کالمز

نا ن کسٹم پیڈ کا چکر 

نا ن کسٹم پیڈ گاڑی کو مختصر الفاظ میں این سی پی کہا جاتا ہے ملاکنڈ ڈویژن میں گذشتہ4 مہینوں سے نا ن کسٹم پیڈ گاڑیوں کی جا نچ پڑتال جاری ہے ایک گاڑی کی جانچ پڑتال میں چار سے لیکر 5 دن تک لگتے ہیں ایک بڑے میدان میں گاڑیوں کو لمبی قطاروں میں کھڑی کر کے تین محکموں کے لوگ ان کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اُ ن میں سے ایک بھی اس کام میں تجر بہ یا مہارت نہیں رکھتا پہلے تین مہینوں تک یہ خیال تھا کہ اس جانچ پڑتال کے نتیجے میں نا ن کسٹم پیڈ گاڑی ، کٹ گاڑی ، چابی چورگاڑی اور ڈوپلی کیٹ وغیر ہ میں سے بعض کو جرمانہ ہوگا بعض کو کسٹمز کے قوانین کی روشنی میں ڈیوٹی لیکر قانونی حیثیت دی جائیگی مگر 4 مہینوں کے بعد پتہ لگ گیا ہے کہ یہ عمل مزید ایک سال جاری رہے گا اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس عمل کے نتیجے میں کچھ بھی نہیں ہو گا صرف غیر قانونی گاڑی کا نمبر بدل دیا جائیگا نمبر پلیٹ تبدیل کر کے کالے این سی پی کی جگہ زرد این سی پی کا نمبر پلیٹ لگو ایا جائے گا اللہ اللہ خیر صلا یو نیورسٹی آف مشی گن امریکہ کی ایک پروفیسر نے کالاش تہوار اوچال دیکھنے کے لئے چترال ملا کنڈ ڈویژن کادورہ کیا انہوں نے عجائب گھر کے سامنے گاڑیوں کی قطار دیکھ کر پوچھا یہ کیسی قطار ہے ہم نے بات کو ٹالنے کے لئے کہا ’’ ایسی قطار ہے‘‘ وہ ماننے والی نہیں تھی ہم نے مجبوراً ’’ قصہ درد‘‘ ان کو سنا یا ’’ قصہ درد سنا تے ہیں کہ مجبور ہیں ہم ‘‘ امریکی پروفیسر کا پہلا سوال یہ تھا کہ نا ن کسٹم پیڈ گاڑیاں کو ن لا تا ہے ؟ ہم نے بر جستہ کہا حکومت لاتی ہے اُس کا دوسرا سوال یہ تھا کہ حکومت کیوں لاتی ہے ؟ ہم نے فیض کے مصرعے کا انگریز ی ترجمہ کر نے کی اپنی سی کو شش کی ’’ چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے ‘‘ امریکی پروفیسر کا کہنا تھا کہ برائی کی جڑ کو ختم کیوں نہیں کیا جاتا ؟ ہم نے کہا برائی کی جڑوں میں خزانہ رکھا ہوا ہے یہ حکومت کو نہیں ملتا افیسروں کو ملتا ہے روزانہ 200 گاڑیاں سمگل ہو کر آتی ہیں اور ہر گاڑی پر ایک ہزار یو ایس ڈالر مجاز حاکم کو ملتا ہے اپنی دودھ دینے والی گائے کو ن ذبح کریگا اور کیوں ذبح کر یگا امریکی پروفیسر نے کہا حکومت کو یہ باتیں معلوم کیوں نہیں ہوتیں؟ ہم نے کہا حکومت کی اشیر باد سے دھند ا چل رہا ہے پھر اُ س نے امریکی نظام کے بارے میں بتا یا تو شرم سے ہمارے پسینے چھوٹ گئے پشاور صدر اور شہر کی باڑہ مارکیٹوں میں دو چار ارب روپے کا کپڑا ہر روز سمگل ہو کر آتا ہے سرحد پر اس کو روکنے کا انتظام نہیں ہے باڑہ مارکیٹ سے 3ہزار روپے کا کپڑا خرید کر باہر آجاؤ تو پولیس اور کسٹم حکام نا کہ لگا کر مال کو ضبط کرتے ہیں اور 3 ہزار روپے کی خرید ار ی کر نیوالوں کو تھا نے میں بند کر کے ذلیل وخوار کرتے ہیں ان کو قانون اُس وقت یاد آجاتا ہے جب 3 ہزار روپے کا سودا خریدنے والے کی باری آتی ہے اُس وقت قانون یاد نہیں رہتا جب 10 کروڑ کا مال سرحد سے پار ہوجاتا ہے ملاکنڈ ڈویژن کو ’’ نا ن کسٹم پیڈ‘‘ کی جنت کس نے بنا یا ؟ حکومت نے خود بنا یا اس میں غریب ڈرائیورکا کوئی قصور نہیں وہ مزدور کار ہے مزدوری کرتا ہے اگر سستی گاڑی ملتی ہے تو مہنگی گاڑی لیکر مزدوری کیوں کریگا ؟ دوبار ایسے مواقع آئے جب حکومت نے نا ن کسٹم پیڈ، چابی چور، ڈوپلی کیٹ اور کٹ گاڑی کے کاروبار کو ختم کر کے قانون کے دائر ے میں لانے کا اعلان کیا مگر بالائی حکام نے اس کو آگے بڑھنے نہیں دیا ایک دفعہ ایسا واقعہ ہوا کہ غیر قانونی گاڑیوں کیخلاف اپر یشن میں پہلے دن 27 گاڑیاں پکڑی گئیں شام کو اُن میں سے 26 گاڑیاں چُھٹر وائی گئیں ان میں سے 17 گاڑیاں صوبائی وزیر کی تھیں باقی ایم پی اے صاحبان کی تھیں اگلے دن حکام نے اپریشن بند کر دیا ’’ گنا ہ بے لذت‘‘ سے ہاتھ کھینچ لیا تاہم اتنا ہوا کہ برائی کی جڑ معلوم ہوگئی ایک غریب ڈرائیور چھ سات دنوں تک خوار ہوکر 3 دفتروں کا چکر لگا تا ہے گاڑی کو قطار میں لگاتا ہے چیک کر نے کا مرحلہ آئے تو پتہ چلتا ہے کہ چیک کرنے والوں میں کوئی تجر بہ کار ماہر موجود نہیں چیک کرنے کا فرا نسک ( Fransic) انتظام نہیں لیبارٹری نہیں اور چیکنگ کے بعدا چھے یا برُے کی کوئی تمیز نہیں کوئی کا غذ یا سرٹیفیکیٹ نہیں رجسٹریشن کا کوئی بند وبست نہیں ریگو لیرائز کرنے کا کوئی انتظام نہیں ایک ہفتہ کی خواری کے بعد پھر نا ن کسٹم پیڈ کا دوسرا نمبر مل جاتا ہے ایک خندق کو پار کر نے کے بعد اُس جیسا دوسرا خندق آتا ہے جب آخر میں کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ، جب آخر میں جاکر بہتر حالت نہیں آجاتی تو فضول میں عوام کو خوار کر نے کی ضرورت کیا ہے ؟ سویت یونین کے زوال سے دوسال پہلے ڈاکٹر محمد انور خان نے ماسکو کا دورہ کیا ماسکو سے اشک اباد اور فرونز ے بھی گئے واپسی پر ایک سیمینار میں انہوں نے بتا یا کہ لوگوں سے8 گھنٹے کا م لیا جاتا ہے کام سے واپس آکر ماں دودھ لینے جاتی ہے باپ گھی لینے جاتا ہے بیٹا روٹی لینے جاتا ہے بیٹی دیگر سودا لینے جاتی ہے 6 گھنٹے قطاروں میں کھڑے ہو کر سودا سلف خرید تے ہیں تھک ہا ر کر واپس آتے ہیں تو رات ہوجاتی ہے اگلے دن وہی چکر دوبارہ شروع ہوتا ہے یہ لوگوں کو مصروف کر کے نظام حکومت سے لاتعلق کرنے کا حربہ ہے ملاکنڈ ڈویژن میں نام کسٹم پیڈ گاڑیوں پر یہ حربہ باربار آز ما یا جاتا ہے غریب عوام کی یہی قسمت ہے ملک کے اندر انسانی حقوق کی تنظیمیں ہیں عدالتیں ہیں وکلا ء کی تنظیمیں ہیں نا م نہاد پر وبو نو لائر ز فورم بھی ہے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی متحرک اور قانون پسند شخصیت کا چر چا بھی ہے لیکن کسی نے آج تک نہیں پوچھا کہ کھلے میدان میں ہر روز سو ڈیڑھ سونان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا پیریڈ کیوں ہو رہا ہے ؟ اگر یہ غیر قانو نی ہیں تو سرحد پار کرتے وقت کیوں نہیں روکا جاتا ؟ غالب نے کہا بات کہی

لیتا ہوں مکتبِ غم دل میں سبق ہنوز

مگر یہ کہ رفت گیا اور بود تھا

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button