شکور علی زاہدی کا انتقالِ پُر ملال
تحریر: اشتیاق احمد یاد
یہ میرے لیے سعادت کی بات ہے کہ شکور علی زاہدی کے ساتھ میراانسانی، علمی اورسماجی تعلق کا شرف حاصل رہا ہے۔ بقولِ شاعر
قلم سے جس کا بھی رشتہ ہے وہ ہمارا ہے
وہ لمحہ میرے لیے نہایت صدمے کا باعث تھا جب مجھے کالج میں کلاسسز سے فراغت کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے زاہدی کی ناگہانی موت کی خبر ملی۔ کچھ لمحات تک مجھے اُس جبر پر یقین نہیں آیا مگر وہ خبر ایک تلخ حقیقت ثابت ہوئی۔ دُکھ اور اضطراب برابر طاری رہے۔ اگلے روز دوستوں فضل عباس اور غلام مصطفٰے کے ہمراہ اُن کے گھر واقع اوشکھنداس جاکر اُن کی روح کے ایصالِ ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کی اور لواحقین کے ساتھ دلی رنج اور تعزیّت کا اظہار کیا۔ ربِ کریم شکور علی زاہدی کو غریقِ رحمت کرے اور کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے!
شکور علی زاہدی کے ساتھ میرا طالب علمی کے دَور سے تعلق رہا ہے۔ یہ اُ ن دنوں کی بات ہے جب ہم جامعہ کراچی میں زیرِ تعلیم تھے۔ یہ ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ہم نے جامعہ کراچی میں ناردرن ایریاز سٹوڈنس ایسو سی ایشن کی بنیاد رکھی ۔ وہ ایک ایسا پیٹ فارم تھا جس میں گلگت بلتستان کے تمام رنگ و نسل اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے طالب علم ،طلباء کے جملہ مسائل کے حل، اتّحاد و یکجہتی اور عِلم و دانش کی آبیاری کے لیے عملی کاوشیں بروئے کار لا رہے تھے ۔ شکور علی زاہدی کا شمار اُن طالب علموں میں ہوتا تھا جو دردِ دل اور دردِ جگر کی دولت سے آباد تھے اور اُس دولت کو بڑی سخاوت سے بانٹنے میں شب و روز مصروفِ عمل تھے۔وہ اُن خدمات کو بروئے کار لانے کے ساتھ ساتھ اُس دَور سے ہی تخلیقی عمل سے جڑے ہوئے تھے یعنی اُس دوران اُنہوں نے کالم نگاری اور مضمون نویسی کا نہایت عمدگی سے آغاز کیاتھا۔ اُن کی زندگی کاوہ بِلا شبہ ایک سُنہرا اور نا قابلِ فراموش باب ہے۔
بعدِ ازاں اُنہوں نے سپیشل ایجوکیشن کمپلیکس گلگت میں بحیثیتِ مدرس خدمات انجام دینا شروع کیں۔ وہ خود اسپیشل پرسن تھے اور اہلِ دل، اہلِ فکر اور قلم کار تھے اس لیے درس و تدریس کو عبادت اور مشن سمجھ کر انجام دیتے رہے۔ اُنہوں نے ایجویشن کمپلیکس میں اعلیٰ درس و تدریس کے عمل کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلم اور سماجی بہبود کے ذریعے معذور بچوں کی تعلیم و تربیّت کے مسائل،اُن کی فلاح و بہبود اور کمپلیکس کے جملہ مسائل کے حل کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ اُن خدمات کی جتنی توصیف کی جائے کم ہے۔
کسی بھی سماج میں تخلیقی صلاحیتوں سے مُزیّن افراد خال خال ہی موجود ہوتے ہیں شکور علی زاہدی کو خیالات ، تصوّرات اور مسائل کو صفحہء قرطاس میں مُنتقل کرنے کاملکہ حاصل تھا۔ وہ معذور ہونے کے باوجود اس قدر زیادہ اور موثر انداز میں لکھتے تھے کہ ایک خوشگوار حیرت ہوتی اور دل سے داد و تحسین دئیے بغیر رہا نہیں جاتا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اُنہوں نے ایک ہزار کالم لکھے جن میں مفادِ عامہ اور سماجی مسائل کی بھر پور عکّاسی موجود ہے۔ اُس کرب کا احساس شاید ہی کسی شخص کو تھا کہ وہ اپنی ذہنی اور قلبی توانائیں صرف کرنے ساتھ ساتھ اپنے پیسے خرچا کر کالم لکھتے تھے۔ ہائے ہمارا سماج جہاں لکھاریوں کا ’کرب‘ نہایت بے توقیری کا شکار ہے۔
شکور علی زاہدی کچھ عرصہ قبل صدارتی ایوارڑ کے حصول کے لیے اپنے کوائف وغیرہ جمع کرنے میں مصروف تھے اُس دوران وہ ایک آدھ دفعہ میرے پاس بھی آئے اور تبادلہ خیال کیا۔ نہایت دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ معاملہ ہنوز اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچا ہے۔ اگر دل کی آنکھ اور انسانیّت کے عدسے سے دیکھا جائے تو شکور علی زاہدی کی غیر معمولی خدمات کے آگے صدارتی ایوارڑ بھی معمولی لگتا ہے۔ میری اربابِ بست و کُشاد سے دردمندانہ اپیل ہے کہ شکور علی زاہدی کو اُن کی خدمات کا صلہ ضرور دیا جائے۔