کالمز

پانامہ پیپرز کا فیصلہ: بھنگڑے اور سسکیاں

چند روز قبل دن د و بجے سے لیکر رات گئی تک ملک بھر میں متوالوں ڈھول کے ٹھاپ پر ناچتے بنگڑے ڈالتے مٹھایاں تقسیم کرتے ایک دوسروں کو مبارکباد دیتے نظر آئے ۔ ملک بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی متوالے آپے سے باہر ہو گئے چوک چوراہوں میں جلسہ جلوسوں کی شکل میں اجتماعات منعقد کیے گئے مٹھایاں تقسیم کی پھولوں کے ہار پہنائے گئے کہے کہے تو ڈھول کے تھاپ پر ٹھمکہ ڈانس بھی دیکھنے کو ملامقررین بھی پر جوش دیکھائی دیے تقاریب سے خطاب کرتے ہوئے عدالت عالیہ کے اس فیصلے کو مسلم لیگ کا فتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ اغیار کا آخری ہتھکنڈہ بھی بری طرح ناکام ہوگیا دھرنوں سے پانامہ تک بچھائی گئی سازشی جال مخالفین کی منہ پر پڑی اور ہمارا قائد سر خرو ہوگیا ملک میں جاری ترقیاتی منصوبے جس میں میگا پروجیکٹ دیامر ڈیم داسو ڈیم سب سے بڑھ کر سی پیک کو ناکام بنانے کیلے دھرنوں کے بعد پانامہ کا ڈرامہ رچانے والے ملک دشمن عناصر کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے کچھ متوالوں نے یہاں تک کہدیا کہ پانامہ کا ڈرامہ یہود و نصاری کا کھیل تھا جو مقامی کھلاڑیوں کے زریعے کھیلا جارہا تھا مگر عدالت عالیہ کے اس تاریخی فیصلہ نے ان کو بری طرح ناکام بنا دیا ایک ڈرامہ جو ترتیب دیا گیا تھا جو انتخابی دھندلی سے شروع ہوکر پانامہ پیپرز تک بلترتیب جاری رہا مگر حق و صداقت کے سامنے رچائے گئے ڈرامہ کا جنازہ آج عدالتی فیصلہ کی صورت میں نکل گیا اب ان لوگوں کے پاس رونے کے سواء کوئی اور راستہ نہیں ہے خیر یہ تو لیگی متوالوں کے خیالات تھے جو چوک چوراہوں پر اظہار خیال ہوتے رہے اب پانچ سو چون سفحات پر مشتمل فیصلے کو سمجھنا اور پھر اس کے بعد حق اور مخالفت میں آنے کا فوری فیصلہ کرنا ایک عام ورکر کی بس کی بات نہیں ہے اس کیلے اچھا خا صا وقت کے ساتھ ساتھ قانوں پر دسترس بھی حاصل ہونا چاہیے جس طرح مسلم لیگی اس فیصلے کو اتنی سادگی سے اپنے قائد کے حق میں قرار دے رہے ہیں یہ فیصلہ اتنا سادہ نہیں ہے البتہ عارضی طور پر سر پر پڑی آفت کچھ دیر کیلے ٹل گئی ہے یہ محض لمحاتی کا میابی ہے جس کو دیر پا ہر گز نہیں کہہ سکتے چونکہ عدالت عالیہ کے پانچ ججوں پر مشتمل بنچ نے اس فیصلہ کو محفوظ کیا ہے جس میں سے دو ججز صا حبان نے میاں صاحب کو نا اہل قرار دیا ہے جب کہ تین ججز صا حبان نے اس کیس میں مزید تحقیقات ضروری قرار دیتے ہوئے جے آئی ٹی مقرر کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے فیصلے کے اس دستیاب متن کے رو سے دیکھا جائے تو بنگڑے اور دھمال کا تو کوئی جواز نہیں بنتا ہے البتہ ماتم آنسوں اور اشک شوئی کے کلمات کا ماحول ضرور پیدا ہوتا ہے چونکہ ابھی تک کے اطلاعات کے مطابق اس فیصلہ میں ایک بھی جملہ ایسا نہیں ہے جس میں میاں صا حب کی فرشتگی ثابت ہو بلکہ خانداں کے افراد کو باقاعدگی سے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا حکم ہے ایسے میں مٹھایاں پٹا خیاں اور بغلیں بجانے کا جواز ہی نہیں بنتا ہے البتہ ان سب نمایشات کا جواز ایک صورت میں ایسے بنتا ہے کہ فی الحال وزارت عظمی کی کرسی کھسکنے سے بچ گئی ہے جیسا کہ اپوزیشن جماعتیں سمجھ رہی تھی کہ ابھی ابھی ناقوس بج جائے گا اور وزیر اعظم کا تختہ الٹ جائے گا ان پر لگائے گئے سارے الزا مات ثابت ہو جائنگے جس کو بنیاد بنا کر آنے والی الیکشن میں بہر پور فائدہ سمیٹا جائے گا تو ایسا ممکن نہیں ہوا لیگیوں کا یہ جشن و نظر نیاز اللہ اللہ خیر سلی کی حد تک ہے میرے خیال میں اس حد تک متوالوں کو یہ حق دینا چاہیے رہی بات اپوزیشن جماعتوں کے تو ان کو بھی اس فیصلہ سے قومی مفادات کے حوالے سے کوئی خاص سروکار نہیں تھا بلکہ آمدہ الیکشن میں ایسی ایک کیس کو بنیاد بنا کر سیاسی پوینٹ سکورنگ کی حد تک غر ض تھا جو فی الحال پورا نہیں ہوا اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی ملکی نظام کو ٹھیک کرنے کے بجائے محض سیاسی دکان چمکانے کے حد تک مخلص نطر آتی ہے کوئی بھی جماعت یا سیاسی شخصیت چوری چکاری کو جڑ سے اکھاڑ نے کے بجائے کسی ایک چوری کو بنیاد بنا کر صرف اور صرف اپنا الو سدھا کرنے کے چکروں میں ہیں کوئی بھی اپنے لیے راستہ بند کرنے کیلے بالکل بھی تیار نہیں ہے ان جماعتوں کے نزدیک قومی دولت لوٹنا کوئی جرم ہی نہیں ہے ایسی لیے سیاسی مفادات کے حصولی کے حد تک ایمانداری کے کلمات بجا لاتے ہیں جب تک سیاست کے آڑ میں تجارت کا یہ دکان بند نہیں ہوتا تب تک ایسے فیصلے حق میں آئے یا مخالفت میں ملکی مجموعی نظام میں کوئی بہتری ممکن نہیں ہے۔یہ جو شہنا یاں اور ماتم کا ملا جلا ماحول مختلف حلقوں میں ہے یہ بھی بے وجہ ہے جو خوشیاں منارہے ہیں اور ماتم کر رہے ہیں یہ بے گانے کے شادی میں عبداللہ دیوانہ کے مانند بے وقوف بن رہے ہیں چونکہ مفادات محدود لوگوں کے ہیں اور وہی لوگ جن کے مفادات ہیں وہ ان کو بے وقوف بنا رہے ہیں جب چاہیے دھرنے جلاو گیراو کا ما حول بناتے ہیں اور جب چا ہیے بنگڑے شہنا یاں اور چرا غا کی طرف لیے جا تے ہیں جب چوری چکاری ملکی دولت لوٹنے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں تو اپنے چوری چھپانے کا بہانہ ہوتا ہے اور پچھلے ستر سالوں سے عوام اور امراء کے درمیان یہی کھیل جاری ہے اور یہ صرف ایک ہی کرسی کی کھیل ہے جس کو وزارت عطمی کہتے ہیں اور باری باری اس عہدے سے لطف اندوز ہوتے ہیں ایک کے بعد ایک کا کھیل شروع ہوتا ہے عوام بیچاری بیوقوف بنتی آرہی ہے ان ایماندار سیاستدانوں کی ملیں کار خانے فیکٹریوں میں آئے روز اضافہ ہو تا ہے مگر غریب عوام کی حالت گزشتہ ستر سالوں سے وہی کہ وہی ہے اور یہی سیاستدان اپنے غم اور خوشی میں عوام کو ماتم اور بنگڑوں کی صورت میں برا بر کے شریک کر لیتے ہیں مگر اس عوام کی حالت کو بدلنے کیلے بالکل بھی تیار نہیں ہے ہر کوئی ایک ہی کرسی کے آس میں رہتا ہے اس لیے میرے خیال میں یہ غم کے آنسوں اور خوشی کے ما حول دونوں بے سود ہے عوام کو چا ہیے کہ ان مخصوص گروہ کے مفادات کے تحفظ کے بجا ئے ملک کی ترقی اور قوم کی بہتری کیلے کردار ادا کرتے ہوئے اپنے حقوق اور فرائض کا ادراک کریں اور ان سیاسی جماعتوں میں رہ کر نظام کو ٹھیک کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعا لی ہماری حالت زار پر رحم فرما ئیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button