ریڈیو کا المیہ
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق وفاقی حکومت جولائی 2018 ء سے ملک کے سرحدات سے ملحق علاقوں میں قائم 14ریڈیو سٹیشنوں کو بند کررہی ہے ان میں سکردو ، گلگت ، چترال ، ڈی آئی خان ، تربت وغیرہ کے براڈ کاسٹنگ ہاؤ س شامل ہیں یہ منصوبہ 2015ء سے بتدریج روبہ عمل آرہا ہے ریڈیو پاکستان کے انجینئرنگ کا شعبہ 2015ء میں بند کر دیا گیاٹرانسمیٹروں کی تبدیلی ، نئے اے ایم ٹرانسمیٹروں کی تنصیب ختم کردی گئی اور فیصلہ کیا گیاکہ جس ریڈیو سٹیشن کا ٹرانسمیٹر خراب ہوگااس کو بند کردیا جائے گا 2016ء میں ایک قدم آگے بڑھ کر ریکارڈنگ کا شعبہ بند کر کے صرف خبروں کی او بی ( OB ) تک محدود کر دیا گیامیوزک ، ڈرامہ اور دیگر پروگراموں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ ختم ہوا جنوری 2018ء میں پروگرام کا شعبہ بند کردیا گیا یہ وہ شعبہ تھا جس میں سعادت حسن منٹو ، احمد ندیم قاسمی ، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، حفیظ جالندھری ،فارغ نجاری اور ہزاروں دیگر ادیبوں ، براڈ کاسٹروں کو متعارف کرایا ریڈیو پاکستان کے زوال کا سبب یہ ہے کہ ریڈیوپروزیر اعظم کی تصویر نہیں آتی وفاقی حکومت ریڈیو کیلئے مختص فنڈ پرائیوٹ ٹیلی وژن پروگرام اور اینکر پرسن خریدنے پر لگارہی ہے 3کروڑ روپے میں مہینے کا پرائیوٹ پروگرام خریدا جاتا ہے50لاکھ روپے پر اینکر پرسن آتا ہے ریڈیو پاکستان کو بچانے کیلئے بیوروکریسی نے جودلائل دیئے وہ سب رد کردئیے گئے ہیں پہلی دلیل یہ تھی کہ ریڈیو پاکستان اب بھی ملک کے اندر 70فیصد آبادی کا ذریعہ ابلاغ ہے شہروں سے لیکر دیہات تک لوگوں کی اکثریت ریڈیو پرانحصار کرتی ہے دوسری دلیل یہ تھی کہ سرحد پار افغانستان اور بھارت میں بھی ریڈیو سُنا جاتا ہے تیسری دلیل یہ تھی کہ ریڈیو پاکستان کا نام ملک کے اندر اور پڑوسی ممالک میں پاکستان کی بقا اور سلامتی کی علامت ہے 1948ء اور 1965ء کی جنگوں میں ریڈیو پاکستان نے قوم کی ترجمانی کی 1971ء میں بھارت نے مکتی باہنی کو ریڈیو پاکستان کے مقابلے میں ایف ایم ٹرانسمیٹرمہیا کئے جو جنگلوں اورکشتیوں میں چھپائے جاتے تھے اور دشمن کے اعلانات نشر کرتے تھے کارگل کی لڑائی میں دشمن کے ایف ایم چینل پکڑے گئے ریڈیو پاکستان کے گلگت اور سکردو سٹیشنوں نے مثبت کردار ادا کیا سوات کے اندر 2007ء کی بغاوت میں بھارت نے ایف ایم ریڈیو سے کام لیا یہ ایف ایم ٹرانسمیٹر موٹر سائیکل میں نصب تھا جو کبھی مام ڈھیری ، کبھی خوازہ خیلہ ، کبھی شموزی، کبھی چکدرہ پہنچتا تھا ایک ٹرانسمیٹر پکڑا جاتا تو دوسرا ٹرانسمیٹرنمودار ہوتا تھا سوات کی بغاوت میں قیدیوں اور زخمیوں کے ہندو ہونے کی بھی ڈاکٹری تصدیق ہوئی ریڈیو نشریات کی اہمیت کو سوات کے باغیوں نے بار بار منظر عام پر لایا اس وقت افغانستان میں 27ممالک کی خفیہ ایجنسیاں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کررہی ہیں بھارت کے 12قونصل خانے اس کام میں مصروف ہیں آل انڈیا ریڈیو، وائس آف امریکہ ، ریڈیو کابل اور 43ایم ایف چینل پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلا رہے ہیں پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلارہے ہیں ان کا مقابلہ کر نے کے لئے ریڈیو پاکستان کو طاقتور اے ایم اور ایف ایم ٹرانسمیٹروں کی ضرورت ہے موجودہ ریڈیو سٹیشنوں کی تعداد میں اضافے کی ضرورت ہے نئے میوزک ریکارڈنگز کی ضرورت ہے پروگراموں کے شعبے کو مزید فعال اور منظم کرنے کی ضرورت ہے سرکاری حکام نے ایک اور دلیل یہ بھی دی تھی کہ ریڈیوپاکستان کا نام بھار ت اور دوسرے دشمنوں کو پسند نہیں وہ ریڈیو پاکستان سے خوف زدہ ہیں اسلئے ریڈیو پاکستان کو کمزور کرنے کے پیچھے دشمن کی سازش نظر آتی ہے مگر سیاسی قیادت نے کسی دلیل کے بغیر حکم صادر کیا ہے کہ اعلیٰ سطح پر ریڈیو پاکستان کے شعبہ پروگرام کو ختم کرنے اور 14ریڈیو سٹیشنوں کو بند کرنے کا فیصلہ ہوا ہے محب وطن حلقوں کے سامنے تین آپشن ہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اندر اس فیصلے کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیئے ، عدالت سے رجوع کرکے حکم امتناعی حاصل کر نا چاہیئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے درد مندانہ اپیل کرنی چاہیئے کہ ریاست کے مفاد میں ، سرحدی صورت حال کی حساسیت اور ملک کے اندر دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کی نزاکت کو سامنے رکھ کر وفاقی حکومت سے کہا جائے کہ ریڈیو پاکستان مسلح افواج کا ہراول دستہ ہے کشمیر اور سیالکوٹ سے لے کر قصور اور کھوکھرا پار تک شکیل احمد کی آواز اب بھی لوگوں کو یا د ہے چمن سے طورخم تک عبد اللہ جان مغموم المعروف مرچکئے ، شاپسند خان اور اور پائندہ خان کے پروگرام اب بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں وفاقی حکومت ریڈیو پاکستان کی آواز کو کمزور یا ختم کرنے سے باز رہے وفاقی حکومت کے پاس ریڈیو پاکستان کا شعبہ پروگرام ختم کرنے ، انجینئرنگ کے شعبے کو محدود کرنے اور 14ریڈیو سٹیشنوں کو بند کرنے کیلئے کوئی دلیل نہیں صرف ایک بات کہی جارہی ہے کہ اوپر سے حکم آیا ہے اور اس کا علاج COASکی فوری مداخلت ہے
ورنہ ریڈیو پاکستان کا المیہ پوری قوم کا المیہ بن جائے گا