دودھ نہیں ملنے والا
مجھے پینے کا شوق نہیں۔پیتا ہوں غم بھلانے کو۔اب یہ پینے سے انسان غم کیسے بھول جاتا ہے یہ تو اس شعر کا خالق ہی بتا سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ شاعر نے یہ شعر کس کیفیت میں لکھا ہے پینے سے پہلے یا پینے کے بعد۔ ۔ اس بارے راقم کچھ کہنے اور لکھنے سے قاصر ہے۔ اس لئے کہ یہ تو اس مالک اور رحیم ذات جسے اللہ کہتے ہیں کا کرم ہے کہ اس شغل سے بچا رکھا ہے۔ پینے اور پلانے والے معاملے کا جملہ جو صرف اور صرف اس نشے کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کو اسلام نے حرام کر دیا ہے۔اس تمہید سے یہ بھی نہ سمجھ لینا کہ میں حرام اور حلال بارے کوئی لیکچر تیار یا لکھنے لگا ہوں اور نہ ہی یہ بتانے لگا ہوں کہ شاعر کا غم کیا تھا ۔آیا اس کا غم پینے کے بعد مٹ بھی گیا کہ نہیں لیکن مجھے جو غم پچھلے چالیس برس سے کھائے جا رہا ہے اس کی شدت میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے ۔اور یہ ایک ایسا غم ہے جو پینے سے کم یا غلط نہیں ہو سکتا۔ اس کے علاج کے لئے انسان کا ہوش اور حواس میں رہنا بہت ہی ضروری ہے اور جس دن اس غم کو بھلانے کے لئے پینے کا اہتمام ہوا سمجھیں کہ دنیا اور اخرت دونوں خراب۔ کیا بتائیں جی۔ جی بی کا غم تو انیس سو چوہتر سے ہمارے جی لگا ہوا ہے۔اب دیکھے نا کیسے عجیب غم ہیں پاکستانی نہ ہونے کا غم، سٹیٹ سبجیکٹ رولز ختم ہونے کا غم ،وفاق کی زیادتیوں کا غم ،خطے کی متنازعگی کا غم،تعلیمی ،بنیادی سہولتوں کا فقدان او کمیابی کا غم تو کبھی پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی اور اس باعث خطے میں مختلف بیماریوں میں اضافے کا غم اور ساتھ میں دو نمبر اشیا اور دوائیوں کی بھرمار کا غم ۔ اگر غموں کی فہرست لکھنے بیٹھ جائوں تو نہ جانے کتنے قرطاس کی ضرورت پڑے۔بس اس پر اکتفا کرتے ہوئے آگے کی طرف بڑھتے ہیں ۔۔یہ تمام غم ایسے ہیں جو خطے میں موجود سب افراد کو لگنے چاہئے اور جس دن اس غم سے خطے کے پیر و جواں واقف ہونگے تو اس دن خطے میں دودھ کی نہریں بہہ جائینگی ۔دودھ ایک متوازن غذا اور اس کے اندر جو مٹھاس اور مزہ ہے اس سے سب ہی واقف ہیں اورگائے کا دودھ تو اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔رب کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری گائے بنائی۔اور یہ گائے اللہ نے انسان کے فائدے کے لئے بنائی ہے اور انسان دودھ حاصل کرنے کے لئے اچھی نسل کی گائیں پالتے ہیں ۔ایک زمانہ تھا کہ جی بی میں اچھی گائے رکھنے کا رواج تھا کیونکہ یہ گائے پورے خاندان کی کفالت کا باعث ہوتی تھی ۔وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں نے انفرادی گائے پالنے کے رواج کویکسر نہیں تو فیشن کے طور پر ہی بھلا دیا اور ملک پیک اور ٹیٹرا پیک پرمر مٹ گئے ۔ معاشی لحاظ سے ذرا ہٹ کر سیاسی گائے کی بات کی جائے تو یہاں بھی معاملہ ٹیٹرا پیک اور ملک پیک والا ہی لگتا ہے ۔کونسا دور سہانا تھا یا کونسا دور سب سے بُرا اس بارے وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا پر ایک بات طےہے کہ راجوں کے زمانے میں سو ملک راجہ کا دور امن و اشاتی کا دور کہلایا جاتا تھا۔اس کے بعد سے شائد کوئی ایسا دور آیا ہو ۔اب بھی ہمارے بڑے بزرگ یہی کہتے ہیں تین جیک سُو ملکئی راجی ہنا۔ یعنی اب کہاں سوُ ملک راجے کا دور ۔۔۔ ۔پہلے تو مقامی لیول پر سیاسی گائیں ہوتی تھیں جو اگر دودھ میں کمی یا دودھ خود ہی اپنے تھنوں سے پینے لگتی تو اس کا کڑا محاسبہ کیا جاتا تھا ۔قانون کی عملداری تھی سب ہی قانون کا پاس رکھتے تھے مگر دو ہزار نو میں ایک ایسی سیاسی گائے کی نسل کو متعارف کروایا گیا جس کے باعث مقامی سیاسی گائیں اپنی انفرادیت کھو بیٹھی۔ اور عوام جو پہلے خود پر بھروسہ کرتے ہوئے تھوڑا بہت دودھ حاصل کر رہے تھے۔ ان سیاسی گائوں کی بدولت اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔تفصیل اس کی بہت لمبی ہو جائیگی اس لئے اس بات کو یہی پر رکھتے ہوئے صرف اتنا کہنا چاہونگا کہ اب توانصاف کا حصول غریب کے لئے ممکن نہیں رہا۔بات چلی ہے سیاسی گائے کی تو ان سیاسی گائوں کی کئی نسلیں منظر عام پر آگئی ہیں اور یہ سب سیاسی گائیں عوام کا چارہ ہڑپ کر جاتی ہیں اور دودھ سارا رات کو خود پی جاتی ہیں صبح عوام جب دودھ دھونے جاتے ہیں تو جو تھوڑا بہت دودھ تھنوں میں باقی ہوتا ہے اسے بھی یہ سیاسی گائیں سانس بند کر کے چھپانے کی کوشش کرتی ہیں ایسے میں کچھ ہی افراد بالٹی میں دودھ کے چند قطرے دیکھ پاتے ہیں ۔ میرا مطلب آپ سمجھ گئے ہونگے کہ کس قسم کے لوگ یہ چند قطرے پانے میں کامیاب رہتے ہیں جی ہاں یہ ایسے اشخاص ہوتے ہیں جو بہترین خوشا آمدی چارہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں تاکہ بوقت ضرورت سیاسی گائے کے سامنے رکھ کر دودھ کے قطرے حاصل کئے جا سکیں ۔اس میں سابقہ اور موجودہ دور کا کوئی فرق روا نہیں رکھا جا سکتا ۔میرا غم یہ ہے کہ میں اس بات کا غم کھاتا ہوں کہ بجلی،تعلیم اور صحت کے بنیادی منصوبے ادھورے اور نا مکمل اور اس کے ساتھ سیاحت کی ترویج اور فروغ جس میں سڑکیں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور سیاحوں کے لئے سہولیات کا فقدان کیوں ہے؟ اور یہ سب کس بات کی نشاندہی کرتی ہیں ترقی کی یا تنزلی کی ۔ اور اوپر سے سیاحتی فروغ کے لئے ملک کے اندر نہیں بیرون ملک جرمنی ،فرانس ، چین میں سیاحت کے فروغ اور ترویج کے نام پرکانفرنسوں پر کروڑوں کا خرچہ سمجھ سے بالا تر لگتا ہے اب اگر کوئی اسے بے جا تنقید سمجھے یا اپنے سیاسی بتوں کی پوجا یا اس کی شان مین گستاخی خیال کرے تو ہم ایسی گستاخیاں کرتے ہی رہئنگے ۔۔۔کارگہ گلگت کا نزدیک ترین سیاحتی مقام ہے جہاں اس وقت گورنمنٹ کے سات سے زیادہ ہائیڈل پراجیکٹ اپنی پرانی مشینری کے ساتھ گلگت شہر کے لئے تھوڑی بہت روشنی مہیا کر رہے ہیں ۔ٹروٹ فش فارم اور کارگہ نالہ جو ٹروٹ فشنگ کا مرکز اور سب سے بڑی بات تاریخی مقام جہاں سے چینی سیاح فاہیان اور ہیون سانگ چوتھی صدی عیسوی میں مشہور کارگہ بدھا جو نپورہ شوٹی گائوں کے ٹیلے پر کندہ ہے نشاندہی کرتے ہوئے داریل پہنچے اور وہاں بدھ مت کی پرانی تہذیب و یونیورسٹی کے آثار کی نشاندہی کی ان چینی سیاحوں نے پیدل چین سے بدھ مت کے ان مقدس مقامات کا سفر کیا جو اب پاکستان، انڈیا ،بنگلہ دیش اور سری لنکا میں واقع ہیں ۔ اور ہمارا حال دیکھیں اکیسویں صدی دور میں غیر مقامی ایک طرف خود مقامی لوگوں کو مغل منار، کارگاہ بدھا، مندر باغ، نلتر جھیل کارگاہ جھیل اور ہلتر اور جوٹیال میں واقع جھیل کا پتہ نہیں ۔تو اس سے بڑا افسوس کا مقام اور کیا ہوگا ۔ کارگہ جیسے اہم سیاحتی مقام کے ساتھ ہر دور میں زیادتی ہوئی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت اس کی تاریخی اہمیت کی بنا پر نہیں تو کم از کم اپنے ہائیڈل پاور پراجیکٹس کی سو فیصد فعالی کے لئے بھی ایک بہترین سڑک تعمیر کر لتی جس کے باعث یہاں عوام ہوٹلز موٹلز اور سیاحت کے دیگر شعبے قائم کرتے ہوئے اپنے لئے روزگار کے مواقع پیدا کر لیتے۔ایک وہ چینی سیاح جنہوں نے چین سے پیدل سفر صرف اس لئے کیا کہ وہ چین میں بدھ مت کے بگڑتے ہوئے عقائد کو صحیح کریں اور یہاں یہ حال کہ کارگہ یا گلگت بلتستان کے دوسرے سیاحتی مقامات تک آسانی سے رسائی حاصل کرنے کے لئے سیاحوں کی بنیادی سہولتیں تو دور کی بات سڑکیں تعمیر کرنے میں ناکام ۔بات پھر وہی پہ آجاتی ہے کہ یہ سیاسی گائیں کبھی بھی عوام کے لئے دودھ نہیں دینگی ۔