کالمز

میڈیا اور ہمارے رویے(ایک افسانوی بیانیہ)

احمد سلیم سلیمی

شام سمے کا اضطراب ہُوک جگا رہا تھا۔برفیلی چو ٹیوں سے اترتی ہوا ،گرم کپڑوں سے اندر گُھس کر جسم کو ٹھٹھر ا رہی تھی۔دریائے گلگت کا نیلگوں پانی ،اپنے اندر برف شاروں سی ٹھنڈک لیے بہہ رہا تھا۔

امپھری کے پاس دریا کنارے کی نم ریت پہ ،میرا ہم زاد بسمل فکری آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا ۔اس کی آنکھوں میں صحراؤں سی پیاس تھی۔ہونٹ سلگتے ریگزاروں کی طرح خشک تھے۔جنوری کی شدید سردی کے باوجود وہ بڑے سکون سے گیلی ریت پہ بیٹھا ہوا تھا۔

وہ کہہ رہا تھا۔۔’’اندر لاوے ابل رہے ہوں تو باہر کی یہ سردی کچھ بھی اثر نہیں کرتی ۔یہ انسان ،یہ سماج ،یہ عقل و دانش کی فراوانی ،یہ میڈیا کی جادو گری ۔۔۔اور اس کے اثر سے بننے والے انسانی رویے۔۔۔۔۔اک اضطرابِ مسلسل غیاب ہو کہ حضور ‘‘

میں نے کہا ۔’’بسمل فکری !تم سدا کے قنوطی ہو ۔علم بڑھا ہے۔عقل میں اضافہ ہوا ہے ۔ہر طرح کے میڈیا کی بہ دولت سب کی معلومات کا دائرہ وسیع ہوگیا ہے ۔ہر طرف پیسے کی ریل پیل ہے۔پھر یہ مایوسی کی بات کیوں ۔۔؟‘‘

اس نے نم ریت مٹھی میں لے کر اسے زور سے دریا کی طرف اچھال دیا ۔پھر سلگتے لہجے میں کہا ۔

’’میں مانتا ہوں علم بڑھا ہے ،مگر بے سکونی بھی بڑھ گئی ہے۔عقل میں اضافہ ہوا ہے ،ساتھ ہی بے دانشی بڑھ گئی ہے۔میڈیا فاسٹ ہوگیا ہے، اس سے انتشار بھی بڑھ گیا ہے۔دولت چھپّر پھاڑ کے ملی ہے مگر بے ایمانی اور لالچ بھی بڑھ گئی ہے ۔سماج نے ترقی کی ہے ،مگر یہی سماج ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہے۔عبادات کا ویسے تو ہر سُو غلغلہ ہے،مگر اخلاقیات مردہ ہیں ۔۔۔خدا کی پناہ! برائی کا چلن اتنا عام

ہوگیا ہے کہ اچھے رویے ،ڈھونڈھنے سے کہیں کہیں ملتے ہیں۔۔۔‘‘

میں نے کہا ۔’’ اندھیرا جتنا بھی گہرا ہو ۔سارے دیے بجھ بھی گئے ہوں ،تب بھی ،دیر سے سہی ،سحر ایک توانا امید بن جاتی ہے ۔تم بھی امید رکھو۔یہ اچھے رویے لوٹ آئیں گے۔‘‘

بسمل فکری نے زور سے لبِ دریا کی گیلی ریت پہ ہاتھ سے مارا ۔ریت کے نم ذرّے اور پانی کے چند ایک چھینٹے اس کے چہرے پہ پڑے ۔اس نے دھواں دھوں لہجے میں کہا ۔۔’’میں امید کہاں سے لاؤں ؟یہ معصوم بچیاں ،جن کی آنکھوں نے ابھی کوئی خواب بھی نہیں بُنا تھا۔جن کے دل ابھی نرم گرم جذبوں سے آشنا بھی نہ ہوئے تھے۔جو اتنی کم سن تھیں کہ ذرا سا کانٹا چُبھنے پر بھی رو رو کر ہلکان ہوتی تھیں ۔ان پر وحشیانہ ستم کرنے والے درندے انسانی روپ میں قیامت ڈھا رہے ہیں ۔اس قیامتِ صغریٰ کے بعد بھی ان معصوم بچیوں کا قصور معاف نہیں ہوتا ۔۔۔روزانہ آٹھوں پہر ایک بے ہنگم ،بے لگام اور بے تکان میڈیا پہ ان کے ساتھ ہوئے ظلم کا ڈھم ڈھم ڈھول پیٹا جاتا ہے۔۔۔سیاست ،منافقت اور مفادات کی گرم بازاری ہوتی ہے۔اقتدار کے ایوانوں سے لے کر علم و دانش کے دبستانوں تک ،ٹی وی کے درجنوں چینلوں سے لے کر ،سوشل میڈیا کے مادر پدر آزاد ہنگاموں تک ۔۔۔کسی برائی کے خاتمے کی پُر خلوص کوششیں کم ہوتی ہیں ،بناوٹ اور تصنُّع کے مظاہرے زیادہ ہوتے ہیں۔

’’پھر اس ہنگامہ پرور میڈیا (ٹی وی ،فیس بک ،ٹویٹر وغیرہ)پہ ایسے نہایت نازک اور حساس موضوع پر ،ایسے ایسے ارسطوئے زماں اور سقراطِ دوراں عقل و دانش اور انکشافات کے ڈونگرے برساتے ہیں کہ انتشار مزید بڑھ جاتا ہے۔اب دیکھئے اس ذینب کے واقعے کے بعد ،ٹی وی والوں کو کیسا چسکے دار موضوع ہاتھ آگیا ہے ۔کم سِن بچے بچیوں کے ساتھ سیکس ،زیادتی اور قتل جیسی خبریں ،تجزیے ،تصویریں اور مناظر اس تواتر ، افراط اور سنسنی خیزی کے ساتھ دکھائے اور بیان کیے جاتے ہیں ۔۔۔کہ یہ بہ ذاتِ خود ایک بڑا سوال ہے، انہیں دیکھنے والے کم عمر بچے بچیوں پر ان کے کیا اثرات پڑتے ہیں ؟روشن خیال دانشور تو یہی کہیں گے کہ اس سے آگہی پھیل جاتی ہے۔مگر والدین اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر، ٹی وی پر جب سیکس،زیادتی اور قتل کی بریکنگ نیوز اور چیخم دھاڑ سنتے اور دیکھتے ہیں تو اندر سے لرز اٹھتے ہیں کہ ان کچی عمر کے کچے ذہنوں پہ یہ کیسا زہر اتارا جارہا ہے؟کس طرح ان کی معصوم سوچوں اور جذبوں کو سنوارنے کے بجائے بگاڑا جارہا ہے۔۔۔؟

کانسپی ریسی تھیوری کی بات کرتے ہیں کہ ۔۔ہمارا میڈیا مغرب کے زیرِ اثر ان کی پالیسیوں کو فروغ دیتا ہے۔ بچیوں سے زیادتی ،قتل اور سیکس کے معاملات کو اتنا اچھالا جاتا ہے کہ مغرب کی طرح ماحول بنانے کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔پھر اسے عالمگیریت کا نام دے کر مذہبی اور مشرقی قدروں کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔جب ہمارے اندر سے شرم ،حیا اور مذہبی وسماجی قدریں مٹ جائیں گی تب اسلام کی روح اندر سے نکل جائے گی ۔۔۔مغرب اسی اسلام کی روح اور جذبے سے خائف ہے۔اسی لیے تو دنیا بھر میں اسلاموفوبیا کا خوف مسلط کیا گیا ہے۔

’’عالمِ کفر کے ہزاروں حیلے ہیں ۔۔کبھی دہشت گردی ،کبھی انتہا پسندی ،کبھی بنیاد پرستی اور کبھی روشن خیال اسلام کے نام پر مسلم ممالک کو نشانے پہ رکھتے ہیں۔سُپر فاسٹ میڈیا کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہے۔ہمارے جیسے ممالک تو محض صار ف ہیں ۔پیدا کنندہ اور اثر انداز تو اہلِ مغرب ہیں ۔۔۔ایسے میں اس اندھی تقلید کے بد اثرات سے ہماری بنیادیں اکھڑ رہی ہیں ،تو کوئی انہونی تو نہیں ۔۔۔‘‘

میں بڑی دیر سے خاموش تھا۔دریائے گلگت کی لہروں سے اٹھتی جل ترنگ تھی ،یا پھرسامنے کچھ فاصلے پر خزاں رسیدہ درختوں کے بیچ، ریور ویو روڑ پر گلگت سے بسین یاغذر آتی جاتی گاڑیو ں کا شور تھا ۔ان دو طرح کی آوازوں کے درمیان ،اس کی باتیں کانوں سے اتر کر اندر دل کی دیواروں سے ٹھک ٹھک ٹکرا رہی تھیں ۔

میں نے کہا ۔’’بسمل فکری ! کانسپی ریسی تھیوریز ،ضروری نہیں حقیقت بھی ہوں ۔اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انہیں یک سر نظر انداز کیا جائے۔دھواں ،آگ لگنے والی جگہ سے اٹھتا ہے اسی طرح یہ سازشی تصورات بھی ،کہیں نہ کہیں فتنہ و فساد کی لگی آگ سے پیدا ہوتے ہیں یا پھر آگ لگانے کے لیے پیدا کیے جاتے ہیں۔اب اسے جو بھی نام دے دیں ۔یہ حقیقت ہے میڈیا کے مغربی اثرات ،ہمارے سماج میں ،ہماری سوچ میں اور ہماری زندگی میں داخل ہوگئے ہیں ۔یہ لباس کی شکل میں ،فیشن کی شکل میں ،ترقی پسند سوچ کی شکل میں اور کامیابی کے معیارات کی شکل میں ،ہم میں سرایت کر گئے ہیں ۔

’’المیہ یہ ہے ہماری اپنی سوچ توانا نہیں ۔کوئی سمت واضح نہیں۔کوئی وژن قائم نہیں ۔بس ایک بھیڑچال ہے۔سوچ بھی ،رویے بھی ،علم و دانش بھی ،بڑی کرسی والوں کے فیصلے بھی ،میڈیا کی پھرتیاں بھی ۔۔۔سب سے بڑھ کر عوام کا وہی بے سمت سفر بھی ۔۔۔ تقلیدی اور تخریبی زیادہ ہے،عملی اور تعمیری کم ہے۔‘‘

بسمل فکری نم ریت سے اٹھا ۔دریاکا نیلگوں پانی ،لہروں کے سرگم میں جھومتا گزر رہا تھا۔اس نے ایک گہری سانس لی ۔’’گرو ! آپ کی یہ دنیا رہنے کے قابل نہیں رہی ہے۔کسی شاعر کا یہ قاتل شعر شاید میرے لیے ہی ہے ۔۔۔

جو بھی حساس ہے زمانے میں

اس سے کہہ دو کہ گُھٹ کے مر جائے

میرا بھی دم گُھٹ رہا ہے ۔انسانوں کی بستی میں ،انسان ڈھونڈتے ڈھونڈتے میں عاجز آگیا ہوں ۔میں جا رہا ہوں ۔یہاں سے بہت دور ۔۔۔ان برف پوش چوٹیوں کے اُس پار ،جہاں جھیلیں ہیں ،جہاں محبت ہے ،جہاں ایثار ،خلوص اور ہم دردی ہے ۔وہاں کے بسنے والے اتنے بے حس نہیں ۔کسی بچی پہ قیامت ٹوٹ پڑے تو وہ سیاست نہیں کرتے،قیامت کے خوف سے لرز اٹھتے ہیں ۔ہر مظلوم کی امید اور ہر ظالم کے لیے قہر بن جاتے ہیں۔مجھے ادھر ہی سکون ملتا ہے۔۔۔۔‘‘

بسمل فکری نے یہ کہا ۔تین فرشی سلام کیے اور دریا کی نیلگوں لہروں پہ سہج سہج چلتا،میری نظروں سے اوجھل ہوگیا ۔

میں نے ایک گہری سانس لی ۔سورج بلند بلند پہاڑوں کے پیچھے کب کا غروب ہوچکا تھا۔اب ان چوٹیوں سے اتر کر ، شام کے گہرے ہوتے سائے چاروں اور اتر رہے تھے۔میں بوجھل بوجھل قدموں سے چلتا ،دریائے گلگت سے دور ہوتا گیا ۔بسمل فکری کی باتوں سے اندر تکدُّر سا پھیل گیا تھا۔اس کم بخت کو لاکھ سمجھاؤ،وہ مایوسی سے باز نہیں آتا ۔کیوں کہ جب اچھا ہونے کا محض ڈھنڈوراپیٹا جارہا ہو ،حقیقت میں افراد سے لے کر اداروں تک ،چھوٹی سے لے کر بڑی کرسی تک بس تماشا گری ہو ۔علم و فن ،قلم کار اور فن کار بے قدری کی زد میں ہوں ۔عہدہ ،پیسہ اور سٹیٹس ،سماجی مرتبے اور عزت کی علامت بنے ہوں ۔۔۔ایسے میں اس کے بہ قول کون کافر رجائیت کا راگ الاپے گا۔۔۔سو اس کی کھٹی میٹھی باتیں برداشت کر لیتا ہوں ۔

مایوسی کفر ہے۔جہاں برائی بے حد ہے وہاں بہت کچھ اچھا بھی ہورہا ہے۔بس اس اچھائی کو عام کرنا ہے ۔اور یہ ہمارے جیسوں کے لیے مشکل ہے ،ناممکن نہیں ۔بس اس کے لیے پورے شعوری جذبوں کو کام میں لانا ہے۔

اس کے لیے لازمی ہے علم (محض ڈگریوں والا نہیں) کا جنون ہو۔وژن (میڈیا والا نہیں ) کا احساس ہو ۔جذبہ (مذہبی جنونیوں والا نہیں )بے حد ہو۔او ر رہنمائی (سیاست کاروں والی نہیں )یقینی ہو۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button