کھرفوچو
اشرف حسین اشرفؔ
سکردو میں واقع قلعوں کا راجہ یعنی کھرفوچو اپنی مثال آپ ہے۔اس تاریخی قلعے کو مقپون خاندان کے نامور راجہ بوخا مقپون نے بنوایا تھا۔ اسی راجہ نے سکردو شہر بھی آباد کیا تھا‘ یوں قلعہ کھرفوچو اور سکردو ہم عمر وہم عصر ہیں۔سکردو شہر پھیلتا پھیلتا بہت دور نکل گیا ہے جبکہ کھرفوچو عدم توجہی کا غم سینے سے لگائے اپنے ہی ڈھیر میں گم ہوتا جارہا ہے۔
شروع میں اس قلعے کو کھر پوچھے کہا جاتا تھا‘دھیرے دھیرے کثرتِ استعمال سے کھرپوچو کہا جانے لگا۔ چند مورخین نے اسے کھرفوچو بھی لکھا ہے۔ آج کل اس کے صدر دروازے کے ساتھ والی دیوار پہ انگریزی حروف میں لکھا’’ KHARPHOCHO ‘‘ دور ہی سے نظر آتا ہے ۔
بوخامقپون کے بعد کے حکمرانوں نے بھی عصری ضروریا ت اور اپنے مزاج کے مطابق اس کو وسعت دی اور اسے مضبوط سے مضبوط تر بنایا۔کسی زمانے میں یہ قلعہ ناقابلِ تسخیر تھا۔ کھرفوچو نے بہت سے حملہ آوروں کو نامراد واپس جانے پر مجبور کیا۔ علی شیر خان انچن کے دور میں اس قلعے کو بہت زیادہ توسیع دی گئی۔قلعے کے درمیان ایک سات منزلہ محل تعمیر کیا گیا۔ اس محل کے سامنے پانی کا حوض تھا جو ہمیشہ لبالب بھرا رہتا تھا ۔ خوراک ذخیرہ کرنے اور اسلحہ رکھنے کے لئے پہاڑ کاٹ کر کمرے بنائے گئے تھے۔ ایک عالیشان مسجد‘ سپاہیوں کے رہنے کے لیے بیرکیں اور زندان بھی یہاں موجود تھا۔ قلعے کی حفاظت کے لیے مختلف مقامات پہ حفاظی چوکیوں‘ برجیوں اور مورچوں کا اعلیٰ انتظام موجود تھا۔ مورچوں اور چوکیوں پہ مسلح پہرہ دار اُس زمانے کے جدید ہتھیاروں سے لیس ہمہ وقت پہرے پہ مامور رہتے تھے۔
کھرفوچو کا صدر دروازہ سنگے ستاغو کہلاتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس پہ شیر کی تصویر کندہ تھی۔ جب دروازہ بند ہوتا تو یہ شہر بہت ہیبت ناک دکھائی دیتا تھا۔یہ دروازہ بہت مضبوط تھا۔ یہاں حفاظت کے دیگرخاطر خواہ انتظامات بھی موجود تھے۔ کھرفوچو تک آنے کا باقاعدہ راستہ موجود نہیں تھا‘ مقامی روایات کے مطابق زیرِ زمیں سرنگوں کے ذریعے قلعے تک آمد و رفت ہوتی تھی۔
جب علی شیر خان انچن گلگت تا چترال کی مہم پہ گیا ہوا تھا تو اس مدت میں اس کی مغل ملکہ’’ گل خاتون‘‘ نے کھرپوچو کا راستہ بنوایا۔اپنی رہائش کے لیے کھرپوچو کے دامن میں دریائے سندھ کے کنارے ایک خوبصورت محل تعمیر کیا۔ مقامی لوگوں نے ملکہ کے نام ’’میندوق رگیالمو ‘‘یعنی گل خاتون یا پھول ملکہ کی نسبت سے اسے میندوق کھر(پھول محل )کا نام دیا۔ اس محل کی پانچ منزلیں تھیں۔ اس میں چوبی کام دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا جبکہ مختلف اقسام کے سنگِ مرمر کا استعمال اس قرینے سے کیا گیا تھا کہ دیکھنے والے حیرت میں مبتلا ہوجاتے تھے۔ اس محل کے سامنے موجود باغ اپنی ہیئت کی وجہ سے ہلال باغ کہلاتا تھا۔ملکہ نے اس باغ تک پانی پہنچانے کے لیے گنگوپی نہر بنوائی جو اپنی جگہ فنِ تعمیرات کا حیرت انگیز نمونہ ہے۔
کھرفوچو کے شمال میں نانگمہ ژھر کے نام کا ایک بڑا باغ تھا جو ننگ ژھوق تک پھیلا ہوا تھا۔ جنوب مغرب میں ایک باغ رگیہ ژھر نام کا تھا۔ گنگوپی نہر کے اُس پار غورو ژھر یعنی پتھروں والا باغ موجود تھا۔ کرفوپی ٹوق یا کرٹوق سے سٹیلائٹ ٹاون تک ایک بڑا باغ چہار باغ کے نام سے مشہور تھا۔ان باغات میں انواع و اقسام کے پھلدار و غیرپھلدار درخت ‘طرح طرح اور رنگ برنگ کے خوشبو بکھیرتے پھول دیکھنے والے کو مسحور کردیتے تھے۔یہاں بڑے سلیقے سے روشیں ‘ تالاب‘حوض اور فوارے بنائے گئے تھے‘ جنہیں دیکھنے والے کا جی خوش ہوجاتا تھا۔
عروج و زوال ہر شے کا مقدر ہے۔ مختلف وجوہات کی وجہ سے یہاں کے خوبصورت باغات کوبھی اجڑنے میں دیر نہیں لگی۔محل ویران ہوگئے۔ کھرپوچوبھی لامحالہ ان تبدیلیوں سے متاثر ہوتا رہا۔رہی سہی کسر 1840ء میں ڈوگروں کی آمد اور ان کے ظلم و ستم نے پوری کردی۔اس قلعے نے ڈوگروں کو کئی ماہ تک روکے رکھا لیکن سازش کے ذریعے اس پر قبضہ کیا گیا۔قلعے میں گھمسان کی جنگ ہوئی ‘ خون کے دریا بہائے گئے۔ انسانیت روتی‘ چیختی اور لرزتی رہی جبکہ درندگی اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ انسانوں کا خون بہاتی اور قہقہے لگاتی رہی۔ لہو سے زمیں کو گل رنگ کرنے کے بعد کھرفوچو قلعے کو آگ لگا دی گئی ۔ برسوں کی مشقت کے بعد بننے والی عظیم عمارت سے اٹھنے والے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگے۔
کھرفوچو ایک سو آٹھ سالوں تک ڈوگرہ افواج کے زیرِ استعمال رہا۔ انہوں نے اپنی ضرورت کے مطابق اس کو دوبارہ تعمیر کیا اور تبدیلیاں کیں۔ 1948ء میں آزادی کا جذبہ مقامی لوگوں کی رگوں میں خون بن کر دوڑا تو انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں مضبو ط اور جدید ہتھیاروں سے لیس ڈوگرہ افواج کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔آزادی کی یہ جنگ کھرفوچو کے دامن میں لڑی گئی۔
قلعہ کھرفوچو سکردو کی پہچان ہے۔ یہاں کے لوگ بھی اس سے بہت پیار کرتے ہیں اور اس کے کھنڈرات میں اپنے درخشاں ماضی کی بکھری تصویروں کو تصور کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ۔ اس قلعے کے چاہنے والوں کے لیے اس کا ہر ذرہ محترم اور معتبر ہے۔یہاں سے سکردو کا نظارا ناقابلِ بیان حد تک خوبصورت ہے۔دیکھنے والا مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔میں بھی دیر تک اس حیرت کدے کے کھنڈرات پہ بیٹھا ماضی کی خاک کریدتا رہا۔
واپسی پہ میرے قدم خود بخودکھرفوچو کے دامن میں واقع بلتستان کے تاج محل ’’میندوق کھر ‘‘ کی طرف اٹھتے چلے گئے۔ وہاں بھی ویرانیاں پر پھیلائے بیٹھی تھیں۔ میں تھکا ہارا تھا۔ محل کے اجڑے فرش پرگری ہوئی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر نیم دراز ہوگیا۔ سردیوں کی مہربان دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے سر اٹھا کر کھرفوچو قلعے کی طرف دیکھا۔ کھرپوچو کسی کے سر پہ رکھے تاج کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔ ’’ کھرفوچو تو اہلِ سکردو کے سروں کا تاج ہے‘‘ اس مصرعے کی آمد کیا ہوئی ‘ جذبات و احسات کو گویا زبان مل گئی۔ میں نے کاغذ قلم سنبھال لیا اور اپنے جذبات اور دردِ دل کو نظم کی لڑی میں پرونے لگا۔ زیرِنظراشعار اسی کھنڈر پہ بیٹھے بیٹھے خامہ فرسائی کا نتیجہ ہیں۔
کھرفوچو
کھرفوچو تو اہلِ سکردو کے سروں کا تاج ہے
تیری عظمت نے رکھی اس انجمن کی لاج ہے
گو بظاہر ہر طرف ویرانیوں کا راج ہے
حسن تیرا کب کسی تعریف کا محتا ج ہے
جس کسی کو بھی تری تاریخ کا ادراک ہے
معتبر اس کے لیے تیرے بدن کی خاک ہے
تیرے قدموں سے لپٹ کر شیر دریا ہے رواں
چھو کے تجھ کو پانی کے قطروں میں آجاتی ہے جاں
موج ساحل کو سناتی ہے تمھاری داستاں
عکس کے کانوں سے سنتا ہے یہ سب کچھ آسماں
ایک عالم ہی تیرا دیوان�ۂ دیدار ہے
تیرے خستہ بام و در سے بھی سبھی کو پیار ہے
داستاں اپنی سنا کس نے بنایا تھا تجھے؟
کو ہ کا سر کاٹ کر دل میں بسایا تھا تجھے؟
خاک سے بادل کی سرحد تک اٹھایا تھا تجھے؟
برجیوں اور چوکیوں سے بھی سجایا تھا تجھے؟
سچ کہا وہ تھا بوخا مقپونِ عالی مرتبت
جس کو لکھا ہے مورخ نے کہ تھا ضیغم صفت
دیکھنے کو ہے فنِ تعمیر کا شہکار تو
کوہ کے سر پہ رکھی تہذیت کی دستا ر تو
تھا ہمیشہ ہی رسائی کے لیے دشوار تو
کیا جواب اس کا بھی اب دینے کو ہے تیار تو
پاس ہر مزدو ر کے کیا تیشہ فرہاد تھا؟
سنگ شکنی کا سبق بھی کیا سبھی کو یاد تھا؟
منزلیں کتنی تھیں تیری کتنے تیرے تھے مکیں؟
کیا سرنگیں بھی کبھی موجود تھیں زیرِ زمیں؟
تو تھا یوں مضبوط جیسے چین میں دیوار چیں
تیرے جیسا کوئی قلعہ پورے تبت میں نہیں
مدتوں تو نے رکھا تھا اہلِ سکردو کا بھرم
آج بھی محسوس ہوتا ہے ترا جاہ و حشم
تیرا دروازہ جسے کہتے تھے سب سنگے ستاغو
کاریگر نے یوں منقش کردیا تھا شیر کو
اجنبی آتے تو اپنے آپ سے کہتے تھے وہ
شیر منہ کھولے کھڑا ہے‘ دیکھ مت آگے بڑھو
آج وہ در ہے نہ دہشت کا کوئی سامان ہے
میری صورت سارا منظر بھی بہت حیران ہے
تیرے دامن میں کبھی باغات کی بہتات تھی
ہر طرح کے پھول کلیوں کی جہاں بارات تھی
پھول ملکہ کے محل کی بھی الگی ہی بات تھی
جس کے ہر چپے پہ رنگ و نور کی برسات تھی
اب وہاں نہ باغ ہے‘ نہ رنگ ہے ‘ نہ نور ہے
پھول ملکہ کا محل بربادیوں سے چور ہے
کس نے کب کیسے کیا اس شہر کو زیر و زبر
اس کی خاطر کام آئے کتنے دیوانوں کے سر
ناچتی غربت تھی یا رقصاں یہاں تھے مال و زر
کیا تھی پابندی کبھی تقریر پر‘ تحریر پر
تجھ کو گویائی ملے تو سب بتائے گا ہمیں
داستاں کیا شہرِ سکردو کی سنائے گا ہمیں؟
تیری نظروں میں رہا مقپونوں کا جاہ و حشم
تو نے دیکھے ڈوگروں کے بھی یہاں جمتے قدم
سامنے تیرے ہوئے آزادی کے قصے رقم
پیش تیرے شہرِ سکردو ہے مثالِ جامِ جم
تو بتا اس دیس میں اب کیا سے کیا ہوجائے گا
ورنہ اورں کی طرح اشرفؔ خفا ہوجائے گا