ایک انتہا پسند نعرہ، میرا جسم میری مرضی
تحریر : فدا حسین
تاریخی طور پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کو ان کے حقوق کی عدم فراہمی اور ان کی تذلیل اور ان پر تشدد نوع انسانی کا ایسا مشغلہ ہے جس سے ہمیشہ انسانیت شرمسار رہی ہے اسلامی تاریخ کے مطابق خواتین پر تشدد اسلام کی تاریخ سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ عربوں میں کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہو جائے تو اسے زندہ درگور کرنے کو اتنا شرف قبولیت مل چکا تھا کہ بیٹی کی پیدائش کو ہی باعث شرم تصور کرتے ہوئے اسے زندہ درگور کیا جاتا تھا جسے ہمارے آقا و مولا نے جس طرح ختم کرایا تاریخ اس طرح کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ رحمت اللعالمین صل اللہ علیہ الہ وسلم نے ایک ایسے وقت میں اپنی بیٹی کے لئے کھڑئے ہو کر عزت و تکریم دی جب دنیا انسانی حقوق کے نام سے ہی نابلد تھی مزید یہ کہ اسلام نے محض احترام دینے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ جائداد میں انہیں حصہ مختص کرکے یہ ثابت کر دیا کہ اسلام محض عزت دینے کا روا دار نہیں بلکہ مکمل طور پر ان کے تمام حقوق کی حفاظت کی ضمانت بھی دیتا ہے۔ تاہم جدید تہذیب یافتہ ہونے کے دعویدارؤں نے خواتین پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کاآغاز 1909میں کیا۔ اب تو ہر سال آٹھ مارچ کو دنیا کے اکثر ممالک میں خواتین اپنے حقوق اور آزادی کے لئے بینر اور پلے کارڈ اٹھائے احتجاج کرتی نظر آتی ہیں جس میں سے ایک پلے کارڈ پردرج نعرے کی تصویر” میرا جسم میری مرضی”نے ہمیں سوچنے اور لکھنے پر مجبور کر دیا کیونکہ ہمیں اس نعرے میں انتہا پسندی کوٹ کوٹ کر نظر آئی کیونکہ انتہا پسندی صرف کسی خاتون یا مرد سے زبردستی برقعہ کرانے یا داڑھی رکھوانے کام نام نہیں ہے بلکہ ہر وہ کام انتہا پسندی ہے جو حد سے گزر جائے ۔اسلامی نقطہ نگاہ سے مجھے میرے جسم سمیت ہر چیز پر محدود اختیارات ہی حاصل ہیں جس سے تجاوز کی باتین الگ موضوع بحث ہیں ۔ جسم میرا ہے مگر مجھے اسے نقصان پہنچانے کی اجازت دین نے نہیں دی ہے۔ جسم میرا ہے مگر میں خود کشی نہیں کر سکتا ، اور مجھے اپنے جسم کو مطلق برہنہ رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ آنکھیں میری ہیں مگر اس سے کسی نامحرم کو بلا وجہ دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ پاؤں میرا ہے مگر مجھے کسی کے گھر میں بلااجازت جانے کی اجازت نہیں ہے۔ ہاتھ میرا ہے مگر مجھے اس سے نہ ڈاکہ ڈالنے کی اجازت ہے نہ ہی کسی پر ظلم کے لئے اٹھانے کی اجازت ہے ۔اسی طرح اولاد میری ہے مگر میں ان کی جان نہیں لے سکتا ۔ بیوی میری ہے مگر اس کو بھی غیر ضروری طور پر پابندی عائد نہیں کر سکتا ۔ مال میرا ہے مگر مجھے اس پر ایک خاص حد سے گزر نے پر زکوةدینے کا پابند گیا ہے اس کے بعد بھی آمدنی ایک خاص حد تک رہ جائے تو حج ادا کرنا ہے پھر بھی کچھ بچ جاے تو بھی مجھے اس میں کسی تخریبی کام کے لئے تصرف کا اختیار حاصل نہیں ہے ۔اس لئے کسی بھی معاملے میں افراد تو تفریط سے اجتناب میں ہی انسانیت کی تکریم مضمر ہے ۔ اب ہمارئے لبرزم کے دعویدار حضرات خواتین کی نیم برہنہ ہونے کو تو خواتین کی آزادی قرار دیتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے میں کسی مرد کے شلوار کا ناڈا نظر آئے تو وہ اس بدتمیزی سے تشبیہ دیتے ہیں (حالانکہ انہیں پینٹ کے بیلٹ پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا ) اگرچہ اسلامی تعلیمات کی رو سے خواتین کا نیم براہنہ ہونا ہمیں ان کی طرف دیکھنا کا جواز فراہم نہیں کرتا بلکہ شائد ایسے ہی موقعوں کیلئے ہی آنکھیں نیچی کرنے کا حکم صادر ہوا ہے مگر انسانی جبلت میں نفسانی خصلتیں شامل ہونے کی وجہ سے ایسی خواتین کی طرف نگاہیں (ضرور) جاتی ہیں اور ایسے موقع پر ہی بچنے کا نام تقویٰ ہے ورنہ عام طور پر نہ تو خاتون کو دیکھنا گناہ ہے اور نہ ہی نہ دیکھنا ممکن ۔یہاں یہ ضاحت ضروری ہے کہ اس کالم کا مقصد متقی و پرہیز گار ی کا دعویٰ کرنا ہرگز نہیں( کیونکہ معاشرے کا حصہ ہونے کی وجہ سے ہم سے بھی اس طرح کے گناہوں کا ارتکاب ہوئے بغیر نہیں رہتا ) بلکہ محض اس بیانئے کوچیلنج کرنا ہے ۔جب اس پہلو پر بات کرتے ہیںتو یہاں وہ خواتین و حضرات اس معاملے کو امریکہ سمیت مغربی معاشرے سے موازنہ کرتے نظر آتے ہیں جبکہ ہماری نگاہ میں یہ موازنہ زیاتی ہے۔ کیونکہ ان کے اور ہمارے معاشرتی اقدار الگ الگ ہیں مغرب میں شاید ایک خاتون اور مردکا عوامی اجتماع یہاں تک کہ ماں باپ، بہن بھائیوں کے سامنے بوس وکنار کوئی معنی نہیں رکھتا یہاں تک اس کے لئے میاں بیوی ہونا بھی کوئی شرط نہیں ہے مگر ہمارئے معاشرے میں میاں بیوی کوبھی لب رخسار کی باتین کرنے کیلئے خلوت کی تلاش ہوتی ہے۔مغرب میں شادی سے پہلے بچہ پیدا کرنا کوئی معیوب نہیں ہے مگر ہمارئے معاشرئے میں اس قسم کی حرکتوں کوگناہ کبیر ہ تصور کیا جاتا ہے اس معاملے میں اگر میں غلط نہیں ہوں تو مسلم اور غیر مسلم کی بھی کوئی قید نہیں ہے اس لئے ہمیںاپنے اقدار پر فخر ہونا چاہیے، اور ساتھ ہی مغرب کی علمی اور ٹکنالوجی کے میدان میں ترقی کو مدنظر ہوئے ان کی ہر اچھی باتوں کو اپنانا چاہیے جس میں ان کی راست گوئی کو نمایان مقام حاصل ہے (یہ اکثر لوگوں کی بات ہے مگر جو دھوکہ دیتے ہیں اس سے سچ کو پیار آئے بغیر نہیں رہ سکتا )لہذا "میرا جسم میری مرضی "کا نعرہ عورتوں کو زندہ دگور کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے اندار "یہ ہماری قبائلی روایات ہیں اسے زیادہ نہ چھڑا جائے” جیسے احکامات کی ستائی ہوئی کسی عورت کی خواہش تو ہو سکتی ہے مگر اس کے کوکھ سے کسی خیر کی جنم لینے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ کیونکہ یہ نعرہ مادو پدر آزاد معاشرے کا تصور پیش کرتا ہے جس میں عورت کو نہ صرف اپنی مرضی کا لباس زیب تن کرنے کی آزادی ہو بلکہ اسے کسی بھی وقت گھر سے نکلنے اور گھر آنے پر کوئی پوچھنے والا نہ ہو، اس کی مرضی جس آدمی کے ساتھ وہ چاہیے رہے ۔ہمارے معاشرے میں اس طرح کی آزادی عورت کو کیا مرد کو بھی نہیں دی جاسکتی ہاں اگر بات خواتین کو کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخلے لینے ، کسی بھی قسم کا روزگار یا پیشے کا انتخاب کرنے، اپنی پسند کے مطابق شادی کرنے کے حق کے حوالے سے بات ہو تو ضرور اس حمایت کرنی چاہے مگر خاکم بدہن یہ نعرہ اس طرف اشارہ کرتا ہوا نظر نہیں آتا تو لہذا پر عمل ہونے کی صورت صورتحال وہی ہوگا جو تیونس میں آنے والے ” عرب بہار ” کے بعد ہوا۔ اس لئے راقم کے نزدیک اس کا متبادل نعرہ "میرا جسم لذت کیلئے نہیں ” ہو سکتا ہے ۔اگرچہ خواتین کو ہراسان کرنا صرف پاکستان کو مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ دنیا کا انتظار کرتے ہوئے کوئی فنڈ ملے تب ہی خواتین پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤ ورنہ خاموش رہو۔ اس لئے ” میرا جسم میری مرضی "جیسے بے معنی نعروں پر وقت ضائع کرنے کے بجائے پاکستانی معاشرے میں خواتین کے حوالے سے پائی جانے والی قبیح تریں رسمیں جیسے ونی ، قرآن سے شادی ، جہیز ، خواتین کو واثت سے محروم رکھنا اور پتہ نہیں کیا کیا قبیح رسومات ہیں جن کے خلاف آواز اٹھایا جائے تو صرف خواتین کی حالت میں پہتری پیدا ہوگی بلکہ اس سے پورے معاشرئے کا اصلاح ہوگا ۔