چترالی تہذیب کو مرنا نہیں چاہیئے
میرے بچوں نے میری بیگم کا نام ’’دوپٹہ‘‘رکھا ہوا ہے ۔۔منہ پہ اس کو دوپٹہ کہتے ہیں ۔۔اس کی وجہ یوں ہے کہ وہ صبح سے شام تک یہ جملہ الاپتی رہتی ہے۔۔’’دوپٹہ سنبھالو۔۔دوپٹہ سر پہ ڈالو‘‘اس جملے کا کھوار ترجمہ بہت خوبصورت ہے ۔۔’’ پٹیکو کپالتو کوو‘‘۔۔یہ جملہ سنتے ہی مجھے میری ماں یاد آتی ہے ۔۔میں سوچتا ہوں کہ میری بیگم میرے سامنے کبھی سر ننگا نہیں کرتی ۔۔یہ کس کی تربیت ہے ۔۔سورہ نور میں اسی چادر کا ذکر ہے ۔۔سر سے پاؤں تک اپنے آپ کو ڈھانپنے کا ذکر ۔۔یہ عورت کے ساتھ سجتی ہے ۔۔میں سوچتا ہوں میرے گھر میں میرے بچے ہیں ۔۔میرے سکول میں میرے طلبا ہیں ۔۔میرے ارد گرد سب ہیں ۔۔میں ایک بے میثال تہذیب کے اندر زندہ ہوں ۔۔میرے اقدار ہیں ۔۔میرے اصول ہیں ۔۔میرے رسوم و رواج ہیں ۔۔سلوک ،احترام اور تعلقات کی حدود ہیں ۔۔ہر ایک کا اپنا مقام ہے ۔۔لباس پوشاک ،رہن سہن ،نشست و برخواست ،بات کرنے کا انداز سب کچھ واضح ہیں ۔۔۔روشن ہیں ۔۔بے مثال ہیں ۔۔اگر مجھے زندہ رہنا ہے تو اس دائرے کے اندر زندہ رہنا ہے ۔۔اور اس بے مثا ل تہذیب کی حفاظت کرنی ہے ۔۔دنیا کی زندہ قومیں اپنی تہذیب کی حفاظت کرتی ہیں اور یہ محسوس بھی کرتی ہیں کہ یہ ان کی شناخت ہے ۔۔برصغیر میں انگریزوں کی غلامی کے اثرات اب تک پینٹ شارٹ ،اور انگریزی زبان کی صورت میں ہمارے دل و دماغ پہ مسلط ہیں ۔۔ایک طبقہ عقیدت کے طور پہ پتلون پہنتا ہے ۔۔دوسرا متاثر ہو کر پہنتا ہے ۔۔دونوں کے پاس دلیل یہ ہے کہ اسلام میں لباس پہ قدغن نہیں ۔۔وہ یہ نہیں سوچتے کہ اسلام میں لباس ردے کے لئے پہنا جاتا ہے ۔۔کیا پینٹ شارٹ زیادہ بدن چھپاتے ہیں یا شلوار قمیص ۔۔رسول مہربان ﷺ کی زندگی میں شلوار یونان سے آئی ۔۔آپﷺ نے خریدے بھی ۔۔پوچھا گیا ۔۔یا رسول اللہ ﷺ آپ یہ پہنیں گے آپﷺ نے فرمایا ۔۔ہاں یہ میں دن کو بھی پہنونگا اور رات کو بھی ۔۔یہ بہت پردے کا لباس ہے ۔۔چترال کی تہذیب و ثقافت عین اسلامی ہے ۔۔آج ہم بے لباس ہوتے جارہے ہیں ۔۔بیٹیوں تک تنگ لباس کے شوقین ہیں ۔۔ہمار ی زبان دنیا کی شرین ترین زبان ہے ۔۔آج کے تعلیم یافتہ طبقہ کے ہاتھوں یہ آخری ہچکی لے رہی ہے ۔۔نوجوان جب آپس میں بات کر رہے ہوتے ہیں تو رونا آتا ہے ۔۔شعرا ء ادبا ء تک جان بوجھ کر کھوار کی بیخ کنی کر رہے ہیں ۔۔موسیقی تباہ ہو رہی ہے آنے والے زمانے میں کھوار موسیقی کے الات اور اس کی کلاسک افسانہ بن جائے گی۔۔روایتی عمارتیں ڈھائی جارہی ہیں ۔روایتی برتن ختم ہوگئے ہیں ۔۔رویتی کھانے ناپید ہو رہے ہیں ۔۔رسوم و رواج بھلائے جارہے ہیں ۔۔رشتے ناطے اپنا معیار کھو رہے ہیں ۔۔زبان کی شرینی ،حلاوت ،پاکیزگی اور سنجیدگی معدوم ہو رہا ہے ۔۔چترال کا روایتی نرم لہجہ کہیں نہیں ۔۔سادگی امن پسندی کی جگہ بے چینیاں جنم لے رہی ہیں ۔۔ایک دوسرے پہ اعتبار بھروسہ ختم ہو رہا ہے ایک دوسرے کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کا یقین بے یقینی میں بدل رہا ہے ۔۔یہ آہستہ آہستہ ہمارے ہاتھوں پھر ہمارے نوجوانوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے ۔۔اور غضب یہ کہ جدید تعلیم یافتوں کے ہاتھوں ہو رہا ہے ۔۔ہم تعلیم نہیں ہنر سیکھ رہے ہیں اور اس سے خوش ہیں کہ ہم تعلیم یافتہ ہورہے ہیں ہم صرف ہنرمند ہو رہے ہیں تعلیم و تہذیب سے کوسوں دور ہیں ۔۔ثقافت اور تہذیب میں فرق یہ ہے کہ جو طریقے ثقافت میں ہیں ان کو عملی طور پر اختیار کرنے کا نام تہذیب ہے ۔۔ہم ٹوپی ٹیڑھی رکھیں تو ’’بد ثقافت‘‘تہذیب‘‘ کہلاتے ہیں ۔۔ہماری ثقافت اور تہذیب کو زندہ رہنا چاہئے ۔۔یہ دنیا کی انوکھی ، نرالی اور بے میثال تہذیب ہے ۔۔اس کو اپنے لئے اگر نہ بچائیں تو دوسروں کے لئے اس کو بچانا چاہئے ۔۔تاکہ عالم انسانیت کو اس بات پہ فخر ہو کہ دینا میں ایک قطعہ زمین ایسی بھی ہے جہان پر انسانیت اپنی آب و تاب کے ساتھ زندہ و تا بندہ ہے ۔۔اس کے لئے یونیورسٹیوں میں الگ شعبہ ہونا چاہئے جہان پہ چترالی تہذیب پہ لکچر ہونا چائے ۔۔ادبی انجمنوں کو اس بات پہ سوچنا چائے ۔۔لکھاریوں کو چاہئے کہ وہ سوچیں کہ میں جو زبان استعما ل کر رہا ہوں کیا وہ درست بھی ہے یا نہیں ۔۔لباس پوشاک کی حفاظت کی جانی چاہئے ۔۔چترالی روایتی مصنوعات کی مارکیٹنگ ہونی چاہئے ۔۔دوسری تہذیبوں کی چترالی تہذیب پہ یلغار کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئے یہ ہمارا فرض بنتا ہے ۔۔۔۔۔اور۔۔۔اور۔۔میرے بچوں کی زبان کھینچنا چاہئے جو میری بیگم کو ’’دوپٹہ ‘‘ کہدیں ۔۔۔۔۔