کلرک کا احتساب
دو خبریں ایک ہی دن اخبارات میں لگی ہیں پہلی خبر یہ ہے کہ نیب نے ڈاک خانہ کے بابو کااحتساب کیا ۔ دوسری خبر یہ ہے این ٹی ایس کے سکینڈل میں چار کلرکوں کو معطل کر دیا گیا۔ اللہ اللہ خیر صلاّ۔ خاقانی ہند شیخ محمد ابراہیم ذوق کی غزل کا لاجواب شعر ہے
کسی بیکس کوبیداد گر مارا تو کیا مارا
جو خود مر رہا ہو اس کو اگر مارا تو کیا مارا
کلرک ،بابو، کے پی او، آفس اسسٹنٹ کس حساب میں ہے ۔ اُس کے ہاتھ میں کیا ہے؟اُس کا حصہ کتنا ہے ؟اگر کرپشن کی بات آگئی تو وہ کتنی کرپشن کرسکتا ہے ؟ اگر کرپشن کرے تب بھی خود نہیں کرے گا افسر کے لئے کرپشن کرے گا ۔ مال افسر کو ملے گا ۔ کلرک کو دو پیسے کا انعام ملے نہ ملے وہ مانگ کر نہیں لے سکتا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں احتساب کی بات آتی ہے تو چپڑاسی ، ڈرائیور اور کلر ک کو پکڑ ا جاتا ہے۔ پٹواری کے خلاف احتساب کے خنجر چلائے جاتے ہیں۔ سپاہی پر جینا حرام کیا جاتا ہے۔ اوپر کی سطح پر کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا ۔کرپشن کاذکر آتا ہے یا احتساب کی بات آتی ہے تو صرف ایک مقصد کے لئے آتی ہے۔ ایک سیاستدان کا راستہ روک لیا جائے ، دوسرے سیاستدان کو ناجائز راستہ دے دیا جائے۔ 1999ء سے لیکر 2002ء تک 3سالوں کے لئے احتساب کا زبردست شوشہ چھوڑا گیا۔ 90دنوں کے لئے لوگوں کو حوالات میں ڈال دیا گیا۔ حوالات کے اندر اُن سے وعدہ لیا گیا کہ مسلم لیگ ق کا ساتھ دوگے ۔ انہوں نے ساتھ دینے کا وعدہ کیا اوربخشے بخشا ئے حوالات سے باہرآگئے ۔ یہ حال دیکھ کربعض لوگوں نے حوالات جانے سے پہلے ’’ہم خیال ‘‘ کا کلمہ پڑھا اور مسلم لیگ ق کی رکنیت کا فارم بھر کر نئی سیاسی زندگی کا آغازکیا۔ یہ وہ دور تھا جب لوگوں نے چار ارب روپے کی چوری کی تھی اور 10ارب روپے کے قرضے معاف کروائے تھے۔ جن لوگوں کے ذمے 20ارب کی چوری کے مقدمات کی فائلیں کھل گئی تھیں وہ لوگ ہم خیال بننے کے بعد کابینہ کے وزیر بنا دئیے گئے اور 2002ء میں پہلی بار ایسا نہیں ہوا ۔ 1962ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ 1985ء میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ کرپشن کے خلاف جب بھی مہم چلائی گئی اُس کا مقبول نعرہ یہی رہا ’’ تم میرا ساتھ دو گے یا نہیں ‘‘ اگر تم نے میرا ساتھ دیا توکرپشن سے پاک کی سند مل جائے گی میرا ساتھ نہیں دو گے تو تمہیں کرپٹ ثابت کیا جائے گا۔ جنرل پرویزمشرف کے دور میں اکبر بگٹی نے بغاوت کا علم بلند کیا۔ تو حقائق جاننے کے لئے چوہدری شجاعت حسین کی سربراہی میں پارلیمانی کمیٹی کو بلوچستان بھیجا گیا۔ کوئٹہ پہنچنے کے بعد ان کو جو بریفنگ دی گئی وہ بے حد احتیاط سے تیار کروائی گئی تھی اور اسلام آباد سے بھیجی گئی تھی۔ بریفنگ میں پارلیمانی وفدکے ایک ممبر کی فائل کا تذکرہ تھا کہ تمہارے فائل میں عجب کرپشن کی غضب کہانی ہے ۔ پہلے اس پر روشنی ڈالو کہ ان فائلوں کا کیا انجام ہوگا؟ ان پر کاروائی کا آغاز کب کیا جائیگا اور تم کس طرح جواب دوگے؟ بریفنگ کے بعد کھانے کی میز پر سب کے چہرے لٹکے ہوئے تھے۔ اگلی صبح میٹنگ تھی۔ میٹنگ میں پارلیمانی وفد سے پوچھا گیا کہ حقائق کی تلاش میں کس کس سے ملو گے؟ وفد کے اراکین نے کہا ہمیں معاف کیا جائے اور واپسی کا ٹکٹ دیا جائے۔ چنانچہ وفد کو ایک ہینڈ آؤٹ کیساتھ واپسی کا ٹکٹ دیدیا گیا۔ہینڈ آؤٹ کو مشاہد حسین سید نے پڑھ کرسنایااس میں لکھا تھاکہ بلوچستان میں کوئی مسئلہ نہیں سب اچھا ہے۔ ہم نے 30نکاتی ایجنڈا تجویز کیا ہے اس پر عمل ہوگا۔ اس ایجنڈے کے نتیجے میں بلوچستا ن کے دفتروں اورسکولوں سے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم اتار دیا گیا۔ اکبر بگٹی قتل کردیے گئے ۔ زیارت ریزیڈنسی کو جلا دیا گیا۔ لندن ، کابل ،دہلی، برلن اور جینوا میں آزادبلوچستان کے جھنڈے لہرائے گئے۔ بلوچ لبریشن آرمی کے نام سے نئی مکتی باہنی تیار کی گئی ۔ نیب (NAB) کا قانون نرالا ہے۔ ہم خیال سیاستدان کرپٹ ثابت ہوجائے تو کابینہ کا وزیر بن جاتا ہے۔ خدمت کرنے والا جج کرپٹ ثابت ہوجائے توعزت اور احترام کے ساتھ بیرون ملک جاکر عیش کرتا ہے۔ ہم پیالہ وہم نوالہ افیسر کرپٹ نکلے تو ویانا ، لندن ، نیویارک، ہوسٹن ، دوبئی اور ابو ظہی میں اپنا گھر بسا لیتا ہے۔فوجی افیسر ہو تو چار چار ملکوں میں اسکے گھر ہوتے ہیں۔ NABکے قانوں میں پٹواری،کلرک،ڈاک خانے کابابو، چپڑاسی اورڈرائیور پکڑا جاتا ہے۔ وہ بچ کر نہیں جاسکتا۔ سپریم کورٹ کے بار روم میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہا جاتا ہے اگر تم نے کرپشن کی ہے تو فکر مت کرو چھوڑ دئیے جاؤگے ۔ اگر تم نے کرپشن نہیں کی تو پھر معاملہ گڑ بڑ ہے۔ تمہیں کوئی نہیں بچا سکے گا۔ یہ صرف بار روم کا لطیفہ نہیں۔ NABکے قانون کا قاعدہ کُلیہ بھی ہے۔ مجھے اخبار میں ڈاک خانے کے بابو اور این ٹی ایس کے کلرکوں پر کرپشن کے الزامات کی خبر پڑ ھ کر تعجب نہیں ہوا۔ جہاں بڑا مگرمچھ نہیں پکڑا جاتا وہاں اس طرح کی چھوٹی مچھلیوں کا شکار ہوتا ہے۔ استادذوق نے کہا
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو اگر مارا
نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا