عدم برداشت
عدم برداشت ایک معاشرتی مرض ہے نبی کریم ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب میں یہ مرض عام تھانبی رحمتﷺ نے جہاں بہت سی مشرکانہ عقائد اور خرابیوں کو ختم کیا وہاں عدم برداشت کے مرض کو نیست و نابود کر دیاعبد اللہ بن ا بیّ مدینہ منوّرہ کا سب سے بڑا منافق تھا انہوں نے مسجد نبوی ؐ کے مقابلے میں اپنی مسجد بھی تعمیر کی تھی جب تک وہ زندہ رہے مدینہ منوّرہ میں امن کے ساتھ رہے ان کے گھر پر مسلمانوں نے حملہ نہیں کیا ان کے کاروبار پر حملہ نہیں کیاجب وہ مرگئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کے جنازے کو کندھا دیا سیرت کی کتابوں میں اس واقعے کی پوری تفصیل ملتی ہے ہم رحمتہ للعالمین کا کلمہ پڑھتے ہیں اُن کے نام لیوا ہیں ہم میں سے جو شخص جتنا بڑا عالم، مفتی ، فقیہ اور ولی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ عدم برداشت میں سب سے زیادہ آگے نظر آتا ہے ایک عارف با اللہ کا شعر ہے
خلافِ پیغمبر کسے رہ گزید
ہر گز بمنزل نخواید رسید
پیغمبر کے خلاف جس نے راستہ اختیار کیا وہ کبھی منزل کو نہیں پاسکتا انبیائے کرام اور اولیائے عظام کا طریقہ دعوت یہ رہا ہے کہ برائی سے نفرت کروبرائی کرنے والے سے نفرت نہ کروجس طرح طبیب ،حکیم اور ڈاکٹر بیماری سے لڑتا ہے بیمار سے نہیں لڑتا بیماری کو دورکرنے کی کوشش کرتا ہے بیمار کو دور بھگانے کی کوشش نہیں کرتا برصغیر پاک و ہند میں اسلام پھیلنے کی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حضرت معین الدین چشتی اجمیری ؒ ،حضرت خواجہ نظام الدین سلطانِ اولیاء ؒ ، حضرت شیخ علی ہجویری داتا گنج بخش ؒ اور دیگر بزرگانِ دین کی صحبت میں ہندو آکر بیٹھتے تھے ان میں برہمن اور پنڈت بھی ہوتے تھے شودر ، کھشتری اور دلّت بھی ہوتے تھے ان میں کچھ لوگ شراب پی کر آتے تھے بزرگان دین اُن کے لئے دعا کرتے تھے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایک ہندو 30سالوں تک حضرت کی خدمت میں آتا رہا 30سال تک حضرت نے اس کو اسی حال میں برداشت کیا30سال گذرنے کے بعد ایک دن وہ آیا اور اُس نے کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام قبول کیاآپ تیرھویں صدی سے لیکر اٹھارویں صدی تک 500سالہ تاریخ اُٹھا کر دیکھیں کلمہ گو کے جنازے پر کبھی جھگڑا نہیں ہواکلمہ گو پر کبھی کفر کا فتویٰ نہیں لگایا گیاقیام پاکستان کے بعد بانی پاکستان کے جنازے کا وقت آیا تو جھگڑ اپیدا کیا گیاان کا جنازہ جس عالم نے پڑھایا ان کی قبر کے لئے ایک معاہدے کے تحت مزار قائد کے پہلو میں جگہ دی گئی عبد الستار ایدھی کے جنازے پر جھگڑا ہواعاصمہ جہانگیر کے جنازے پر جھگڑا ہواحیدر فاروق مودودی اور جاوید غامدی کا آخری وقت اگر پاکستان میں آیا تو اس کے جنازے پر طوفان اُٹھایا جائے گاصرف پاکستان میں ایسا کیوں ہوتا ہے؟اس کی علمی توجیہہ کوئی نہیں ،فقہی توجیہہ کوئی نہیں سیرت نبوی ﷺ اور آثارِ صحابہؓ یا ائمہ اربعہ کی تعلیمات میں اس کی توجیہہ نہیں ملے گی یہ ہمارے نظامِ تعلیم اور نظام معاشرت کی خرابی ہے جس کی وجہ سے اعتدال ختم ہوجاتا ہے افراط و تفریط اعتدال کی جگہ لے لیتا ہے گناہ گار مسلمان کو مطلق کافر اور مکروہِ تنزیہی کو مطلق حرام کہنا اسی زمرے میں آتا ہے یہ 1949ء کا واقعہ ہے قیام پاکستان کو دو سال گذر چکے تھے قیام پاکستان کے وقت جو مسلمان ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان نہ آسکے وہ بھی پاکستان آرہے تھے ایک اخبار نویس نے حسرت موہانی سے پوچھا ، مولانا ! آپ نے آزادی کے لئے جدوجہد کی بار بار قید کاٹی بار بار صعوبتیں برداشت کیں علماء کے طبقے میں آپ نے قائد اعظمؒ کی حمایت کی قیام پاکستان کا علم بلند کیا ، پھر کیا وجہ ہے کہ آپ پاکستان نہیں گئے؟مولانا حسرت موہانی نے مختصر الفاظ میں اس کی وجہ بتائی اُن کے جملے قدم قدم پر یاد آتے ہیں مولانا نے کہا ’’ دیکھو بھئی ایک دن مرنا ہے خدا کو جواب دیناہے ہندوستان میں مروں گا تو کہیں گے مسلمان مرگیا اگر کسی نے مجھے قتل کیا تو مسلمان کہہ کر قتل کر ے گا پاکستان میں اگر طبعی موت مرا تو میرے جنازے پر جھگڑا ہوگا کہ یہ کافر مرا ہے یا مسلمان؟اگر کسی نے مجھے قتل کیا تو ضرور کافر کہہ کر قتل کرے گا ، دیکھو بھئی مجھے باولے کُتے نے تو نہیں کاٹا ، یہاں مسلمان کی موت مرنے کی جگہ وہاں کافر کی موت مرنے کا تہیہ کرلوں ‘‘ آج مولانا حسرت موہانی کا قول سچ ثابت ہوا ہے یہ ہمارے نظا م تعلیم کا نقص ہے ہمارے نظام تعلیم میں حقوق العباد کا کوئی ذکر نہیں ہے تعلق باہمی کا کائی ذکر نہیں ہے شہری حقوق و فرائض کا ذکر نہیں سچائی ، صداقت ، امانت اور دیانت داری کا ذکر نہیں ہے یہاں تک کہ سیرت نبوی ﷺ میں حلم، برداشت ، مروّت اور محبت و شفقت کا ذکر بھی نہیں ملتا علامہ اقبال ؒ نے سو باتوں کی ایک بات کہی جس پر ہم نے توجہ نہیں دی
بمصطفٰی برسان خویش را کہ دیں ہمہ اوست
گر باو نر سیدی تمام بولہبی است