ہم ایک بڑی کہانی کے تسلسل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی کہانی کے اندر رہتے ہوئے ہم اپنی ایک
چھوٹی سی کہانی بناتے ہیں اور پھراس بڑی کہانی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ہماری کہانی دراصل ایک بڑی کہانی کو آگے بڑھانے کا وسیلہ بنتی ہے۔
تحریر: سبطِ حسن
کہانی سننا، سنانااورکہانیوں کو اپنے اندر بسا لینا بچّوں کو اچھا لگتا ہے۔بڑے بھی کہانیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ وہ بھی اپنے ارد گرد بنتی اورٹوٹتی کہانیوں میں بستے ہیں۔ ان کہانیوں سے معانی تلاش کرتے ہیں۔ کبھی معانی ملتے ہیں اور کبھی ادھورے رہ جاتے ہیں۔ بعض اوقات کہانی سنانے کی خواہش زندگی سے بھی بڑی ہو جاتی ہے۔ ایک شخص نے نازی کیمپ میں رہتے ہوئے یہ ٹھان لی کہ وہ ایک دن کیمپ سے رہا ہو گا اور اپنوں کو اپنی کہانی سنائے گا۔ کہانی سنانے کی اسی لگن نے اسے کیمپ میں رہتے ہوئے اذیّیتں سہنے کا حوصلہ دیا۔ وہ سخت غیر انسانی حالات میں قطرہ قطرہ زندگی سمیٹتا رہا۔ کہانی سنانے کی اسی لگن نے فاقہ کشی اور سخت تذلیل کی باوجود اسے زند ہ رکھا ۔ آخر وہ کیمپ سے رہا ہوا اور اس نے اپنی کہانی لوگوں کو سنائی۔
قدیم دورمیں انسان اپنے اردگردکی فطرت اور اس کی کرشمہ سازیوں کو دیکھتا اور ان سے مرعوب بھی ہوتا۔ اسے یہ تو معلوم تھا کہ کوئی بھی واقعہ یا کیفیت کسی محرک کے بغیر ممکن نہیں۔ محرکات کو جاننے کے لیے ضروری مشاہدہ اور معلومات بھی میسّر نہ تھیں۔ مثال کے طور پر بیماریوں کا سائنسی تصوّر اس دور میں ممکن نہ تھا کیونکہ جراثیم کو دیکھنے کے خوردبین میّسر نہ تھی۔صرف انسانی جسم کی حدودمیں رہتے ہوئے مشاہدے سے معلومات حاصل کرنا ممکن تھایا ان معلومات کے تقابل سے استنباط inference))کیا جا سکتا تھا۔ یہ انسان میں موجو د قوتِ متخیّلہpower of imagination)) اور اس کی بنیاد پر پیہم متحرک تجسسcuriosity)) کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہ تھا۔ میسّر معلومات سے دھندلا سا خاکہ تو بن جاتا تھامگر اس میں کافی روابطlinks)) ایک دوسرے سے منسلک نہیں ہوپاتے تھے اوربہت سی جگہیں خالی ر ہ جا تی تھیں۔ انسان کے لیے ایسی صورتحال میں اپنی دنیا سے رشتہ بنانا ممکن نہ ہو رہا تھا۔ یہ صورتحال خود انسان کے لیے نفسیاتی ادھورے پن کا باعث تھی۔ اس نے ایک ترکیب نکالی ۔ اس نے اپنی تشفّی کے لیے میسر معلومات کے درمیان غیر موجود روابط اور دھندلی جگہوں کی اپنے تخیّل کی مدد سے فرضی تکمیل کر لی۔یہیں سے جادو(magic) کی ابتدا ہوئی۔ جادوگر نے دعویٰ کیا کہ وہ اس ’ان دیکھی دنیا‘ invisible))تک رسائی رکھتا ہے، جہاں سے ہمیں نظر آنے والی (visible)دنیا کے معاملات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس کے اس دعوے میں ایک بات چھپی تھی اور وہ یہ کہ وہ ان دونوں دنیاؤں کے درمیان رابطے کا کام کر سکتا ہے۔ اس رابطے کی بدولت حقیقی یعنی نظر آنے والی دنیا پر اثر انداز بھی ہوا جاسکتا ہے۔ اسے اپنی خواہش کے مطابق تبدیل بھی کیا جا سکتا ہے۔ جادوگراس ’ان دیکھی دنیا‘ میں اترنے کے لیے ایسی حرکات کرتا جو عام طور پر عام لوگ نہیں کرتے تھے۔ وہ نشہ آور شربت یا چیز کھاتااور عجیب وغریب نفسیاتی مشقیں کرکے حاضر دنیا سے قطع تعلق کرنے کا کھیل رچاتا۔ ایسی حرکتیں ذہنی مریض بھی کرتے تھے ؍ہیں کیونکہ وہ بھی مختلف وجوہات کی بنیاد پر حاضر دنیا سے رابطہ توڑ کر’ اپنی دنیا‘ میں رہتے تھے ؍ہیں۔ جب جادوگر ’ان دیکھی د نیا‘ سے واپس آتا تو وہ ایک کہانی سناتا۔ اس کہانی میں بیان کردہ معلومات کی صداقت کا انحصار مشاہداتی شہادت empirical evidence)) پر نہ تھا۔ کہانی کی صداقت کا انحصار اس کی تاثیر پرہوتا تھا۔ کہانی کی تاثیر اس میں سموئے طلسماتی اور تشبیہاتی بیانیے پر منحصرہوتی تھی۔ یہ بیانیہ سننے والے کو اپنے طلسم میں اترنے اور اس میں جذب ہو جانے کی ناقابلِ انکار دعوت دیتا تھا۔جادوگر جس قدر پرُتاثیر کہانی گھڑ سکتا تھا،اسی قدر اس کی پذیرائی ہوتی اور لوگ اسے سچ مانتے تھے۔
جادوگر کی کہانیوں سے ایک ایسے علم کی ابتدا ہوئی جس کی بنیاد مشاہداتی شہادت کی بجائے بیانیے کی تاثیر اور اس پر لوگوں کا یقین(make believe) تھا۔ چونکہ لوگ ان باتوں کو سچ مانتے تھے اور ان کو رہنمائی کا وسیلہ سمجھتے تھے۔ اس لیے جو لوگ سماجی تنظیم میں دلچسپی رکھتے تھے انھوں نے اس علم پر اپنی اجار ہ داری قائم کرنے کے لیے جادوگروں کے گروہ کے ساتھ دوستی کر لی ۔ اس طرح جادوگر کی کہانیاں اعتقادات اور اخلاقی تنظیم کے لیے ضروری علم فراہم کرنے لگیں۔
آج کل ہم اپنے حافظے پر اعتبارکم ہی کرتے ہیں۔ کسی بھی ضروری بات کو یاددہانی کے لیے لکھ لیتے ہیں۔ کسی اہم کام کے سلسلے میں کسی دوسرے کی زبانی بات پر اعتبار نہیں کرتے۔ آج کل کا دور تحریری روایت written tradition)) کا دور ہے۔قدیم دور میں یہ سب ممکن نہ تھا۔ اُس دور میں عام لوگوں کو پڑھنا لکھنا نہیں آتا تھا۔ وہ دورزبانی روایتoral tradition)) کا دور تھا۔ زبانی روایت میں باہمی ابلاغ میں وثوق اور معاہدوں کی تصدیق کا انحصار زبانی باتوں پر ہی ہو تا تھا۔ سب سے بڑی شہادت اور ثبوت، قسم کھا کر دیا جاتا تھا۔ قسم کھانا منہ سے ہی کچھ کہنا ہوتا تھا۔ مگر زبانی روایت میں قسم کھانا ایک غیر معمولی فعل سمجھا جاتا تھا۔ عام طور پر قسم کھاتے وقت کسی محترم شخصیّت کا نام لیا جاتا تھا۔ زبانی روایت کے بیانیے میں ایسی شخصیات کو مقدس حیثیت حاصل ہوتی تھی۔ مقدس ہونے کا مطلب یہ تھاکہ آپ اس شخصیت کے گرد بُنے حصارکے اندر داخل نہیں ہو سکتے۔ اس کی سماجی حیثیت اور وقار کو پھلانگ نہیں سکتے۔ مثال کے طور پراس بیانیے میں ماں کو ایک سماجی رتبہ حاصل تھا۔ اگر کوئی شخص ماں کی قسم کھا لیتا تو اسے سچ مان لیا جاتا تھا۔ ماں کا نام لے کر غلط بیانی کرنے کا مطلب ، ماں کے رتبے کی بے عزتی کرنے کے مترادف تھا۔ بظاہر قسم اٹھانے کا معاملہ جادو باالمثل homeopatheic magic))سے منسلک تھا۔اس میں یہ مان لیا جاتا تھا کہ اگر یہ ہوجائے تو فلاں کام بھی ہو جائے گا۔ مثلاََ اگر ایک گڑیا کو اپنا دشمن مان لیا جائے اوراگر اس میں سوئیاں چبھو دی جائیں تو سوئیاں گڑیا کو نہیں دراصل دشمن کو چبھیں گی۔ اسی طرح جادو کی رسوم میں بنیادی بات یہی ہوتی تھی کہ اگر یہ ہوگا تو فلاں چیز ہو جائے گی۔ مثلاََ اگر یہ رسم ادا کی جائے گی تو فلاں کام ہو جائے گا۔ اس طرح جادو کا سارا تانا بانا اسی یقین کے گرد ہی گھومتا تھا۔
جب کوئی شخص قسم کھاتا تھا تو اس کے پیچھے جادوگری کا یہی اصول کارفرما ہوتا تھا۔ یہ بات فرض کرلی جاتی تھی کہ اگر کوئی شخص جھوٹی قسم کھائے گا تو اس کو سزا ملے گی۔حقیقت یہ تھی کہ اگر بعدازاں کے حالات قسم کو جھوٹاثابت کر دیتے تواس شخص کا سماجی اعتبار ختم ہو جاتا تھا۔ اگروہ جھوٹی قسم سے کوئی فائدہ اٹھا کے زندگی گزارتا تو خلش اس کے ساتھ ساتھ رہتی۔ واضح رہے کہ اس دور میں کسی شخص کی انفرادیتindividuality)) کا کوئی وجود نہ تھا۔ کوئی فرد اپنے آپ کو اجتماعیت سے الگ نہیں سمجھتا تھا ۔ بلکہ اجتماعیت ہر فرد کے اندر بستی تھی۔ یہ ایک لحاظ سے ہر فرد کی مجبوری بھی تھی کیونکہ وہ ایک مخصوص جغرافیائی یا قبائلی حدود میں پیدا ہوتا تھا اور اس نے ساری زندگی وہیں گزارنا ہوتی تھی۔جس طرح آج کل نقل مکانی کے وسیع امکانات میسر ہیں ، اُس دور میں ایسا ممکن نہ تھا۔ آج کی تحریری روایت کے تناظر میں زبانی روایت کو دیکھیں تو بظاہریہ ایسی باوثوق نظر نہیں آتی ۔ مگر اس نے اپنے مخصوص حالات میں سماجی اعتباراور تنظیم کا ایک نظام قائم کیاجس پرایک طویل دور تک لوگوں نے اعتبار کیا اور اپنی زندگیاں گزاریں۔
آج کل ہم اپنے بچّوں کی تعلیم وتربیت کا بندوبست کرتے ہیں اور اس سلسلے میں زبانی کے ساتھ ساتھ تحریری تعلیمی مواد بچّوں کو مہیا کرتے ہیں۔ زبانی روایت کے دور میں ایک نسل اپنی آنے والی نسل کو اپنے تجربات منتقل کرنے کا بندوبست زبانی وسیلوں oral resources))سے کرتی تھی۔ مثال کے طور پر تکنیکی پیشہ ورمہارتوں کی ایک نسل سے دوسری نسل کو ترسیل استاد اور شاگرد کی روایت کے ذریعے ہوتی تھی۔ عام طور پر پیشے باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتے تھے۔ چونکہ کسی بھی پیشے سے متعلق لکھا ہوا مواد میسر نہ تھا اس لیے استاد شاگرد کی روایت ایک متبادل کا کام کرتی تھی۔
زبانی روایت میں سب سے اہم اورتکنیکی بات یہ تھی کہ ایسے طریقوں کو ڈھونڈا جائے جو کسی بات کو دیر تک یاد رکھنے میں مدد دیں۔ مثلاََ، چھوٹی بحر کی ،چست قافیے اور ردیف کی غنائی شاعری کو فلسفیانہ اورپیچیدہ بیان کے مقابلے میں یاد رکھنا آسان ہے ،مثال کے طور لوک گیت اور کہانیاں۔ زبانی روایت میں تعلیم کا سب سے بڑا ذریعہ کہانیاں تھیں۔ایسی کہانیاں جن میں جادوئی تصورات ہوں اور وہ سننے والے کو مبہوت کردیں۔ ایسے تصورات کا تجربہ زندگی کے روزمرہ واقعات میں ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ جادوئی تصورات صرف سنے نہیں جاتے ، وہ سننے والے کے تخیّل کو اس قدرمتاثر کرتے ہیں کہ وہ ایک تجربے کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ کہانی سننے میں لطف کا پہلو اسی تجربے کی وجہ سے آتا ہے۔ ایسا بھرپور تجربہ ہمیشہ کے لیے سننے والے کے حافظے کا حصہ بن جاتا ہے۔ کو ئی بھی کہانی ناگزیر طور پر ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے کی طرف بڑھتی ہے۔ جب آپ ایک مرحلے پر آتے ہیں توفوراََ آپ کو اگلا مرحلہ یا د آجاتا ہے۔ اس طرح کہانی کو یاد رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔ چونکہ کہانیاں سننے سنانے سے زندہ رہتی ہیں اس لیے اگر کوئی شخص کہانی کا کوئی مرحلہ بھول جائے یاکوئی ترمیم یا اخذاف کر دے تو سننے والوں میں سے کوئی اس کی یاد دلا دے گا۔ کہانی کے مراحل اور ان میں چھپے داخلی ربط کی بہترین مثال یہ کہانی (کمزور ہونے کی سزا)ہے:
ایک دفعہ کا ذکر ہے ، ایک ہرن جنگل میں جنگلی پھل کھا رہا تھا۔ اچانک اُلو کی آواز آئی۔ ساتھ ہی جھینگر نے بھی بولنا شروع کر دیا۔ ہرن ڈر گیا۔ وہ ڈر کے مارے بھاگنے لگا۔ بھاگتے ہوئے درختوں میں سے گزرا۔ پہاڑ پر چڑھا۔ پہاڑ سے اتر کر ندی کے کنارے چلا آیا۔ ندی کے کنارے پر ایک مچھلی تیر رہی تھی۔ ہرن کے پاؤں تلے مچھلی آگئی اوراس کا کچھ گوشت جسم سے الگ ہو گیا۔ مچھلی مرتے مرتے بچی۔ مچھلی کو بہت تکلیف ہوئی۔ اسے غصہ بھی بہت آیا۔ وہ بادشاہ کے پاس گئی اور ہرن، الو اور جھینگر کے خلاف شکایت کر دی۔ بادشاہ نے وزیر کوحکم دیا کہ وہ معلوم کرے کہ ہرن کیوں بھاگا۔ ہرن بھاگا تبھی تو مچھلی زخمی ہوئی۔ وزیر نے جو کچھ معلوم کیا، وہ اس طرح ہے:
’جب ہرن بھاگا تو بھاگنے سے خشک گھاس اُڑی۔ خشک گھاس اُڑی تو اس کا بیج جنگلی مرغے کی آنکھ میں پڑ گیا۔ آنکھ میں بیج پڑنے سے مرغے کو سخت تکلیف ہوئی۔ مرغا گھبرا کا ااڑا اور سرخ چیونٹیوں کے گھر پر جالگا۔ چیونٹیاں گھبرا کر باہر نکلیں تاکہ حملہ کرنے والے کا مقابلہ کریں۔ ان کے سامنے نیولا آگیا۔ انہوں نے نیولے کو کاٹ کھایا۔ نیولے کو چیونٹیوں کے کاٹنے سے سخت تکلیف ہوئی۔ وہ تکلیف میں بھاگا اور ایک بڑی جھاڑی سے جا ٹکرایا۔ جھاڑی پر بڑے بڑے جنگلی پھل لگے ہوئے تھے ۔ نیولے کے ٹکرانے سے جنگلی پھل نیچے گرے۔ جھاڑی کے نیچے ایک درویش بیٹھا تھا۔ جنگلی پھل، درویش کے سر پر لگے۔ درویش آنکھیں بند کئے، سوچ رہا تھا۔ پھل سر پر لگے تو اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اسے سخت تکلیف ہو رہی تھی۔‘
بادشاہ نے وزیر سے کہانی سنی اور حکم دیا:
’’ساری ذمے داری جھینگر پر آتی ہے۔ اس کے بولنے کی وجہ سے ہرن ڈرا۔ جھینگر کو حکم دیا جاتا ہے کہ مچھلی سے معافی مانگے اور اس کا علاج کروائے تاکہ وہ بالکل ٹھیک ہو جائے۔‘‘
جھینگر ، الُو او رہرن کے مقابلے میں کمزور تھا۔ اس لیے ساری سزا اسے ہی بھگتنا پڑی۔
اس کہانی میں ایک واقعہ دوسرے واقعے کا اشارہ دیتا ہے۔ مثلاََ خشک گھاس اڑی تو اس کا بیج مرغے کی آنکھ میں پڑے گا۔ مرغا گھبرا کر اڑا اور سرخ چیونٹیوں کے گھر پر جا لگا۔ چیونٹیوں نے نیولے کو کاٹ کھایا۔ نیولہ بھاگا تو جھاڑی سے جا ٹکرایا۔ و علیٰ ہذالقیاس۔
کہانی ایک نسل کے تجربات کو دوسری نسل تک منتقل کرنے کا ذریعہ بنی۔ اس سے سماجی تنظیم کے ساتھ ساتھ تہذیب کی اساس اور تسلسل ممکن ہو سکا۔