کالمز

قیمتی ووٹ کا حقدار

الیکشن کے دنوں میں جو اشتہارات اور پوسٹر لگائے جاتے ہیں ان پرامیدوار لکھتا ہے’’آپ کے قیمتی ووٹ کا حقدار‘‘گاؤں کے کسی ووٹر کو کبھی اس بات کا پتہ نہیں چلا کہ میرا ووٹ کس طرح قیمتی ہے ۔میرے ووٹ کی کیا قیمت ہے؟گذشتہ روز پاکستان تحریک انصاف نے اپنے اراکینِ اسمبلی کے ووٹوں کی قیمت اخبارات میں چھپوائی،سوشل میڈیا میں لگائی اور الیکٹرانک میڈیا پر چلائی تو پہلی بار معلوم ہوا کہ مارکیٹ میں ایک ووٹ 3کروڑروپے سے لیکر 5کروڑتک کی قیمت میں بکتا ہے پھر بھی پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی کا کہنا ہے کہ بولی ٹھیک طرح سے نہیں لگی بقول علامہ اقبال ؂

میں جنسِ گرانمایہ ہوں قیمت ہے گراں میری

کم مایہ ہیں سوداگر اس دیس میں ارزاں ہوں

وطنِ عزیز پاکستان کا انتخابی نظام گلاسڑا فرسودہ اور دقیانوسی نوعیت کا ہے اس نظام کی بنیادہی دولت پر رکھی گئی ہے ایک سیاسی جلسے پر 10کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے صوبائی اسمبلی،ضلعی نظامت اور قومی اسمبلی کی سیٹ پر کم از کم 8کروڑ روپے کا خرچہ آتا ہے کوئی غریب ورکر،کوئی سفید پوش پاکستانی حق حلال کی کمائی اس عیاشی پر نہیں لگا سکتا اس لئے اسمبلی میں پاکستان کے 98فیصد عوام کی نمائندگی نہیں ہوتی صرف 2فیصد سرمایہ دار اور جاگیردار طبقہ اسمبلیوں میں جاتا ہے قانون سازی کرتا ہے اور ملک پر حکمرانی کرتا ہے ہمارے شہروں اور دیہاتی علاقوں کے مسائل سے 100فیصد بے خبر ہوتے ہیں موجودہ اسمبلی میں تین قوانین ایسے پاس ہوئے جو پاکستانی عوام کے نمائندے کبھی پاس نہ کرتے مردم شماری کے قانون میں،تعلیم یا ملازمت کیلئے گھر سے باہر رہنے والے شہریوں کو شامل نہ کرنے کا قانون پاس ہوا ایک دفتری بابو نے لکھا کسی پڑھے لکھے آدمی کو نہیں دکھایا اسمبلی میں کسی نے قانون کا مسودہ نہیں پڑھا ساری مردم شماری جعلی اور بوگس ثابت ہوئی اسمبلی میں حلقہ بندیوں کا بل پاس ہواقومی اسمبلی کیلئے 7لاکھ اور صوبائی اسمبلی کیلئے 4لاکھ آبادی کی شرط رکھی گئی دفتر کے کلرک نے مسودہ تیار کیا کسی افیسر نے اسکو نہیں پڑھا مسودہ اسمبلی میں گیا ممبروں میں سے کسی نے نہیں پڑھا بل ایوان میں پیش ہوا سب نے ہاتھ اٹھایا ایک ناجائز اور غلط قانون بن گیا اب اسمبلیوں کے اراکین باہر آکر سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں ختم نبوتﷺ کے قانون کو ختم کرنے کا بل کسی کلرک نے تیار کیا اراکین نے ہاتھ اٹھاکر پاس کیا بعد میں پھڈا ہوا دھرنا دیا گیا ،گالیاں دی گئیں اسلام آباد کو یرغمال بنایا گیا تو اسمبلی کے ممبروں کو ہوش آیا عدالت کے سامنے پیش ہوکر چار اہم وزیروں نے اقرار کیا کہ ہم نے بل کو پڑھا نہیں تھا اگر انتخابی قواعد میں دولت کے بل بوتے پر ووٹ لینے کی گنجائش نہ ہوتی تو ایسا بل کبھی پاس نہ ہوتا۔ عوام کے نمائندے ہر بل کو پڑھتے تاہم ووٹ کی قیمت کا اندازہ گاؤں کے پولنگ سٹیشن پر نہیں ہوتا ووٹ کی قیمت کا درست اندازہ سینیٹ کے الیکشن میں ہوتا ہے انگریزی محاورے کی رُو سے ٹکٹ دیتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ امیدوار مالدار ہو اور ستر، اسی کروڑ روپے لگا سکتا ہوبلکہ آسانی سے لگا سکتا ہو اس کو ’’وننگ ہارس‘‘دوڑ جیتنے والا گھوڑا کہا جاتا ہے اسکے بعد ووٹ مانگنے کے مرحلے میں پھر جوا ہوتا ہے ریس کے گھوڑوں پر جوا کھیلنے والے جس طرح ایک گھوڑا دے کر دوسرا لیتے ہیں اسی طرح سینیٹ کے ووٹ میں گھوڑوں کا لین دین ہوتا ہے اس کو انگریزی میں ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے اور ہارس ٹریڈنگ میں ووٹ کی قیمت کا درست اندازہ ہوتا ہے آج میرے سامنے 2013ء ؁ کے ووٹ میں استعمال ہونے والے پوسٹر اور اشتہارات رکھے ہیں ہر پوسٹر اور اشتہار پر نمایاں کرکے لکھا ہوا ہے’’آپ کے قیمتی ووٹ کا حقدار‘‘آج میں سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے امیدواروں نے کسر نفسی سے کام لیا ہے اصلی حقدار،صحیح حقدار اور واحد حقدار لکھنے سے احتراز کیا ورنہ وہ خود کو اصلی،صحیح اور واحد حقدار بھی لکھ سکتے تھے آج پہلی بار معلوم ہوا کہ ہمارا ووٹ 5کروڑ روپے میں بِک سکتا ہے قیمتی ووٹ کا حقدار ہی اپنی قیمت لگاتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button