پدرشاہی معاشرہ اور عورت
تحریر: ممتاز جہان
سوشل میڈیا میں آنے والے دنوں میں عورتوں کے عالمی دن(٨ مارچ) کو منا نے کی مناسبت سے ہونے والی سرگرمیوں پر بحث زور شور سے جاری ہے.ان سرگرمیوں کامقصد عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کے حقوق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے تاکہ مرد اور عورت ایک بہتر معاشرے کی تعمیر اور آج برق رفتار تبدیلوں اور آزمائشوں کا مقابلہ کر سکے.گرچہ یہ سرگرمیاں چندا ہی ہیں لیکن اس کے برعکس اس کا ردعمل کہیں زیادہ اور مایوس کن ہے.کیونکہ اگرایک طبقہ عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ان کے حق تلفی سے ہی انکار ہے تودوسرا طبقہ عورت کے حقوق کو مذہب اور مشرقی ثفاقت کےخلاف سمجھتا ہے..اوریہ سب پدرشاہی کی بدولت ہے. عزت، غیرت جیسے الفاظ توگویا عورت کے لۓ مختص ہیں.
پدرشاہی کے اس بالادست معاشرے سے سوال ہے کہ آخر کیوں؟ عزت صرف عورت ہی سے جڑی ہے؟اگر مرد سے برائی سرزد ہوجاۓ تو اس سےاسکی عورتوں کے عزت پے بھی فرق پڑنا چاہے یا نہیں؟عزت، غیرت گوند سے عورت سے جوڑ دی گئی ہے کیا؟اس عزت،غیرت کے کشمکش میں نہ جا نے کتنی عورتیں گھروں میں دوران زچگی دم توڑ چکی ہونگی؟نہ جا نے کتنی لڑکیوں کو غیرت کے نام پر قتل کر کے خودکشی کا رنگ دیا گیا ہوگا؟ اور اگر اس پدرشاہی معاشرے میں اپنے بقاکی جنگ لڑتی عورتیں زندگی کےمیدان میں آگےبڑھی ہوں اور اپنے حق(بولنےکا، سوچنے کا، جینےکا) استعمال کیا ہوگا توتنقید پرتنقید- کیا یہ معاشرہ صرف اور صرف مرد ذات کی بالادستی اورdominency کا ضامن رہے گا ؟ کیا عورت کسی اور سیارے کی مخلوق ہے؟ اس سے امتیازی سلوک اسلۓ کیا جاۓ کہ وہ جسمانی طور آپ کے جیسے نہیں د کھتی مگر حیاتیاتی طور پر تووہ آپ سے زیادہ طاقتور ہے؟
سانس اورٹیکنالوجی کے اس دود اس بحث کی گنجائش بھی کم ہونی چاہیے کہ کیوںکر کلچر(ثقافت) کو عورتوں سے نتھی کیا جاۓ.عزت،غیرت عورتوں کااثاثہ ہواور فرمنبرداری، مشرقیت عورت کا زیور ہو.ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کی بقاء کو مدظر رکھتے ہوۓ اور عورتوں کے وجود کونہ صرف برداشت کیا جاۓ بلکہ اسکی حوصلہ افزائی کی جاۓ تاکہ معاشرہ جمود کا شکار ہونے سے بچ جاۓ اور صنفی تفریق کے حساب کتاب میں پڑنے کی جگہ عورتوں اور مردوں کے مثبت کردار کی حوصلہ افزائی کی جاۓ.
ممتاز جہان نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز (نمل) میں ایم فل کی طالبہ ہے۔ ان کا تعلق غذر سے ہے۔