کالمز

وزیر اعلی صاحب ایسے نہیں چلے

رشید ارشد

حفیظ الرحمان صاحب یہ آپ کیا کر رہے ہیں،آپ سے ہمیں یہ امید ہر گز نہیں تھی کہ آپ اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے ہی ہمارے ماضی اور حال پر حملہ آور ہوں گے۔ 1971سے ایک محکمہ پوری شان و شوکت سے کام کر رہا تھا، آپ نےآتے ہی سب سے پہلے محکمہ فسادات و فرقہ واریت ڈیولپمنٹ کو بند کر دیا، اس کے علاوہ محکمہ فروغ رشوت، اور محکمہ فروخت برائے نوکری پر حملہ آور ہوئے۔ کیا آپ کو اندازہ بھی ہے کہ یہ آپ نے کیا کر دیا۔ اتنے طویل عرصے سے بالخصوص محکمہ فسادات و فرقہ واریت ڈیولپمنٹ گلگت بلتستان کے بیروزگاروں کے لئے بیرونی ممالک سے بغیر آڈٹ کے امداد لا کر روزگار فراہم کر رہا تھا، یہ محکمہ ان لوگوں کو روزگارمہیا کر رہا تھا جنہیں کسی بھی حال میں کوئی سرکاری محکمہ روزگاردینے کیلئے تیار نہیں تھا۔ اس محکمہ سے ان لوگوں کا روزگار وابستہ تھا جن کے پاس انٹرنیشنل فرقہ واریت یونیورسٹی کی سند ہوتی تھی۔ اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلبا کے لئے اور کسی محکمہ میں روزگار کی گنجائش تو نہیں بس یہی ایک محکمہ تو تھا جس کو آپ نے مکمل طور پر بند کر دیا ۔ اس محکمے کو بند کرنے سے پہلے آپ کو کم سے کم اس بات کا تو ادراک ہونا چاہئے تھا کہ ہزاروں لو گ اس سے مستفید ہو رہے ہیں اور کتنے ہزار گھروں کے چولھے جلانے کے کام آتا ہے۔

حفیظ الرحمان صاحب آپ کے اقتدار میں آئے ہوئے کم سے کم ڈیڑھ برس تو گزر گئے ان ڈیڑھ برسوں میں کچھ لوگ آپ کی اتنی مخالفت کر رہے ہیں کہ ماضی میں کسی حکمران کی اتنی شدید مخالفت نہیں ہوئی تھی۔ میں انگشت بہ انداں تھا کہ آخر اتنی مخالفت کیوں ،آخر نتیجہ مل ہی گیا کہ قصور تو آپ کا ہی ہے، فیس بک میں جاتا تو وہاں آپ کی مخالفت ،اخبارات میں آپ کی مخالفت ،نجی محفلوں میں آپ نشانہ ،سوشل میڈیا کی ہر دوسری پوسٹ میں آپ کا ذکر ،آخر آپ قصور وار ہیں تو یہ طوفان اٹھ رہا ہے۔ حکومتوں کی پہلی ترجیح روزگار کی فراہمی ہوتی ہے لیکن آپ آتے ہی محکمہ فسادات ڈیو لپمنٹ پر ایسے حملہ آوار ہوئے جیسے تحریک انصاف والے کنٹینر پر چڑھ کر مسلم لیگ نون پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس محکمے سے کئی صحافی ،کئی علما ،کئی بیوروکریٹ،اور کئی اہم شخصیات کے علاوہ روڈ ماسٹرڈگری کے حامل لوگ وابستہ تھے۔ اس کے علاوہ معاشرہ جنہیں چرسی ،پوڈری،اور نشئی کہہ کر دھتکارتا ہے وہ بھی بڑی تعداد میں اس محکمے سے روزی کما رہے تھے۔ آپ نے ان سب کو بے روزگار کر دیا۔

اس اہم محکمے کو ختم کرنے کے بعد حفیظ الرحمان صاحب فرما رہے ہیں کہ ہم نے میرٹ کی بالادستی قائم کی ہے یہ عجیب منطق ہے کہ انٹرنیشنل فرقہ واریت یونیورسٹی کے سند یافتہ لوگوں کو بے روزگار کر کے فرما رہے ہیں کہ میرٹ قائم کر دیا ہے۔ کیا اب محکمہ فسادات ڈیولپمنٹ سے نکالے جانے والے لوگ سرکاری محکموں میں نوکری کریں ؟یہ تو ان کی توہین ہے اس قدر اعلی ڈگری کے حامل لوگ چند ٹکوں کے لئے کسی سرکاری محکمہ میں نوکری کریں ،لا کھوں اور کروڑوں میں تنخوا ہ اور مراعات حاصل کرنے والے یہ افراد اب چند ہزار کی نوکری کریں یہ تو ظلم کی انتہا ہے۔ محکمہ فسادات ڈیو لپمنٹ کو ختم کرنے سے صرف انٹرنیشنل فرقہ واریت یونیورسٹی کے سند یافتہ لوگ ہی توبے روزگار نہیں ہوئے بلکہ اس محکمہ کے ساتھ اور کئی شعبوں کے لوگ بھی تو وابستہ تھے ان کے چولہے بھی تو بند ہوئے ہیں، مثلا جن لوگوں کے پاس چند سال قبل تک کھانے کی روٹی نہیں تھی وہ اس محکمہ سے وابستہ ہو کر کروڑ پتی بن گئے تھے۔ لینڈ کروزر گاڑیاں اس محکمہ سے وابستہ تھیں جن سے لوگ روزگارر کما رہے تھے، اسلحہ سپلائی کے ٹھیکداروابستہ تھے ان کا کاروبار بھی ختم ہو گیا ۔سرکاری محکموں میں کئی بیورو کریٹس بھی تھے جن کے تمام تر مفادات اسی محکمہ سے وابستہ تھے ،سرکاری سطح پر محنت مزدوری (کرپشن ) کرکے اپنا گزارہ کرتے تھے جب بھی پکڑے جانے کا خوف ہوتا محکمہ فسادات و فرقہ واریت ہی انہیں محفوظ بناتا۔

اس کے علاوہ ،محکمہ فروغ رشوت ،اور محکمہ نوکری برائے فروخت سے بھی ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔ یہ دو محکمے بھی وزیر اعلی گلگت بلتستان کی ضد کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کیا سنہری دور تھا گزشتہ دور حکومت کا ،نہ میرٹ کا جھنجٹ تو نہ ڈگری کی قید چٹ رشوت تو پٹ نوکری۔ اب تو اللہ کی پناہ نہ رشوت تو نہ ڈگری کے بغیر نوکری حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گزشتہ دور کی طرح نوکریوں کی فروخت کے ٹھیکے دئے جاتے تو پانچویں پاس بھی سکیل 14میں ٹیچر لگتے۔ علاقے سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوتا، لیکن کیا کیا جائے وزیر اعلی حفیظ الرحمان پر میرٹ ،ایمانداری اورامن کا بھوت سوار ہوا ہے۔ امن امن کی رٹ لگا کر محکمہ فسادات و فرقہ واریت ڈیولپمنٹ کو بھی بند کر دیا۔ محکمہ فروغ برائے رشوت و محکمہ فروخت برائے نوکری پر بھی تالے لگا دئیے۔ مزید ظلم یہ کہ وزیر اعلی اپنی ضد سے ہٹنے کا نام نہیں لے رہے ہیں ایسے میں ان تین اہم محکموں سے مستفید ہونے والوں کا جمہوری اور آئینی حق ہے کہ وہ وزیر اعلی کی مخالفت کریں انہیں چاہئے کہ کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیں ۔

یہ کیا ظلم کہ وزیر اعلی خود بھی کرپشن نہیں کر رہے اور کسی کو کرنے بھی نہیں دے رہے۔ آپ کو اتنا ہی پارسائی کا شوق ہے تو اپنا شوق پورا کریں لیکن دوسروں کو تو کرپشن کرنے دیں، نوکریوں کی فروخت کے محکمے کو بحال کریں، امن امن کی رٹ چھوڑ دیں، امن ہوگا تو ان لوگوں کا کیا بنے گا جن کی روزی روٹی ہی فساد سے وابستہ تھی۔ جتنا جلدی ہو سکے محکمہ فسادات و فرقہ واریت ڈیولپمنٹ کو بحال کر یں۔1971سے بھر پور کارکردگی دکھانے والے محکمے کو آپ ختم کرنے کی جسارت نہ کریں۔ وزیر اعلی صاحب رحم کریں ان لوگوں پر جو 1971سے برسر روزگار تھے اب وہ کیا کریں گے۔۔۔۔۔وزیر اعلی صاحب ایسے نہیں چلے گا آپ کو اپنی پالیسیاں بدلنی ہوں گی

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button