آج سے 50سال پہلے چیچک اور پولیو کے امراض بہت عام تھے جن لوگوں کی عمریں آج 50سے اوپر ہیں ان میں سے اکثر کے چہروں پر چیچک کے داغ آج بھی نظر آتے ہیں۔ لیکن 2018ء میں چیچک کا نام بھی ہمارے بچوں کو معلوم نہیں۔ چیچک کا مرض نصف صدی کے عرصے میں کس طرح ختم ہوا؟ اگر لوئس پاسچر ویکسین دریافت نہ کرتا تو چیچک کے خلاف بچوں کی قوت مدافعت کبھی بیدار نہ ہوتی اور چیچک کبھی ختم نہ ہوتا ۔ پڑھے لکھے لوگوں کے علاوہ ان پرھ، نا خواندہ اور عام دیہاتی بھی بخوبی جانتے ہیں کہ 1950ء اور 1960ء کے عشروں میں ویکسینیٹر آتے تھے۔ سال میں دو مرتبہ، کبھی تین مرتبہ بچوں کو ویکسین دیتے تھے۔ یہ ویکسین انجکشن کے ذریعے بھی دیا جاتا تھا۔ایک ایسا آلہ بھی تھا جو بازو میں گول جگہ چھید کر کے ویکسین ڈاخل کرتا تھا۔ یہ انجکشن کے مقابلے میں آسان تھا مگر اس جگہ پھوڑا بنتا تھا اور کئی دنوں تک رہتا تھا۔ویکسی نیشن کی وجہ سے چیچک کا مرض 30سالوں میں ختم ہوا۔ یہ ویکسی نیشن کی کامیاب مثال ہے۔ علماء بھی اس مثال سے واقف ہیں۔ عام لوگ بھی اس مثال سے واقفیت رکھتے ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں پولیو کے خلاف اسی طرح کی آگاہی پھیلائی گئی ۔ دینا بھر میں پولیو کے خاتمے کی مہم چلانے کے لئے وسائل اکھٹے کئے گئے ۔ عالمی ادارہ صحت (WHO نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے لئے اہداف مقرر کئے۔ ترقی یافتہ ممالک میں مہم کامیاب ہوئی، ترقی پذیر ممالک کے اندر لوگوں کی جاہلیت سے فائدہ اٹھا کر مختلف پروپیگنڈے چلائے گئے ۔دراصل قوموں کے درمیاں مقابلہ ہے۔ کون اپنے ملک سے پولیو کا خاتمہ کرتا ہے اور کون اس مہم میں ناکام ہوتا ہے؟ دشمن ملک کے 10کارآمد نوجوانوں کو مارنے سے یہ بہتر خیال کیا جاتا ہے کہ ایک نوجوان کو معذور کر کے عمر بھر کے لئے ناکارہ شہری بنادیا جائے۔ یہ جنگی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ دشمن کے لئے اس بات کی اہمیت زیادہ ہے کہ کتنے لوگوں کو معذور کردیا گیا۔ دشمن ممالک نے پاکستان کو اس حوالے سے خصوصی ہدف اور ٹارگٹ بنایا ہوا ہے۔ ان پڑھ آبادی کے اندر بھی پولیو کے حق میں مہم چلائی جاتی ہے۔ خواندہ لوگوں کے ذہنوں میں بھی ویکسین کے خلاف زہریلا مواد انڈیل دیا جاتا ہے تاکہ پولیو سے محبت اور ویکسین سے نفرت کی فضا پیدا کی جائے۔ 2007ء میں دشمن کو بڑی کامیابی ملی تھی جب پڑوسی ملک بھارت کو پولیو سے پاک قرار دیا گیا اور پاکستان کو پولیو وائرس پھیلانے والے ممالک میں شمار کرکے خبردار کیا گیا ۔ سفری پابندیاں لگانے کی دھمکی دی گئی ۔ 2010ء میں عالمی ادارۂ صحت نے بھارت کو پولیو ویکسی نیشن میں کامیابی کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا اور پاکستان کو ایک بار پھر وارننگ دیدی کہ ویکسی نیشن میں سستی نہ کرو ورنہ سفری پابندیاں لگا دی جائینگی۔ 2016ء میں انکار کرنے والے والدین کے لئے سزا مقرر کیا 2015ء اور 2017ء کے درمیانی عرصے میں دشمن کے کارندوں
نے جگہ جگہ پولیو ورکرز پر مسلح حملے کئے۔ویکسی نیشن کے لئے گاؤں گاؤں، محلہ محلہ، گھر گھر جانے والے رضا کاروں کو قتل کیا۔ ویکسی نیشن سٹاف کو بھی قتل کیا۔ یہ دشمن کی ڈھٹائی تھی۔ دشمن نے جب دیکھا کہ ان پڑھ لوگ بھی پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہوئے ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے ۔ پاکستان بہت جلد پولیو سے پاک ہونے والا ہے۔ عالمی سطح پر بدنامی کے کالے دائرے سے نکلنے والا ہے تو دشمن نے مسلح حملہ کرکے ویکسی نیشن کو روکنے کی کوشش کی ۔ اب بھی دشمن اپنی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔کبھی نیم خواندہ لوگوں سے پولیو کے حق میں تقریریں کرواتا ہے۔ کھبی پڑھے لکھے لوگوں کی خدمات حاصل کرکے پولیو کے حق میں میڈیا پر خبریں ، مضامین ، فیچر اور پروگرام لیکر آتا ہے۔ اس طرح کے سپانسرڈ (sponsored) پروگراموں میں پولیو کے مرض کی تعریف نہیں ہوتی بلکہ ویکسی نیشن کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ویکسی نیشن نہیں ہوگا تو پولیو ہوگا۔ جو دشمن کا اصل مقصد ہے۔ یہ بات کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ دنیا میں جدید سائنسی تحقیق کے ذریعے پولیو کے خاتمے کی ویکسین دریافت ہوئی ہے۔ اور دنیا کے 98ممالک میں ویکسین نے کامیابی کے ساتھ پولیو کا خاتمہ کیا ہے۔ اس مہم میں یورپ ، امریکہ اور WHOکی دلچسپی کا سبب یہ ہے کہ پولیو وائرس پاکستان جیسے ممالک سے دنیا بھر میں ایک بار پھر پھیل سکتا ہے اس لئے وہ اپنا دفاع کررہے ہیں پاکستان میں گذشتہ 2سالوں کے اندر پولیو کے خاتمے کی طرف مثبت اشارے ملے ہیں۔اس وقت افغانستان کی طرف سے پولیو وائرس داخل ہونے کا خدشہ باقی ہے۔ اس لئے حکومت شبانہ روز کوشش کررہی ہے۔ مگر ہمارا دشمن نہیں چاہتا کہ پاکستان بھی پولیو فری ممالک کی صف میں جگہ بنالے۔ آج ملک کے پڑھے لکھے طبقے کا فرض ہے کہ پولیو کے حق میں اور ویکیسن کے خلاف دشمن کے پروپیگنڈے کو ناکام بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت ہر سال 5ارب روپے سات بیماریوں سے دفاع کے لئے ویکسی نیشن پر خرچ کرتی ہے۔ پولیو ان بیماریوں میں ایک ہے۔ اگر دشمن کے پروپیگنڈے کو ناکام بنا کر ویکسین نیشن کا عمل ہماری حکومت نے جاری رکھا تو اگلے دو سالوں کے اندر چیچک کی طرح پولیو کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ وہ دن ہمارے اندرونی اور بیروبی دشمنوں کے لئے موت کا دن ہوگا۔ جس دن پاکستان کو بھی دیگر ممالک کی طرح پولیو سے پاک ملک کی سند مل جائیگی۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button