اور سٹرکوں کے ایشو ز پر کھل کر وزیراعلیٰ کے سامنے اپنا موقف رکھ دیا وزیراعلیٰ نے بڑے تحمل سے عوامی جذبات کا مدبرانہ جوابات دیے اور مسائل کے حل کیلئے تمام محکموں کے سربراہاں کو خصوصی ہدایات بھی جاری کیں۔جمہوری نظام میں عوام اور حکمرانوں کا یہ تعلق ہمیشہ کیلئے قائم رہنا چاہیے کیونکہ عوام ہی تو ہیں جن کی وجہ سے وزیر اعلیٰ اور وزیر بنتے ہیں عوام کی مرہون منت سیاسی لوگوں کو عزتیں اور مراعات ملتی ہیں عوام کے دکھ کو بانٹنے اور کم کرنے والی شخصیات عوامی دلوں پر راج کرتی ہیں ۔امید ہے کہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان عوام کی قربت والی روایت کو مزید پختہ کریں گے اور عوامی درد کو اپنادرد سمجھیں گے اور پورے گلگت بلتستان کو یکساں نظر سے دیکھیں گے تاکہ گھر کی خوبصورتی ماند نہ پڑے جائے کیونکہ گلگت بلتستان ایک ہی گھر ہے اگر عوامی توقعات پر مبنی فیصلے نہیں ہوں گے اور عوام و حکمرانوں کے مابین فاصلے قائم ہوں تو پھر کل گیند ایک مرتبہ پھر عوام کی کورٹ میں ہوگی اور حکمران عوامی چوکھٹ پر فریادی ہونگے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button