آج ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب صاحب کے ساتھ ایک دلچسپ نشست رہی۔ جس میں انہوں نے اپنی تازہ تصنیف ’’کتاب المعارف‘‘ (حصۂ اوّل) کی اعزازی کاپی عنایت فرمائی۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی اپنے شاگردوں سے محبت اور خاص طور پر مجھ پر شفقت کی علامت ہے۔ ہم جب بھی ملتے ہیں استاد شاگرد کے روایتی خول سے آزاد ڈاکٹر صاحب ہمیشہ قدر افزائی فرماتے ہیں۔ جب کئی سال پہلے میری ادارت میں ’’فکرونظر‘‘ نکلتا تھا ڈاکٹر صاحب اس کے مستقل لکھاریوں میں شمار ہوتے تھے اور بڑی محبت سے نہ صرف اپنے تحقیقی مقالات سے نوازتے تھے بلکہ میری فرمائش پر رسالے کے گوشۂ ادب کے لیے خصوصی کلام بھی تحریر فرماتے۔ رسالہ کسی وجہ سے جب بند ہوا تو ڈاکٹر صاحب کافی ناراض ہوئے اور اکثر مجھ سے کہتے تھے ’’ریٹارمنٹ کے بعد بحیثیت ایڈیٹر میں نے آپ کے ساتھ کام کرنا تھا لیکن آپ نے رسالے کی اشاعت ختم کرکے کم سے کم میرے ساتھ نا انصافی کی ہے۔‘‘ میں کہتا ’’سر! آپ شرمندہ کر رہے ہیں میں تو آپ کے شاگردوں کا شاگرد ہوں آپ میرے ساتھ کیسے کام کریں گے؟‘‘
پتہ ہے کیا کہتے تھے شفقت کا ہاتھ میرے کاندھے پہ رکھ کے فرماتے کہ ’’یہ میرے لیے اعزاز سے کم نہیں ہوگا کہ میرا شاگرد میرا بوس ہو۔‘‘ میرے اور میرے ایک چھوٹے سے رسالے کے بارے میں اتنے بڑے آدمی کا یہ کہنا میرے لیے باعثِ فخر اپنی جگہ لیکن اس سے آپ ان کی علمی بڑائی کا بھی اندازہ کرسکتے ہیں۔
آپ کی معلومات کے لیے ڈاکٹر صاحب کا مختصر تعارف ضروری سمجھتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ وہ دُنیائے اسماعیلیت کے مایۂ ناز اور سکہ بند اسکالرز میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جن کی علمی و ادبی خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔ سرزمین ہنزہ بالا میں خیر آباد (رمنجی) سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عزیز اللہ نجیب بحیثیت سینئر ریسرچ اسکالر اسماعیلی طریقہ بورڈ برائے پاکستان سے منسلک رہے۔ کئی عشروں سے شہر قائد میں قیام پذیر ہیں۔ آپ نے کراچی یونیورسٹی سے ایم۔ اے، ایل۔ ایل۔ بی کی ڈگری حاصل کی۔ پھر فلسفہ میں کراچی یونیورسٹی سے ایم۔ فل کی ڈگری حاصل کی اور بعد اذاں حکیم ناصر خسروؒ کے تصورِ عقل پر ہمدرد یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اس وقت وہ ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور اسماعیلی اسٹیڈیز لندن سے شائع ہونے والی انگریزی کتابوں کا اردو میں ترجمہ بھی کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ اپنی تصنیفات کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ جوکہ قابلِ ستائش ہے۔
اب ذرا ان کی تازہ تصنیف ’’کتاب المعارف‘‘ پر بات ہوجائے۔ ایک سو ستر صفحات پر مشتمل یہ کتاب کتابی حجم کے اعتبار سے یقیناً چھوٹی ہے لیکن اپنے موضوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت رکھتی ہے۔ جس میں اسماعیلی بنیادی تصورات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اسماعیلی تشریح و تعبیر کے مطابق توحید، نبوت، امامت، ایمان کی معرفت، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر صلوات بھیجنے کی معرفت، معاد، اسلام کا باطنی پہلو، اطاعت کی شناخت، عبادت کی اہمیت اور معرفتِ نفس وغیرہ پر گیرائی و گہرائی سے گفتگو کی گئی ہے۔
سب سے اہم بات کتاب کے آخری کچھ صفحات میں چند مخصوص سوالات کا تشفی بخش جواب دیا گیا ہے جو اکثر اسماعیلی مسلمانوں اور دیگر برادرانِ اسلام کی طرف سے پوچھے جاتے ہیں۔ میرے خیال میں ڈاکٹر صاحب کی اس خوبصورت علمی کاوش کے بعد کسی حد تک ایک دوسرے کو سمجھنے کے حوالے سے نہ صرف علمی پیاس بجھائی جاسکتی ہے بلکہ ایک دوسرے کے حوالے سے غلط فہمیاں بھی دور کی جاسکتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو ان کی تازہ تصنیف پر مبارکباد کے ساتھ آپ تمام سے گزارش ہے جو کتابوں سے محبت رکھتے ہیں وہ اس کتاب کا مطالعہ ضرور کجیئیے اور مثبت سوچوں کو تقویت دیجئیے۔
مولانا رومیؒ کی اس تمثیلی حکایت کے ساتھ آپ سے اجازت چاہوں گا۔
کسی شخص نے چار مسافروں کو ایک درہم دیا۔ ان میں سے ایک ایرانی تھا دوسرا عرب تیسرا ترک اور چوتھا رومی۔ ایرانی نے کہا ’’اس درم پر انگور خریدیں گے۔‘‘ عرب نے کہا ’’بالکل نہیں عنب (یعنی انگور) خریدیں گے۔‘‘ ترک نے کہا ’’جی نہیں ازم (یعنی انگور) خریدیں گے۔‘‘ رومی نے کہا ’’ہرگز نہیں، اس پر استافیل (یعنی انگور ہی۔) خریدیں گے۔‘‘ چاروں انگور خریدنا چاہتے تھے مگر الفاظ کے معنی نہ سمجھنے کی وجہ سے باہم لڑ پڑے اور ایک دوسرے کو مارے پیٹے۔
یہی حال ادیان کا ہے۔ سب خدا کی خوشنودی چاہتے ہیں مگر کسی اور زبان اور دوسرے طریقے سے۔ جب دوسروں کی زبان اور طریقہ سمجھ میں آتا ہے تو ایک دوسرے سے دست و گریباں نہیں ہوتے بلکہ ایک دوسرے کی قدر کرتے ہیں اور ترقی یافتہ اور علمی عروج پانے والے لوگ اس کو ڈائیورسٹی اور پلوریلزم کہتے ہیں۔ جبکہ قرآن پاک نے اس نوشن کو اختلاف کہا ہے۔ ہمیں قرآن پاک کی اس تعلیم کو زادِ راہ بنانا ہوگا۔