حراموش کا جنت نظیر خطہ وادی کٹوال
از قلم : زہرا شریف
گلگت بلتستان پوری دنیا کے لئے سیاحتی مرکز ہے ۔ یہ نعمتوں سے مالا مال جنت ہے جو پاکستان کے شمال میں واقع ہے ۔ اس علاقے کے پہاڑمختلف نعمتوں کے حامل ہیں ۔یہاں کے پھل، باغات، سبزے ہر چیز اپنی مثال آپ ہے یہاں تک کہ یہاں کے لوگ بھی سب سے منفرد ہیں۔
اس علاقے میں بے شمار سیاحتی مراکز ہیں جن میں سے ایک وادی کٹوال ہے جو حراموش میں واقع ہے اس وادی کی خوبصورتی کو الفاظ میں سمانا کٹھن ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے لیکن اس کے بارے میں بہت کم آگاہی ہے۔اس وادی کی خوبصورتی راقم نے بھی زبانی ہی سنی تھی لیکن اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی مشتاق تھی ، اتفاق سے گرمیوں کی تعطیلات میں مجھے وہاں جانا نصیب ہوا۔اس جنت نظیر وادی تک پہنچنے کے لئے حراموش کے دوسرے علاقوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ایک طویل اور کافی مشکل راستہ طے کرنا پڑتا ہے ۔ چیڑ کے گھنے جنگل کے بعد وسیع و عریض رقبے پر پھیلا ہوا گلیشیئرآتا ہے جو اپنی خوبصورتی کی مثال آپ ہے۔گلیشیئر سے گزرنا بعض جگہوں میں کٹھن ہے گلیشیئر کے درمیان پانی نہایت آب و تاب سے بہتا ہے ، انسان جب قدرت کی ایسی تخلیقات کو دیکھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے۔
گلیشیئر سے گزرنے کے بعد آبادی شروع ہوتی ہے ، لوگوں نے مٹی کے کچے گھر بنائے ہیں اور ان میں آباد ہیں ، یہاں چشمے کا صاف و شفاف پانی زور و شور سے بہہ رہا تھا ہم اس کے خالص پانی سے سیراب ہوئے ، ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی اور چیڑ کے درخت فراوان موجود تھے، کچھ بچے دنیا و مافیا سے بے خبر کرکٹ کھیلنے میں مصروف تھے ، ایک طرف ندی کا صاف و شفاف نیلگوں پانی خوبصورتی سے بہہ رہا تھا۔بقول اقبال:
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو۔
ہوا قدرتی عطر سے معطر تھی اور موسم بھی بہت خوشگوار تھا۔بلندی سے گرنے والے آبشاروں میں پانی موتیوں کی صورت میں چمک رہا تھا چاروں طرف موجود برف سے ڈھکے کوہسار وادی کی خوبصورتی میں اور بھی چار چاند لگا رہے تھے۔کہساروں کی بلندی ، سبزت کی ہریالی م جنگلوں کی خوبصورتی اور پانی کی تیزی اور روانی سے خدا کی قدرت چھلکتی تھی۔یہ خوبصورتی انسان کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اگر یہ مخلوقات اتنی حسین و زیبا ہیں تو ان کا خالق کتنا حسین ہوگا لیکن افسوس انسان خالق سے غافل ہو کر صرف مخلوقات میں ہی کھو کر رہ جاتا ہے ۔ حق تو یہ بنتا ہے کہ انسان ان آیات الہٰی کے مشاہدے سے تسلیم و رضا کے مرحلے پر پہنچ جائے اور دل ہی دل میں رب کے سامنے سجدہ ریز ہو۔
انہی احساسات اور اس خوبصورت ہوا سے اپنے وجود کو تازگی بخشتے ہوئے ہم آگے بڑھ رہے تھے اس خوبصورت سبزے سے گزرتے ہوئے اور بلند و بالا کوہساروں کے حسار میں آگے کی جانب رواں تھے۔
شاعر مشرق علامہ اقبال کے بقول:
ہو ہاتھ کا سرہانہ سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت خلوت میں وہ ادا ہو
ہو دلفریب ایسا کوہسار کا نظارہ
پانی بھی موج بن کر اٹھ اٹھ کے دیکھتا ہو
پانی کو چھو رہی ہو جھک جھک کے گل کی ٹہنی
جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو۔
ان خوبصورت نظاروں سے ہوتے ہوئے ہم جھیل تک پہنچے جو کسی بھی صورت کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ ہرے بھرے میدانوں اور ٹیلوں کے درمیان وسیع رقبے پر محیط جھیل کی کوئی نظیر نہیں تھی ۔ پانی اس قدر صاف و شفاف اور ساکت تھا کہ آسمان بھی اس کی خوبصورتی میں گویا تھا اور پانی کو اپنے رنگ میں رنگ رہا تھا ۔ اپنی منزل پر پہنچ کے ہم نے توقف کیا اور جی بھر اس نظارے سے لطف اندوز ہوئے۔ بہر حال اس بات کا اعتراف کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ اس وادی کی خوبصورتی کو الفاظ میں سمانا ایسے ہے جیسے سمندر کو کوزے میں بند کرنا۔