کہتے ہیں بچے نقل اتارتے ہیں لیکن آج کل کے بچے نہ صرف نقل اتارتے ہیں بلکہ من کی بات جانتے ہیں یا یوں سمجھئیے کہ آپ کو شیشے میں اتارنے میں ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔ میں جب بھی کھلے آسمان کی طرف دیکھتا ہوں۔ پھر دیکھتا ہی رہ جاتا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ میری ننھی پری آشا نوٹ کر رہی ہے۔ اب جب کراچی کی تنہائیاں کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں۔ ان سے راہِ فرار کا ذریعہ سجھائی نہیں دیتا تو میں آشا کو لے چھت پہ جاتا ہوں تو آشا پاپا مون دیکھو مون کا رٹ لگاتی ہے اور تکرار بھی کہ پاپا مجھے مون لاکے دو ناں۔ اب ان کو کون سمجھائے کہ پاپا بھی مون کی روشنیوں میں صرف بھیگ سکتا ہے، اس کی ٹھنڈک کو اپنی روح کی گہرائیوں تک محسوس کرسکتا ہے لیکن اسے پا نہیں سکتا۔ میری جانب مسلسل خاموشی کو دیکھ کر آج تو آشا نے حد کردی۔ براہ راست اپنے ننھے ہاتھ چاند کی طرف اٹھاکے پتہ ہے کیا کہتی ہے۔ مون آؤ ناں میرے پاس۔ میں تمہیں بسکٹ کھلاتی ہوں۔ ہم کھیلتے ہیں پاپا بھی ہیں۔ حد کرتے ہیں یار یہ بچے بھی۔ اس دن آغا خان ہسپتال کے سبزہ زار میں بیٹھے میں ایک دفعہ پھر نیلگوں آکاش میں کھو گیا تھا۔ آشا نے مداخلت کی کہا پاپا! تمہیں سن بہت پسند ہے ناں۔ وہ دیکھو سن۔ سن مون کی طرح مہربان تھوڈی ہے؟ ایک دم آنکھوں میں چب جاتا ہے۔ آشا نے بھی اپنی آنکھوں میں چھبن محسوس کی لیکن باز نہیں آئی بلکہ میرے چشمے اتار کے خود پہنی اور ایک دفعہ پھر سن سے مخاطب ہوئی۔ وہی معصومانہ حرکتیں، وہ باتیں، وہی خواہشیں کہ سن آؤ ناں میرے پاس۔ میں تمہیں بسکٹ کھلاتی ہوں۔ ہم کھیلتے ہیں۔ پاپا بھی ہیں۔ یہ تصویر انہی معصوم خواہشوں کی عکاسی ہے۔ ننھی آشا اکثر مون، سن اور سٹارز سے باتیں کرتی رہتی ہے۔ ان کی ان حرکتوں کو دیکھ کر ایک آزاد نظم یاد آئی۔