مقامی زبانوں کے لئے نصاب و درسی کتب
تحریر: محمدجان رحمت جان
جس زمین پر ہم اور آپ جیئے رہے ہیں اس پر رہنے والے سبھی بنی نوح انسان ہیں لیکن کرہ ارض کے ہر خطے کے لوگوں کی زبان ایک نہیں۔ ہر ملک اور سلطنت کے ساتھ کئی ملکوں اور ریاستوں میں ایک نہیں سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک بین الاقوامی حیثیت اختیارکررہی ہے کچھ ملکی شناخت پانے میں کامیاب ہوچکی ہیں باقی مقامی بولیاں اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ کچھ بولیاں محض شاعروں اور دانشوروں کے رحم و کرم پر ہیں اور کچھ مضبوط ثقافتی لہجے اور زباندانی کے کتابوں میں محفوظ ہیں۔الغرض کتابی دستاویز نے زبان کو اور اہل زبان کو ہمیشہ کے لئے زندہ رکھا ہے۔ جن زبانوں میں کتابیں چھپی ہیں یا کہانیاں اور داستانیں رقم ہیں وہی آج شہرت پارہی ہیں۔ یہ زبانیں اپنی دامن میں قدیم ورثہ اور اقدار لئے نئی نسل کے لئے مشعل راہ بن رہی ہیں۔ شاعر ادیب اور دانشوروں نے کتابوں کے ذریعے ہی اپنے دور کے اہم واقعات و حالات کو زندہ رکھا ہے۔ پاکستان میں صرف انگریزی‘اردو‘ فارسی‘ عربی‘ پنجابی‘ سندھی اور پشتو کو کتاب کی شکل دی گئی ہے۔ انگریزی‘ عربی‘ فارسی بین الاقوامی ہونے کی وجہ سے اردو قومی زبان کی حیثیت سے باقی صوبائی زبانوں کی وجہ سے یا قوم پرستی کی پشت پناہی کی وجہ سے زندہ ہے۔ باقی بولیاں شاعروں اور معاشرتی بول چال یا ناخواندگی کی وجہ سے زیست کی زینت ہے ورنہ ان کی بقا کو بہت خطرات ہیں اور بہت سارے مقامی بولیاں ناپید ہوتی جارہی ہیں۔
زبان کی بقا بول چال اور اہل دانش کی وجہ سے ہے۔ مگر جدید دنیا میں نصاب‘ سکول اور درسی کتاب بھی کسی حد تک زبان کی بقا کے لئے بنیادی جز بن رہی ہے۔ مقامی زبان کے نصاب کا تعین اور درسی کتب کی تشکیل ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ زبان کی تروئج کے لئے سب سے پہلے درسی کتاب کی کوشش شمالی ایرزونا یونیورسٹی امریکہ کے Jon Reyhnerنے کی ہے وہ اپنی تحقیق Teaching Indigenous languageیعنی مقامی زبانوں کی تدریس میں اپنے تجربات اور مطالعہ کی روشنی میں کہتے ہے کہ’’ زبان کی تروئج کے لئے دو طریقے ہوسکتے ہیں ایک ’ترجمعے کا طریقہ Translation Method‘ اور دوسرا ’گپ شب کا طریقہ Conversasional method‘ انہوں نے امریکہ میں مقیم انڈین قدیم باشندوں کی مدد سے جن کو اپاچی کہتے ہیں، گرائمر یاترجمہ کا طریقہ اور دوسرا بالکل بات چیت کا طریقہ یعنی Total Physical Response ان طریقوں سے تشکیل شدہ نصابی درسی کتب سے زبانوں کو کافی حد تک محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ ان کی تجربات میں کتابیں زبان کی تروئج کے لئے کوئی مستند مواد تو نہیں البتہ ایک ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ انہوں نے بڑی کوشش اور محتاظ طریقے سے نصابی اصول بناکر درجہ ذیل تین قسم کے کتابیں ترتیب دی تھی؛ ۱۔ مادری زبان کے لئے درسی کتاب‘ ۲۔ دوسری زبان کے لئے درسی کتاب‘ ۳۔ مخلوط زبانوں کے لئے درسی کتاب
تاریخی پس منظر میں زبان کیلئے نصاب درجہ ذیل ادوار میں ہوتے رہے جیسے؛ گرائمر ٹراسلیشن کا طریقہ (1800-1900ء) تک رائج رہا۔ ڈائریکٹ طریقہ (1890-1930ء)‘ ہدایتی طریقہ (1930-1960ء )‘ ریڈنگ کا طریقہ (1920-1950ء)‘ اڈیو لنگول (1950-1970ء) سیاقی طریقہ(1950-1970ء)‘ اورکمیونیکشین کا طریقہ (1970ء سے تا حال) یہ وہ کوشیش ہیں جو تاریخ کا حصہ بن گئی ہیں۔ اس مرحلے میں نصاب یا درسی کتب کی تدوین کے لئے ماہر افرادی قوت اور مضبوط ادارے کی تشکیل سے ممکن ہے یہ مسلسل عمل ہے جس کے لئے منصوبہ بندی‘ کام اور عمل درآمد کے لئے عملہ کی ضرورت رہتی ہے۔ شعراء و ادیب اور ماہر زبان سے زبان کے لئے ان کی خدمات لی جاسکتی ہے۔
گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت مقامی زبان میں بنیادی تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہے۔ اس تاریخی قدام کو ہم سلام پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں اہل زبان اور ماہرین کی ایک کمیٹی مقامی زبانوں کے لئے درسی کتابوں کی تشکیل کے کام میں لگی ہے۔ مقامی زبانوں کے لئے حروف تہجی اور بنیادی اکائیوں کی تلاش بھی ہوچکی ہے۔ گلگت بلتستان ایک کثیر الثقافتی اور ملٹی زبانوں کے بولنے والوں پر مشتمل ہے۔ اس کے برعکس ایک اور بنیادی بات یہ کہ ہر بولی کے ایک سے زیادہ لہجے ہیں مثلاََ شینا کو لیجئے گلگت‘ دیامر‘ استور‘ غذر‘ کوہستان‘ کشمیر‘ لداغ میں مختلف لہجوں میں شینا رائج ہے۔ اس صورتحال میں صرف مشہور اور حاکم کے لہجے کو ترجیح دی گئی تو باقی لہجوں کی بقا میں مشکلات ہوسکتی ہیں۔ اس کمی کو دور کرنے کے لئے ہر علاقے کے نمائندوں کو مناسب جگہ ملنی چائیے!!
اہل دانش اور ماہرین کا خیال ہے کہ زبان زیادہ تر دو زبانوں میں بہتر سمجھائی جاسکتی ہے مادری/ مقامی اور ملکی۔ بنیادی تعلیم کے لئے زبان کی آرٹس کو درجہ ذیل مہارتوں کی ضرورت پڑسکتی ہے؛
۱۔ بولنے والے اس درسی کتاب کو پڑھ کر مختصر کہانیوں کا تجزیہ کرسکیں۔ ثقافت و اقدار کی نمائندگی‘ ادب سے اس طرح ترتیب دیں کہ لکھنے والے ہر طبقہ فکر سے اقتباس حاصل ہو‘ مشترکہ مفادات کی یقین دہانی اور منبع مواد میں ہر لہجہ کی نمائندگی ہو۔
۲۔ زبان کا اظہارکرنے کے لئے اسماء کی اقسام‘ شکل‘ جیسے اسم‘ فعل‘ حرف‘ اسم ضمیر‘ اسم صفت‘ زمانے‘ جملہ‘ جملے کی ساخت‘ گرائمر کا مجموعی استعمال‘ حرف و نحو۔وغیرہ
۳۔ میکنزم : بات چیت‘ رموز اوقاف۔ ۴۔ پڑھنا‘ لکھنا‘ بولنا‘ سننا‘ سوچنا‘ غوروفکر۔ ۵۔ مطالعہ اور تحقیق کی مہارت‘ لیجے اور سپیلنگ ۶۔ الفاظ معنی‘ فرہنگ۔ ان کے علاوہ بلوم ٹیکزانومی کے ذیلی مہارتوں کا نفاذ‘ میڈیااور ٹیکنالوجی اور ادبی مطالعات۔
یہ تمام وہ بنیادی محرکات ہیں جن کو ماہرین اور دانشوروں کے مشترکہ کاوشوں سے ترتیب دینے کے ساتھ سیاسی‘ سماجی‘ مذہبی‘ ثقافتی اور معاشرتی اقدار کے موافق مربوط بناکر ہی یہ بڑا کام کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں Jack C Rechard نے ریجنل زبانوں پر ایک مفصل تحقیق کی ہے جس کی رو سے زبان کی تروئج کو مسلسل عمل کے بعد رائج کیا جاسکتا ہے۔
اس مرحلے میں گلگت بلتستان کے طلبہ پر آموزش کا بوجھ کتنا ہوگا؟ یہ ہم سب کے لئے غور طلب ہے۔ پہلے ہی وہ اردو‘ انگریزی‘ عربی اور کچھ حلقوں میں فارسی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے ان سے زبان کو سکول کی درسی کتابوں تک رسائی ہو لیکن بچوں کے لئے ایک اور کتاب کا اضافہ ہوگا۔ سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان اور ہے جس کو ہر زبان میں ترجمہ کرنا محال نہیں مشکل ضرور ہے۔پالمر1922ء کے مطابق زبان کے لئے نصاب اور درسی کتاب تشکیل دینے کے لئے بنیادی اصول ہیں جیسے؛ زبان کے لئے ابتدائی آمادگی/تیاری، عادت کی تشکیل‘درست مواد کا اصول‘ درجہ بندی کا اصول‘نسبت و مناسبت‘ ٹھوس، مضبوط‘ دلچسپی کا اصول اور ترقی کا ارتقاء۔ ان کے ساتھ یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ ہم ان زبانوں میں بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ مستقبل کے لئے مزید کیا کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ زبان ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو دوسرے انسانوں سے رابطہ کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے ہم ان زبانوں سے آپس کی بول چال کے علاوہ کیا اہداف رکھ سکتے ہیں؟ اس رجحان سے نئی نسل کی آموزش بہتر ہوگی یا مزید پیچیدگیاں جنم لیں گے۔ ہمیں پہلے ہی گھر میں مادری زبان‘ محلّے میں دو سے زیادہ مقامی زبانیں‘ گلگت بلتستان سطح پر تقریباََ دس مقامی بولیاں اور پھر سکول‘ کالج اور یونیورسٹی میں اردو‘ انگریزی‘ عربی‘ فارسی اور دیگر بین الاقوامی زبانیں سے واسطہ پڑرہا ہے۔ بحرحال اس اقدام کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔اب جبکہ اس کام کا آغاز کیا جا چکا ہے عوامی سطح پر اس عمل کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اس کو مزید بہتر بنانے کے لئے کچھ تجویز کرسکتے ہیں؛
۱۔ قراقرم یونیورسٹی میں شعبہ لنگوئج قائم کیا جائے جس میں تمام مقامی زبانوں /بولیوں پر ریسریچ کے ساتھ پہلے سے موجود مواد کو اکھٹاکیا جائے(جیسے شینالوجی‘ کھوار‘ وخی‘ بلتی اور بروشسکی پیش رو تحقیقات) جس کی مدد سے مشترکہ اقدار پر مبنی نصاب میں زبان کی مہارتوں اور اہداف کا تعین کرکے ان کے لئے درسی کتاب درجہ بدرجہ تشکیل دیاجائے۔
۲۔ زبان کے ورثے کی حفاظت کے لئے دور رس اقدامات مفید ہوسکتے ہیں۔
۳۔ اچانک کسی انفرادی شخص کی ذاتی تحقیقی کتاب کا درسی کتاب کے طور پر سکول لانا مناسب نہیں جو مستقبل میں مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ اس لئے پہلے ذہین سازی کی جائے تاکہ لوگ مقامی زبان کو تعلیمی اداروے میں قائم کرنے کے لئے آمادہ ہو۔
۴۔ محض ایک قائدہ سکول میں رائج کرنے سے زبان محفوظ نہیں ہوتی اس کے لئے عوامی سطح پر زبان کے ادارے بننے چاہئے جو مقامی ادب پر مواد اکھٹا کرسکیں جس کی بنیاد پر کم از کم ابتدائی تعلیم کے لئے مناسب مواد دستیاب ہو۔
۵۔ جلد بازی پر مبنی درسی کتابیں تاریخی غلطی ہوگی کیونکہ یورپ اور ایشیاء میں زبانوں کی موجودہ شکل دینے میں صدیاں لگ چکی ہے۔
۶۔ مقامی زبانوں کی تدریس کے لئے اساتذہ کی بھرتی اور تربیت کا مفصل منصوبہ اور طویل المعیاد ڈھانچہ کی تیاری سے ہی یہ عمل انجام ہوسکتی ہے۔
۷۔ مقامی بولیوں کو نقل یا کٹ پیسٹ کرکے درسی کتب کی تشکیل ہوئی تو یہ زیادتی ہو اس لئے کتب کی درستگی‘ صداقت‘ صحت‘ لچک‘اعتبار‘ معتبر‘غلطیوں سے پاک اور مستند ہونی چائیے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو زبان کی سلامتی اور تحفظ کے لئے نیک کام کرنے کی توفیق دیں۔