بھوکے صحافی
تحریر: فہیم اختر
دو افراد آپس میں جھگڑ رہے تھے ۔ ایک بولا ’ایک کہے گا تو دس سنے گا‘۔دوسرا بولا ’ایک کہے گا تو سو سنے گا‘۔مولانا جلال الدین رومی وہاں موجود تھے انہوں نے دونوں کو مخاطب کرکے فرمایا ’بھائیوں!ہمیں ہزار کہ لو ، ایک نہ سنو گے ‘۔
وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے دورہ ہنزہ نگر کے پہلے روز نگر چھلت کے مقام پر اسلامی تحریک اور مسلم لیگ ن کا مشترکہ جلسہ ہوا۔ اسلامی تحریک کی جانب سے فرزندشیخ حیدر نجفی و نامزد امیدوار برائے حلقہ 4اسلامی تحریک شیخ باقر، اسلامی تحریک کے صوبائی رہنما و کاروباری شخصیت محمد علی قائد نے کی سٹیج سیکریٹری بھی اسلامی تحریک کا ہی رہنما تھا۔ مسلم لیگ ن کی جانب سے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن ، صوبائی وزیر اقبال حسن و نگر کے ضلعی رہنماؤں نے خطاب کیا سٹیج پر بڑی تعداد میں لیگی زمہ داران اور کوآرڈینیٹرز، مشیر و معاونین بھی موجود تھیں۔جلسہ کی کوریج کے لئے گلگت سے صحافیوں کو بلایا گیا تھا اور نگر کے مقامی صحافی بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ یہ نگر کا پہلا جلسہ تھا یہ منتظمین کی نااہلی تھی کہ صحافیوں کو کوریج کے لئے تپتی دھوپ میں رکھا گیا جلسہ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہا۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافی اپنی پیشہ ورانہ خدمات تپتی دھوپ میں بیٹھ کر سرانجام دیتے رہے۔ قدرت نے صحافیوں کے ساتھ اس سلوک کو برداشت نہیں کیا اس لئے وقفہ وقفہ سے ہواؤں کو چلنے کا حکم دیا ورنہ حبس کا عالم تھا ممکن ہے ۔جلسہ کے اختتام اسسٹنٹ کمشنر نے کوریج کے لئے آنے والے صحافیوں کو نگر کے روایات کے برعکس روکے رکھا ۔ گلگت بلتستان نیوز پیپرسوسائیٹی کے صدر اشرف عاشور سمیت دیگر صحافیوں نے احتجاج کرتے ہوئے باہر نکل آئے جہاں پر ڈپٹی ڈائریکٹر محکمہ اطلاعات فاروق احمد و دیگر نے معذرت کرکے دوبارہ لے گئے ، اسسٹنٹ کمشنر نے فاروق احمد کو بھی روک کر کارڈ دکھانے کو بولا ، اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ پروگرام کے انتظامات ن لیگ کے مقامی زمہ داروں نے کئے ہیں اور اس کے مطابق مہمانان خصوصی میں میرے پاس کسی صحافی کا نام نہیں ۔ اسسٹنٹ کمشنر پیشہ ورانہ مہارت کا اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب موقع پر ڈپٹی کمشنر نگر صحافیوں کے پاس آئے تو اسسٹنٹ کمشنر صاحب نے یہ کہہ کہ انہیں واپس بھیج دیا کہ ’سر یہ آپ کا لیول نہیں ہے کہ آپ آکر صحافیوں سے بات کریں ‘۔ صحافیوں اور اسسٹنٹ کمشنر کے درمیان تلخ کلامی اور اونچی آواز میں گفتگو نے پروگرام میں بدمزگی پیدا کردی ۔ پروگرام کے مہمان خصوصی جناب وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن اور محکمہ اطلاعات کے مشیر جناب شمس میر صاحب سامنے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر نگر کے روایتی ڈاؤڈو سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ ن لیگ سے وابستہ نیم صحافی دوست کے مطابق انہوں نے وزیراعلیٰ کے نوٹس میں بھی یہ بات لائی تھی۔
مسلم لیگ ن کا یہ مسلسل چوتھا پارٹی کنونشن ہے جہاں پر صحافیوں کے ساتھ یہ سلوک رواں رکھا گیا ۔ سب ڈویژن جگلوٹ میں مسلم لیگ کا جلسہ اور وزیراعلیٰ کی جانب سے کھلی کچہری کا انعقاد کیا گیا جلسے کا اختتام ہوتے ہی ن لیگی کارکنوں نے وزیراعلیٰ کے ہمراہ مہمان خانہ میں گھس کر کنڈی چڑھادی ۔ صحافی برادری نے جگلوٹ میں مسافروں کے ہوٹل میں جاکر کھانا کھایا۔
مسلم لیگ ن کے نئے عہدیداروں کا نوٹیفکیشن کے لئے تقریب چنارباغ میں بالمقابل قانون ساز اسمبلی منعقد کیا گیا ۔ وزیراعلیٰ صاحب نے حالا ت حاضرہ میں سیاسی کارکنوں کی زمہ داری پر مفصل خطاب کیا ۔اختتام پر کارکنوں نے برق رفتاری سے چائے کے میز کی جانب کیا ۔ صحافیوں کی بڑی تعداد نے اپنے چائے کا نشہ اسمبلی کے کینٹین میں آکر پورا کرلیا ۔ 19مارچ کو شہید سیف الرحمن کی برسی کے اختتام پر بھی ایسی صورتحال ہی رہی ۔ پروگرام کے بعد شام کو وزیر خوراک محمد شفیق سے اخبار کے دفتر میں ہی ملاقات ہوگئی جس پر انہوں نے اس ’بدنظمی ‘ پر شرمندگی محسوس کرتے ہوئے بولا کہ آئندہ جہاں بھی پروگرام یا تقریب ہو صحافی دوستوں کو میں اپنے ساتھ دفتر لیکر جاؤں گا‘۔
صحافت اور سیاست قریب قریب ایک سکے کادورخ ہیں۔ دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ صحافی کے پاس بات کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کے زرائع ہوتے ہیں اور سیاستدان کے پاس بات کہنے کے مواقع ہوتے ہیں۔ صحافت درست ہو تو معاشرے کی اخلاقی تربیت بھی ممکن ہوسکتی ہے اور سیاست درست ہو تو تعمیر و ترقی کا سفر جاری رہ سکتا ہے ۔ سیاستدان کی کچھ امور پر پارٹی پالیسی مجبوری بنتی ہے تو صحافی کچھ معاملات پر اخبار کی پالیسی کا پابند ہوتا ہے ۔ سیاست بگڑ جائے تو نظام بگڑسکتا ہے صحافت بگڑ جائے تو سدھارنے کے لئے کئی ہتھیار ہیں اس لئے صحافت بگاڑ کے حوالے سے بڑی محتاط ہوتی ہے ۔سیاستدانوں کی سیاست میں زندہ رہنے کے لئے صحافت کی اشد ضرورت ہوتی ہے اور صحافت کو زندہ رہنے کے لئے بھی سیاستدانوں کی ضرورت ہوتی ہے مگر گلگت بلتستان میں شاید ہی کوئی ایسی صورتحال ہو جب اس انڈسٹری کی گرتی ہوئی معاشی صورتحال کو دیکھ کر کسی سیاستدان یا جماعت نے تعاون کی ہو بلکہ تعاون کی پیشکش کی ہو ۔ گزشتہ سال جب گلگت بلتستان کے تمام موقر اخبارات نے اشاعت بند کرکے قانون ساز اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا تو رکن گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی نواز خان ناجی نے بغیر لگی لپٹی کہہ دیا کہ میں تو صرف تنخواہ کے لئے اسمبلی میں موجود ہوں ورنہ آپ لوگوں کی طرح سڑکوں پر احتجاج کرتاہوا نظر آتا ۔ نواز خان ناجی صاحب نے اس ایک جملے میں بیک وقت حکومت اور میڈیا انڈسٹری دونوں کی صورتحال کا نقشہ کھینچ لیا۔
گلگت بلتستان میں صحافت ملک کے دیگر علاقوں کی صحافت کے مقابلے میں فرشتہ صفت ہے یہاں پر آپ کو کسی جماعت سے ’بھتہ‘ لینے والا صحافی نظر نہیں آئیگا ، یہاں پر آ پ کو پریس کارڈ برائے فروخت کا بینر نظر نہیں آئیگا ، یہاں پر سرکار کے ’وظیفہ خور ‘اخبار میں کام کرتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے ۔ یہاں پر کسی بھی سکینڈل سے قبل ’ٹیلیفون ‘ کا رواج نظر نہیں آئیگا۔ موجودہ سرکار میں تو وزراء صاحبان خود حیران ہیں کہ ہم بھاری مراعات یافتہ اور تنخواہ دار لوگوں کی زندگی اتنی معمول کی ہے تو یہ صحافی اپنی ’قلیل تنخواہ ‘پر کونسا دم پڑھ کر جاتے ہیں۔گزشتہ حکومت میں تو اشتہارات کی شکل میں وزراء صحافیوں کے ساتھ کسی حد تک تعاون بھی کرتے تھے مگر موجودہ حکومت میں سوائے معمول کے اشتہارات کے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ جگہ جگہ تقریبات کی کوریج کرنے والے بنیادی طور پر ’عزت کے بھوکے‘ہوتے ہیں۔
حال ہی میں مقامی اخبار سے ہمارے دوست کو رخصت کردیا گیا ، اخبار کے حساب کتاب کے دوران بقایہ جات نکل آئے ۔ دوست نے اخبار سے بقایہ جات کا مطالبہ کردیا تو اخبار نے اس کو ایک وفاقی پارٹی کے مقامی جماعت کے اشتہار کا بل تھمادیا کہ یہ اشتہار آپ کی وساطت سے اخبار میں لگا ہے آپ اس کی ریکوری خود کریں۔ اور وفاقی پارٹی کی مقامی جماعت اچھا خاصہ وقت گزرنے کے بعد اب بہانے بنارہی ہے ۔میڈیا کے پاس بنیادی طور پر سوائے ’پیغام کو عام ‘ کرنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ میڈیا کا کوئی فنڈحکومتی یا کسی سیاسی جماعت کا نہیں ہوتا ہے،حالانکہ موجودہ وقت میں میڈیا نے صنعت کا روپ دھار لیا ہے صنعت کا بنیادی اصول ہوتاہے کہ جہاں پر اس کا مفاد ہو اس کو ترجیح دینا ہے ۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں کا چولی دامن کا یہ ساتھ بالائی سطور میں آپ کے سامنے ہے ۔یہاں پر میڈیا کو سنانے والوں کی تعداد کافی ہے بعض سیاست میں مہارت کی وجہ سے میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو بعض حلقے پھر اپنی کم علمی اور غیر سیاسی اور سیاسی فہم و فراست کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس جانب رخ کررہے ہیں۔ مولانا جلال الدین رومی نے شاید ’ہزار کہ لو ایک نہ سنوگے ‘کی بات موجودہ میڈیا کے تناظر میں ہی کہی تھی ۔درج بالا امور صحافت کش شمار کئے جاسکتے ہیں۔