سیف الرحمن شہید ۔صدیوں تجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
رشید ارشد
اس کائنات رنگ وبو میں ہزاروں شخصیات ایسی گزری ہیں جن کی تب وتاب جاودانہ تاریخ کی نذر نہیں ہوئی بلکہ ان کی کرنوں سے تاریخ منور ہوتی چلی گئی ان کی جلائی ہوئی شمعیں اپنی ضوفشانیوں سے زندہ قوموں کو راستہ دکھاتی رہتی ہیں۔ وہ آسودہ خاک ہو کر بھی دلوں ایسے بیج بو جاتے ہیں جو ان کی رحلتوں کے بعد تناور درخت بن جاتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ جب ہم افراد اور اشخاص کی زندگیوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس حقیقت کے اعتراف کے بغیر چارہ نہیں کہ سیف الرحمن شہید جیسی شخصیتیں روز روز پیدا نہیں ہوتیں۔ ان کی خوبیوں کا باب بہت طویل ہے۔ میں بہت دیر تک سوچتا رہا کے آخر وہ کون تھا جس نے بہت کم وقت میں اپنے آپ کو گلگت بلتستان کے عوام کے دلوں میں نقش کر دیا اور قربانیوں کی اک داستاں چھوڑ کر جاتے جاتے اپنی جاں بھی گلگت بلتستان کے امن کے لئے قربان کر کے شہید امن قرار پائے ۔
ہت کم لوگ ایسے ہیں جو تاریخ کے دامن میں اپنی خدادا صلاحیتوں اور لازوال قربانیوں کی بدولت ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ۔سیف الرحمن شہید کو میں نے اس وقت جاں ہتھیلی پر سجائے گلگت کی ہر شاہراہ میں امن کی صدائیں بلند کرتے دیکھا جب ہر طرف خوف و دہشت کے سائے اپنی تمام تر وحشتوں کے ساتھ گہرے سے گہرے ہوتے جا رہے تھے ،ہر طرف دہشت کا عالم اور گولیو کی گونج میں گلگت کی خوبصورت وادیوں کا حسن گہنا گیا تھا ،مذہب و مسلک کے دوکانداروں نے ہر چوک چوراہے میں مذہب و مسلک کی دوکانیں سجا دیں تھیں اور ہر دوکان میں کفر اور اسلام کے فتوے دستیاب تھے ،امن کی بات کرنے والے دیوانوں کیلئے غدار کا لقب دینے میں دیر نہیں لگائی جاتی تھی،جب کوئی بیٹا گھر سے باہر نکلتا تو ماں مصلحہ بچھا کر پر اپنے لخت جگر کی واپسی اور زندگی کیلئے دعائیں مانگنے لگتی تھیں ،گولی مارنے والے کو یہ نہیں معلوم تھا کہ میں جس پر گولی چلا رہا ہوں وہ کون ہے اور گولی کھانے والے کو یہ خبر نہیں تھی کہ مجھ پر گولی کس جرم میں چلائی گئی ۔اک اندھی جنگ میں گلگت کو دھکیلا گیا تھا جس جنگ نے گلگت بلتستان کے عوام کو محرمیوں کو انبار اور معاشی غلامی کے سوا کچھ نہیں دیا ،گلگت کے محلے اور گلیاں آسیب زدہ بستی کا منظر پیش کر رہی تھیں ،امن کی تمام کوششیں رائیگاں گئی تھیں کیونکہ دہشت کے اسیروں نے فیصلہ کیا تھا کہ ہر امن کی آواز کو خاموش کرا دیا جائے گا ایسے میں بڑے بڑے رہنما اور درد ملت اور وطن کی محبت رکھنے والے لوگ اپنے وطن کی یہ حالت دیکھ کر کرب کے سمندر سے تو ضرور گزرتے تھے مگر خوف سے امن کے لئے صدا بلند نہیں کر سکتے تھے ،اس مشکل وقت میں امن کے دشمنوں کو جس نے للکارا اس کا نام سیف الرحمن تھا ،ایک دن میں بھی خوف و دہشت میں گھر میں دبک کر اپنی بے بسی کا ماتم کر رہا تھا ایسے میں گلگت شہر کی مصروف شاہراہ جو سنسان ہوئی تھی میں نعروں کا ایک شور بلند ہوا خوف سے کانپ گیا کہ نہ جانے اب کون سا دہشت کا نعرہ لگانے کوئی مسلک کا ٹھیکدار آگیا باہر نکل کر دیکھا تو انسانوں کا ایک سمندر رواں ہے اور اس کی قیادت سیف الرحمن کر رہے ہیں ،غور کیا تو نعرے دہشت کے نہیں امن و محبت کے لگ رہے تھے ،خوشی سے میں بھی اس جلوس کا حصہ بن گیا امن کاررواں گلگت شہر کے محلوں اور گلیوں سے گزر رہا تھا چلتے چلتے میں سیف الرحمن شہید کے پاس پہنچ گیا اور سوال کیا کہ سیف الرحمن بھائی کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ نے خوف کے اس ماحول میں امن کا نعرہ بلند کیا ہے جب بڑے بڑے رہنما ہمت نہیں کر سکے ایسے میں کیا امن دشمن آپ کو معاف کریں گے کہ آپ ان کے مفادات میں رکاوٹ بنیں ،میرے سوال پر شہید سف الرحمن مسکرائے اور تاریخی جواب دیا کہ مجھے خبر ہے کہ میں کس مشن پر چل پڑا ہوں راستے کی مشکلوں سے بھی آگاہ ہوں اور امن دشمنوں کے ناپاک عزئم سے بھی باخبر ہوں لیکن وطن کی مٹی نے مجھے پکارا ہے اور اسی مٹی میں ایک دن خاک ہونا ہے تو کیوں نہ میں امن دشمنوں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر گلگت کے عوام کو امن کی بہاریں لٹا دوں ،مجھے خبر ہے کہ اس مشن میں میری جان بھی جا سکتی ہے مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں اور اپنی جان ہتھیلی پر لے کر نکلا ہوں اور عزم کر چکا ہوں کہ امن دشمنوں کے ناپاک عزائم کو بے نقاب کر کے سوہنی وطن گلیت کو امن کا گہوارا بناؤں ،سیف الرحمن شہید کی ان پر عزم باتوں کو سن کر مجھے امید ہوئی کہ اب امن دشمنوں کے لئے چھپنے کی جگہ نہیں لیکن اسی لمحے میرے دل میں اک خوف کی لہر سی بھی اٹھی کہ امن کو تباہ کر کے اپنے مفادات کی پوٹلی بنانے والوں کو کہاں یہ گوارا ہوگا کہ سیف الرحمن ان کے مفادات میں رکاوٹ بنیں ایسے میں امن دشمن سیف الرحمن کی جان کے دشمن بھی بن سکتے ہیں اور اس مشن میں ان کی جان بھی جا سکتی ہے میرے دل سے دعا نکلی کہ اے رب کعبہ اس امن کاررواں کو کامیاب کر اور سیف الرحمن کی جان کی حفاظت کر۔آخر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا امن دشمنوں نے سیف الرحمن شہید کو امن کا نعرہ بلند کرنے کی پاداش میں شہید کر دیا،شہید چونکہ زندہ ہوتا ہے اور شہید کا شروع کردہ مشن شہادت کی برکت سے جاری رہتا ہے شہید سیف الرحمن کا مشن امن رکا نہیں ان کے وارث حفیظ الرحمن نے ان کی مشن امن کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر گلگت بلتستان کو امن کا گہوارا بنا کر دنیابھر میں ایک منفرد پہچان دی ہے اور اب حفیظ الرحمن گلگت بلتستان کو معاشی حوالوں سے بلندیوں سے آشنا کرنے کیلئے آگے بڑہ رہے ہیں ،زندہ قومیں اپنے محسنوں کو یاد بھی رکھتی ہیں اور ان کے مشن کو زندہ بھی ،شہید سیف الرحمن آج بھی زندہ ہیں اور ہم ان کی عظیم قربانی کو یاد کرتے ہوئے سلام عقیدت پیش کرتے ہیں
مرے چارہ گر کو نوید ہو صفِ دُشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چُکا دیا
کرو کج جبیں پہ سرِ کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا
جو رُکے تو کوہِ گراں تھے ہم، جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا