دو سابق وزرائے اعظم کے دعوے
رجب علی قمر
سابق وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے تین سال قبل گلگت بلتستان کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ گلگت بلتستان کو مکمل قومی دائرے میں شامل کیا جائے گا گلگت سکردو روڈ ، بلتستان یونیورسٹی ،سی پیک میں حصہ،نئے اضلاع کا قیام ،بجلی لوڈ شیڈنگ ،ترقیاتی بجٹ میں اضافہ سمیت دیگر اہم اعلانات اور وعدے کئے تھے اسی وعدوں کو پارٹی منشور بنا کر موجودہ مسلم لیگی جماعت کے قائدین نے بھی گلگت بلتستان میں عام انتخابات میں حصہ لیا جس کے نتیجے میں گلگت بلتستان کے عوام نے پہلی بار مسلم لیگ ن کو بھاری مینڈیٹ دیا اسی طرح پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی 2009 کے گلگت بلتستان عام انتخابات میں کئی وعدے اور اعلانات کئے تھے جس پر بدقسمتی سے پانچ سال گزرنے کے باوجود من و عن عمل درآمد نہ ہوسکا جس کا خمیازہ گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور مسلم لیگ ن گلگت بلتستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی پسماندہ اور بوسیدہ صوبے میں تعمیر و ترقی اور اپنے منشور میں شامل تمام وعدوں اور اعلانات کو نبھانا مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت بالخصوص وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے لیے ایک چیلنج سے کم نہ تھا وفاق میں اپنی جماعت اور قائد کے ساتھ ہونے والے پے درپے احتسابی عمل ،عدالتی کاروائیوں اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی دھرنوں اور دیگر قومی چیلنجز کے باوجود صوبے میں ن لیگ نے محتاط انداز میں عوام کو لیڈ کیا اور اپنے قائد میاں نواز شریف کی دورہ گلگت ،سکردو میں ہونے والے اعلانا ت اور وعدوں پر عمل درآمد شروع ہوئی صوبے میں بھی کئی بار وزیر اعلیٰ کے راہ میں کئی رکاوٹیں آئے حکومت کو گرانے کے لئے عدم اعتماد سمیت دیگر عوامی ایشوز کے تحریکوں کا بھی نہ رُکنے والا سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن ان تمام چیلنجز کے باوجود خطے میں سیاسی اور تعمیر و ترقی کا سلسلہ جاری ہے جو کہ انتہائی خوش آئند بات ہے راقم اس فورم پہ یہ بات واضع کرنا چاہتاہوں کہ قارئین یہ سوچیں کہ یہ تو حکومتی قصیدہ گوئی اور پیپلز پارٹی سے اختلاف ہوسکتی ہے انہیں باور کرانا چاہتا ہوں کہ وہ خود اپنے ذات اور اعمال کے مطابق انصاف کی ترازو میں پلٹیں کہ یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف نے اپنے اپنے پانچ سالہ دور میں گلگت بلتستان کے عوام کو کیا دیا ہے گلگت بلتستان بالخصوص بلتستان ریجن کے عوام میں شدید تشویش پیدا ہوئی تھی کہ بلتستان کے ساتھ ناانصافی اور مسلم لیگ ن کو ووٹ دے کر خود ہم نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے گلگت سکردو روڈ جیسے اہم انقلابی منصوبے پر کام بلتستان کے عوام کی دیرینہ اور ون پوائنٹ مطالبہ تھا جس پر اب جنگی بنیادوں پر کام جاری ہے بلتستان یونیورسٹی ،شگر ،کھرمنگ اضلاع ، میرٹ کی بحالی سمیت دیگر اعلانات اور وعدوں پر حکمران جماعت مسلم لیگ ن پورا اُترنے میں کامیاب ہوچکے ہیں جبکہ گلگت ریجن کے اضلاع میں ہنزہ ،نگر اضلاع کا قیام سمیت تمام حلقوں میں مردہ منصوبوں اور عوامی مفادات کے منصوبوں پر کام جاری ہے بتایا جاتا ہے کہ9,10 مارچ کو وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اپنے سکردو اور گلگت دورے میں نئی آینئی اصلاحات پیکیج بارے اعلان کریں گے جس کے بعد مسلم لیگ ن کا اہم وعدہ اور اعلان بھی پایہ تکمیل کو پہنچے گا راقم ایک بار پھر قارئین کو بتانا چاہتے ہیں کہ میرا مسلم لیگ ن سے دور تک کا بھی تعلق نہیں ہے لیکن گلگت بلتستان کا بچہ بچہ اس بات سے واقف ہے کہ 2009 سے 2018 کے سفر میں دو سابق وزرائے اعظم نے کس حد تک اپنے اعلانات اور وعدوں پر عملی جامہ پہنایا ہے یہ سب گلگت بلتستان کے 15 لاکھ عوام خود ہی جج بن کر فیصلہ کرسکتے ہیں اگر مختلف سرکاری محکموں میں اب بھی مسائل باقی ہے تو میں یہاں یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہتا ہوں کہ گلگت بلتستان کے مختلف سرکاری اداروں میں عوامی منصوبوں اور حکومتوں کو بدنام کرنے کا ایک زریعہ بیورو کریسی اور سرکاری آفیسران ہیں جن کی ملی بھگت اور کرپشن کے باعث عام آدمی تک حکومت کی رسائی اور ترقیاتی کاموں کے ثمرات پوری طرح نہیں پہنچ پاتے محکموں کے آفیسران سے لے کر چپڑاسی تک بقول سینئر صوبائی وزیر حاجی اکبر تابان اپنے آپ کو مغل اعظم سمجھتے ہیں ناچیز کی چھوٹی سی تحریرپر ہر طبقہ فکر سے تعلق شخص کا اختلاف ہوسکتا ہے لیکن دو سابق وزرائے اعظم کے اعلانات اور وعدوں پر سمجھوتہ کرنا یقیناًناانصافی ہوگی ۔