گل وچ ہور اے
رشید ارشد
علامہ خادم رضوی سے لاکھ اختلاف کریں لیکن یہ اعتراف تو کرنا ہی پڑے گا کہ انہوں نے اردو ادب میں نئے جملوں کا اضافہ کیا ہے ،بالخصوص ان کے ان جملوں نے شہرت پائی ہے ،پین دی سری اور گل وچ ہور اے ،اب گل وچ ہور اے میں بہت ساری گلاں ہو سکتی ہیں ،گل وچ ہور اے ،کا محاورہ اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے ،اب اس جملے کو گلگت بلتستان کے تناظر میں دیکھیں تو بہت سے معنی نکلتے ہیں ، گلگت بلتستان میں بھی لگتا ہے گل وچ ہور اے ،مسلم لیگ ن کی حکومت کے تاریخ ساز ترقیاتی کام اور گلگت بلتستان میں امن کا قیام کچھ سیاسی یتیموں کو اس لئے ہضم نہیں ہو پا رہا کہ گل وچ ہور اے ،ان کاضمیر تو انہیں اندر سے ملامت کرتا ہے کہ سیاسی مخالفت تو اپنی جگہ لیکن اعتراف تو کرو کہ اس حکومت نے گلگت بلتستان میں ریکارڑ ترقیاتی کام کروائے ہیں امن قائم کیا ہے اور گلگت بلتستان کو شناخت دی ہے ،اب یہ سیاسی یتیم اگر ضمیر کی آواز سن کر سچ کا اظہار کرتے ہیں تو انہیں خوف ہے کہ ان کے سیاسی مفادات متاثر ہوں گے اور اگر اعتراف نہیں کرتے تو ان کو ضمیر روز کوستا ہے ،
روٹی کپڑا مکان کے نعرے میں تبدیلی آئی اور گلگت بلتستان میں حق ملکیت کا نعرہ بلند کیا گیا ہے ،گل وچ اے ہے کہ روٹی کپڑا مکان کا فریب تو عوام نے دیکھ لیا تو انہوں نے سوچا کہ نیا نعرہ تخلیق کیا جائے جس سے عوام ان پر دوبارہ اعتبار کریں تو ،حق ملکیت کا نعرہ بلند کر دیا گیا ،حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ بھی ایک فریب ہے ،پی پی کی سیاسی دوکان ایسے خالی ہوئی تھی جیسے پی ٹی آئی کی سیاسی دوکان سے اخلاقیات کا خاتمہ ہو چکا ہے ،اس لئے ،پی پی کی دوکان میں ،حق ملکیت کا سودا سجا لیا گیا ہے اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس سودے کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہوا ہے اس لئے سودے کو تازہ رکھنے کیلئے جیسے سبزی والا روز پانی کا چھڑکاؤ کر کے سبزی کو تازہ رکھتا ہے ایسے ہی ہمارے پی پی کے دوست اس سودے میں بھی تازگی بھرنے کیلئے روز اخباری بیانات کا چھڑکاؤ کرتے ہیں ،،حق ملکیت کے سودے کی طرف کوئی متوجہ نہ ہو تو کھبی کھبی پیپلز پارٹی کے نئے نویلے ممبر اسمبلی اپنی دو نشستوں کے ساتھ اسمبلی میں عدم اعتماد کی شرلی چھوڑ دیتے ہیں ،گل وچ ہور اے ،،،پی پی والے یہ بھی نہ کریں تو کیا کریں ،عوام نے انہیں کہیں کا چھوڑا تو بھی نہیں ،نوکریوں کی فروخت والے کاروبار کے پیسوں سے بس سیاسی شرلیاں اور کھبی کھبی کسی سیاسی یتیم کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر لاتے ہیں اور اس کے گلے میں ہار سجا کر تصویری سیشن کر کے بغلیں بجاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی میں لوگ شامل ہو رہے ہیں ،کاش اگر پی پی والے اپنے پانچ برس میں مسلم لیگ ن کی طرح کام کرتے اور نوکریاں فروخت کرنے کے بجائے گلگت بلتستان میں امن بحال کرتے تو آج نہ تو ،روٹی کپڑا اور مکان ،کے نعرے سے بیزاری کر کے ،نیا فریب ،حق ملکیت ،کا نعرہ تخلیق کر کے عوام کو بے قوف بنانے کی ضرورت پڑتی ،اور نہ ہی اخباری بیانات میں سیاسی شرلیاں چھوڑنے کی نوبت آتی ،خیر اتنا حق تو پیپلز پارٹی کے دوستوں کو دینا ہی پڑے گا کہ وقت گزاری کیلئے اخبارات میں سیاسی شرلیاں اور حق ملکیت کا ڈھنڈورہ پیٹیں ،ویسے ایک بات بتانی تھی کہ ہو سکتا ہے کہ کسی نے پیپلز پارٹی کو اطلاع نہیں دی ہو کہ اب وہ دور گزر گیا کہ جب بھٹو زندہ ہے اور ،روٹی کپڑا مکان کے نعروں کی گونج سے عوام متاثر ہوں ، اب عوام باشعور ہو چکے ہیں اور یہ شعور مسلم لیگ ن نے ترقی کا جال بچھا کر اور شورش زدہ گلگت بلتستان کو امن دے کر دیا ہے ،خیر بتانا تھا کہ گل وچ ہور اے ،گل اے ہے کہ سیاسی یتیم کسی بھی طرح مسلم لیگ ن کی کارکردگی کو عوام کے سامنے متاثر کرنا چاہتے ہیں اس کیلئے کھبی وزیر اعلی پر بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں تو کبھی مسلم لیگ ن کے ریکارڑ ترقیاتی کاموں سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے ،حق ملکیت کا نعرہ ،بلند کرتے ہیں ،حق ملکیت کا تصور عوام کو اگر کوئی جماعت دے رہی ہے تو وہ مسلم لیگ ن ہے جس نے گلگت بلتستان کی بنجر زمینوں کو آباد کر کے گلگت بلتستان کی سونا اگلتی زمینوں کو کار آمد بنانے کا آغاز کر دیا ہے ،گلگت بلتستان میں لینڈریفارم کا آغازکر دیا ہے ،اگر حق ملکیت کا اتنا ہی شوق پیپلز پارٹی کو تھا تو اپنے دور حکومت میں نوکریوں کی فروخت کے پرکشش کاروبار میں مصروف رہنے کے بجائے گلگت بلتستان کی بنجر زمینوں کو آباد کر کے عوام کو خوشحال بنانے کے لئے اقدامات کرتی تو شاید عوام کو ،حق ملکیت کے نعرے پر اعتبار آتا ،اب کچھ نہیں ہو سکتا ہے عوام سب جان چکے ہیں ،یہ نعرہ بھی ،روٹی کپڑا مکان ،کے نعرے کی طرح جھوٹ کا پلندہ ہے ،ان کی سیاسی دوکان کا تمام سودا گل سڑ گیا تھا یہ ایک آدہ سودا ،حق ملکیت کا سجایا ہے ،سنا ہے یہ بھی چین کے سوست بارڈر کے راستے آنے والے سودے کی طرح صرف چمکیلا ہے اور جیسے ہی استعمال میں لایا جائے تو اس کا حال بھی چائنا مال کی طرح ہوگا،اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ گل وچ ہور اے ،یہ سب شور صرف مسلم لیگ ن کی کارکردگی سے عوام کی توجہ ہٹانے کا ایک ناکام حربہ ہے ،یہ حربے اپ پرانے ہو چکے ہیں ،اس لئے بہتر یہی ہے کہ مسلم لیگ ن کی کارکردگی کا برملا اعتراف کریں اس طرح کرنے سے ان کے ضمیر کو تو سکون ملے گا ۔