ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال
تحریر :ڈاکٹر محمد حکیم
آج کل سوشل میڈیا عام ہونے کی وجہ سے ہم بہت سے کشمکش کے شکا ر ہوچکے ہیں۔کیونکہ بغیر معلومات اور قابل قبول شواہد کے ہم بلا تحقیق اپنی طرف سے بعض کاموں اور چیزوں کو جائز اور نا جائز قرار دینے کا ٹھیکا لیا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں بجا ئے استحکام کے غیر مظبوط اور بیمار معاشرہ تشکیل پارہا ہے جس کا تما م تر ذمہ داری معاشرے میں اُن اعلی تعلیم یافتہ افراد پر عائد ہو تی ہے جو کہ کچھ لکھنا تو جانتے ہیں لیکن حقائق اور صداقت سے کوسوں دور رہ کر کسی ادارے اور ذمہ دار افراد کے خلاف انگشت نمائی کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے لوگو ں کے اندر مختلف اداروں اور ہنر مند افراد کے خلاف نفرتیں پر ورش پاتی ہیں یہ مسائل کا حل نہیں ہے اور نہ اس سے اداروں کے اندر پا یہ دار تبدیلی آتی ہے بلکہ ادارے کمزور اور ہنر مند افراد مایوس ہوجا تے ہیں ۔
اسی طرح کی ایک مثال ڈی ایچ کیو ہسپتال چترا ل کی ہے کہ اس ادارے کے اندر مختلف زیلی شاخیں مثلاََ لیبارٹری ،ڈینٹل یونٹ ،سرجری یونٹ ،میڈیکل وارڈ ،ای این ٹی یونٹ اور خاص کر کے سی سی یو موجود ہیں اس ادارے میں یہ زیلی شاخیں اپنے محدود اسٹاف ، وسائل اور محدود سہولیات سے عوام کی دن رات خدمت کرنے میں محوہیں ۔یہ ادارہ علاقے کے پانچ لاکھ آبادی کو احاطہ کیا ہوا ہے پانچ لاکھ کی کثیر آبادی کے لئے اس ہسپتال میں ڈاکٹر سلیمہ حسن کے ریٹائر منٹ کے بعد کوئی گائنا کالوجسٹ موجود نہیں ہے اور چلڈرن یونٹ میں ایک چلڈرن اسپشلیسٹ اور صرف دو ایس ایم اوز اور دو ایم اوز بے شمار مریضوں کی علاج معالجے کے لئے انتہائی نہ کافی ہیں اسی طرح دوسرے یونٹوں مثلا سرجری یونٹ میں پانچ لاکھ کی آبادی کے لئے ایک سرجن کا ہونا نہ ہونے کے برابر ہے اسی لئے ہمارے عوام کو بھی اسی تناظر میں سوچنا چاہیے کہ اتنا بڑا ادارہ جو کہ ناگزیز حالات میں قوم کو جو خدمات سرانجام دے رہا ہے یقیناًقابل ستائش ہے۔
ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ ہسپتال میں صفائی نہ ہونے کا گلہ شکو ہ کرتے ہیں لیکن درحقیقت اُن کو خود کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ مریض کے ساتھ آئے ہوئے دس ، پندرہ حضرات وہی واش روم یا ٹائلیٹ استعمال کر تے ہیں جو کہ صرف مریضوں کے لئے مخصوص ہوتا ہے اور یوں جاتے جاتے رُوئی کے ٹکڑے اور کوڑا کرکٹ بھی اُسی ہی کموٹ میں ڈالے جاتے ہیں جسکی وجہ سے آنے والے نئے مریضوں کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسی لئے صفائی کے کاموں میں ہسپتال کے سٹاف کے ساتھ ساتھ پبلک کو بھی اپنے حصے کا تعاؤں اتنا ہی درکا ر ہو تا ہے جتنا کہ ہسپتال میں کام کرنے والے ملازمین کا ہوتا ہے
یقیناََ یہ عمل قابل تعریف ہے کہ ان تمام محدود سہولیا ت کے ساتھ اور محدود ڈاکٹرز، اسپشلیسٹ اور ٹیکنیکل اسٹاف کو لے کر ڈی ایچ کیو ہسپتال چترالی قوم کی جودن رات خدمت کررہا ہے وہ صد بار تعریف کے لائق ہے ۔
میں بحیثیت محکمہ صحت کے ایک کار کن اپنے 24 سالہ تجربے کی بنیاد پر اپنے قوم کو ادارے اور قوم کے درمیان پائے جانے والے غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے اپنے سینئرز کی خدمات کے سہارے قوم کو آگاہ کرنا چا ہتا ہوں کہ دو مہینے کے دوران ایک شاہد کے طور پر خود بھی مجھے اس ادارے میں کام کرنے کا موقع ملا اور اپنے سینئرز کو کا م کرتے ہو ئے دیکھا میں قوم کے ساتھ وہی چیزیں شیئر کروں گا جو کہ میرے کا م کا حصہ بنا مثلاََ سی سی یو ،کیجویلٹی یعنی شعبہ حادثہ ہسپتال کا وہ ذیلی او راہم شاخ ہے جس میں ایمر جنسی بنیاد پر حادثے کے شکار ہونے والے اور بیماری کی شدید کیفیت میں آنے والے مریضوں کی ابتدائی علاج کی جاتی ہے پھر مختلف زیلی شاخون کو بھیجے جاتے ہیں جہاں اُن کا مزید علاج کیا جاتا ہے اسی شعبہ حادثات میں ڈاکٹروں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور ایک ڈاکٹر کو روزمرہ کے حساب سے جب 20 گھنٹے کی ڈیوٹی دی جاتی ہے تو اُس کو کسی بھی مریض یا اُس کے آٹنڈنٹ کو گلہ شکوہ کرنے کا کبھی خیال نہیں آیا لیکن اپنے محدود وسائل اور سہولیات سے بیماروں کی خدمت کر تا رہا میرے خیا ل میں یہی مثال ہی کافی ہے اقل سلیم والے حضرات کے سمجھنے کے لئے ۔
عوام کو سمجھنا چاہیے کہ کوئی ڈاکٹر کبھی سنگ دل نہیں ہوتا لیکن محدود وسائل اور وقت کی کمی بیمار کی علاج معالجے میں رُکا وٹ پید اکر کے ڈاکٹرز اور عوم کے درمیان نفرت پید ا کرنے کے سبب بن جاتے ہیں جس کا عوام کو ادرک ہونا چاہیے ۔
ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال وہ ادارہ ہے جو کہ جتنے بھی ادارے ہیں سب سے منفرد اور فعال خدمات پہنچانے والا ادارہ ہے اس کی نظیر کسی اور ادارے میں نہیں ملتی ۔یہ قومیت اور شخصیت پسندی سے بالا تر ہو کر سب کی ایک ہی معیار پر خدمت کر رہا ہے چونکہ آج کل ایک نئے ایم ایس جو کہ چترا ل کا باشندہ بھی نہیں ہے اور اسٹاف کے ساتھ اُس کا کوئی خونی یا کسی خاص قسم کا دور کا بھی رشتہ نہیں ہے وہ کسی کے ساتھ ذاتی بعض یا محبت نہیں رکھتا بلکہ اُس کی محبت اور غصہ سب کے لئے یکساں ہے پھر وہ چترالی نہ ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اُس کے باتوں پر عمل کرتا ہے اور وہ اسٹاف کے ذاتی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرتا ہے جس کی وجہ سے ایک مساوی اور ہموار نظام ہسپتال کے اندر قائم ہے ایم ایس صاحب ادارے کے اندر ہونے والے کاموں کا خود بر وقت جائزہ لیتا ہے اور بر وقت سزا اور جزا اسٹاف میں دینے کا حکم دیتے ہیں ۔
کوئی ادارہ اُس وقت تک قوم کو اُ ن کے خواہشات کے مطابق خدمات پہنچا نہیں سکتا جب تک اُس ادارے اور اُس ماحول میں رہنے والے لوگوں کی معاونت اور محبت شامل نہ ہو پھر کسی بھی ادارے میں اُس وقت تک تما م سروسز کامیاب طریقے سے پہنچ نہیں سکتی جب تک اُس ادارے کے اندر بیماروں کے علاج و معالجے کے تما م وسائل وسہولیات فراہم نہ ہو ۔
مجھے ایڈ منسٹریشن سے بھی گذارش ہے کہ وہ شکایت و گلہ سے اور حقائق سے بے خبر ہو کر کسی کو اہل اور کسی کو نہ اہل قراردینے کی بجائے ادارے کی بہترین کار کردگی کو مدنظر رکھ کر خامیوں کے ازالے کے لئے مربوط اور مناسب لائحہ عمل اختیار کرکے ادارے کے ترقی کے لئے اور عوام کو بہترین سہولیات پہنچانے کے لئے اپنے بہترین کار کردگی کامظاہر ہ کریں ۔
آخر میں مجھے عوام سے بھی مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ معمولی باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے درمیان نفرتیں پیدا کرنے سے گریز کریں اور ایک فعال ادارہ بنانے میں ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں ایم ایس کو اپنے ضروریات اور علاج معالجے کے سلسلے میں مشا ورت کرکے مختلف مسائل کا حل ایک بہترین اور اخلاق سے مزین قوم کی حیثیت سے حاصل کریں ۔
کچھ حقائق سے میں عوام کو آگا ہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ کچھ اس طرح سے ہے کہ بعض اوقات کچھ مریضون کی علاج جو کہ مختلف شعبوں سے وابسطہ ہے مثلاََ سرجری کے مریض ،سرجری کے یہ مریض کثرت تعداد کی وجہ سے یا ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے نمبروار آپریشن کئے جاتے ہیں اُس میں قوم کو ادارے اور خدمت گار ڈاکٹروں اور منسلک اہلکار کے خلاف بات کر کے ادارے کو بدنام کرنا کوئی حکمت والی بات نہیں ہے
بہر کیف آج کل جس طرح ہر قسم کے کاموں میں انسان جائز اور نا جائز کو بھول بیٹھا ہو اہے اسی طرح اس قوم کو کسی کے اچھائیاں کم نظر آتی ہیں یا آتی ہی نہیں بلکہ معمولی سی بھی غلطی بھی بڑی نظر آتی ہے ۔
مجھے میرے قوم سے آخری گذارش یہی ہے کہ وہ یہ بھی سمجھ جائیں کہ بیماروں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے آپ کو بہترین صحت کے سہولیا ت پہنچانے میں ادارے کاکوئی کمال نہیں ہے اور سہولیا ت کے کمی مریضوں کی ہسپتال بے وقت رسائی اور مریضوں کی تعد اد میں زیادتی کو ادارے کا ، میری ،آفسر بالا،متعلقہ کارکنان کی کوتاہی نہ سمجھنا ۔