تاجر برادری کا امتحان
گزشتہ کئی سالوں سے میڈیا میں ہم صرف ایک فرد بشیر حسین آزاد کو بازار، کاروباری افراد اور بازار میں آنے والے عام عوام کے حقوق کے لئے آواز اٹھاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ چاہے وہ بجلی کا مسئلہ ہو، پانی کا مسئلہ ہو، واش رومز کا مسئلہ یا بازار آنے والے افراد کو سہولیات فراہم کرنے کا مسئلہ۔ وہ مسلسل اور توانا انداز میں ان تمام مسائل کیلئے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان کی خبریں قومی میڈیا میں چترال بازار کے حقوق کے لئے ایک بہترین پلیٹ فارم فراہم کررہے ہوتے ہیں۔ وہ مسلسل اپنے مضامین کے ذریعے بھی بازار کے مسائل مقامی اور قومی میڈیا میں اٹھا رہے ہیں۔ کئی دفعہ میڈیا کی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ میٹنگز میں بھی وہ بازار کے مسائل کو بہت زیادہ شدومد کے ساتھ اٹھایا ہے۔ وہ نہ صرف میڈیا کے ذریعے بازار کے مسائل کو اجاگر کرتے رہتے ہیں بلکہ ان کی آواز مقامی اور قومی سطح پر ایک مستند اور باوقار فرد کے مطالبے کا درجہ رکھتی ہے۔ تاجر دوست پینل کے ذریعے بشیر حسین آزاد کے گروپ کا تجار برادری کے انتخابات میں حصہ انتہائی خوش آئند بات ہے۔ اگر ایک فرد کسی نمائندگی کے بغیر اپنی برادری کے لئے ہر پلیٹ فارم پر آواز اٹھا رہا ہے ایسے فرد اور ان کے پینل کو اگر تاجر برادری اپنے نمائندے کے طور چن لیتی ہے تو یہ کاروباری افراد اور عام عوام کے لئے بھی بہترین فیصلہ ہوسکتا ہے۔تاجر دوست پینل کا منشور دیکھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ چترال بازار میں کاروباری افراد اور عام عوام کے لئے کیا کیا تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں۔ ایسا منشور شاید تجار یونین کے جب سے انتخابات ہورہے ہیں کسی نے نہیں دیا ہوگا۔اس لئے حالیہ انتخابات تاجر برادری کے لئے امتحان کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اب بھی کیا ایسے افراد کا انتخاب کریں گے جنہیں کئی دفعہ نمائندگی دینے کے باوجود وہ نہ تو کاروباری افراد کے حقوق کے لئے کچھ کر سکے اور نہ ہی عوام کو سہولیات دینے میں کامیاب ہوئے اور کیا کاروباری افراد اب بھی پتھر کے دور جیسا بازار جو سہولتوں سے مکمل طور پر مبرا ہے، چاہتے ہیں یا پھر تاجر برادری کی نمائندگی نوجوان اور تعلیم یافتہ لوگوں کے حوالے کرکے اپنی آواز ذمہ داروں تک پہنچانے کا مظبوط بندوبست کرتے ہیں۔