کالمز

وزیر اعلیٰ صاحب! خدا را

تحریر: سید تنویر حسین شاہ

’’غریبِ شہر ترستا ہے اِک نوالہ کو

امیرِشہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں ‘‘

گزشتہ روز دوستوں کے ہمراہ گلگت شہر کے ایک مقامی مارکیٹ میں بیٹھے معمول کی گفتگو میں مصروف تھے۔اسی اثناء دو بچے جن کی عمریں تقریباً 8سے 10 سال کے درمیان ہو نگی ،اپنے قد سے بڑے اور اپنے وزن سے بھاری تھیلے اٹھائے جا رہے تھے ۔تھیلے میں کاٹن کے ٹکڑے ،پرانے جوتے سمیت کچرا نظر آرہاتھا۔یہ تھیلہ اتنا وزنی تھا کہ بچے باری باری اٹھاتے اور ہر دو قدم بعد آرام کرتے اور پھر آگے بڑھ رہے تھے ۔ہم سب کی توجہ ان بچوں کی طرف مبذول ہو گئی اور ساتھ بیٹھے دوست نے بچوں کو اپنی جانب مد عو کیا ۔بچے اس اُمید سے کہ شائد دس،بیس روپے مل جائیں، بہ خوشی ہماری طرف دوڑ نے لگے ۔ پاس آنے پر دوستوں نے حال احوال کے بعد بچوں سے پوچھا کہ آپ کو اس عمر میں سکول میں ہونا چاہئے ۔دوستوں کے ان باتوں پر بچوں نے کچھ خاص توجہ نہ دی ۔وہ اس اُمید سے آئے تھے کہ کچھ پیسے مل جائینگے ۔دوست نے بچے کی طبیعت کوسمجھتے ہوئے کچھ پیسے پکڑا دئیے اور پھر سوال پوچھا کہ بچے آپ سکول کیوں نہیں جاتے؟جس پر بچوں کا کہنا تھا کہ سکول جاتے بچوں کو دیکھ کر ہمارا بھی سکول جانے اور پڑھنے کا دل کرتا ہے لیکن گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے بھیک مانگ کر اور کچرے کے ڈھیر سے اپنے لئے چیزیں اٹھا کر گزارا کر لیتے ہیں ۔والد صاحب معذوری کی وجہ سے مزدوری کے قابل نہیں جبکہ والدہ بھی اس قابل نہیں کہ وہ ہماری روزی کا بندوبست کے ساتھ سکول بھی بھیج سکیں ۔گھر میں والد اور والدہ کے سواء ہمارا کوئی نہیں اور جو ہے وہ خود بمشکل اپنی زندگی گزار رہے ہیں ۔بچوں کی ان باتوں پر بے بسی اور افسوس کے سواء ہم بھی کچھ نہیں کر سکے ۔ایسے سینکڑوں بچے ہمیں کچرے کے ڈھیر میں ،بھیک مانگتے ہوئے ،ہوٹلوں ،ورکشاپس میں مزدوری کرتے ہوئے نظر آئینگے ۔گھریلیو مجبوریاں انہیں سکول جانے کے بجائے کم عمری میں مزدوری کرنے پر مجبور کر تی ہیں ۔

اردو کے مشہور شاعر مرزااسداللہ خان غالب نے خوب کہا تھا کہ

تنگ دستی گر نہ ہو غالب

تندرستی ہزارنعمت ہے

گلگت بلتستان کا شمار ماضی میں ان گنے چنے علاقوں میں ہوتا تھا جہاں پر مقامی بھکاری نہ ہونے کے برابر تھے مقامی سطح پر لوگوں میں بھی احساس موجود تھا جو کسی کو بھی بھیک مانگنے نہیں دیتے تھے ۔ بھیک مانگنا گویاں انتہائی معیوب عمل تھا۔ واقعتا بھیک مانگنا سب سے ناپسندیدہ عمل ہے ۔رفتہ رفتہ یہ خوبصورت روایت مٹ رہی ہے اس عمل کے پیچھے سماجی ناانصافیاں اور ارباب اختیار کے غفلت اور نظریں پھیرنا بھی کارفرماں ہیں۔ مذکورہ بچوں کا واقعہ صرف اکیلا نہیں اب جگہ جگہ مقامی نونہال بچے بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نونہال بچوں کے بغل میں بستہ اور ہاتھ میں قلم ہونے کی بجائے بغل میں اپنے بوجھ سے بھاری بھار اور ہاتھ میں گندگی سے نکالا ہوئی معمولی قیمت کا کوئی نایاب شے ہوتا ہے۔

قارئین ،مجھے کچھ دن پہلے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی جانب سے دیا گیا وہ بیان یاد آرہا ہے جس میں وزیر اعلیٰ صاحب نے کہا تھا کہ بچوں کو سکول نہ بھیجنے والے والدین کو 6ماہ کیلئے جیل بھیج دیا جائے گا ۔وزیر اعلیٰ صاحب کا بیان انتہائی خوش آئند ہے لیکن مجھے اُن بچوں کی باتیں یاد آرہی تھیں جن کا کہنا تھا کہ والد معذور جبکہ والدہ بھی مزدوری کے قابل نہیں تو میں سوچنے لگا کہ وہ والدین جو بچوں کو سکول نہیں بھیجتے اُن کو جیل بھیجنے کا قانون تو بن جائے گا لیکن وہ والدین جو معذوری اور بے بسی کے باعث اپنے بچوں کو چاہتے ہوئے بھی سکول نہیں بھیج سکتے کیا اُ ن کیلئے بھی کوئی قانون سازی ہو گی ؟وزیر اعلیٰ صاحب،خدا را ایسے بچوں اور والدین کیلئے اقدامات اٹھایے جائیں جو کسی بے بسی کے باعث اپنے بچوں کو سکول کے بدلے مزدوری کرنے کیلئے بھیجنے پر مجبور ہیں ۔

گلگت بلتستان میں ایسے بڑھتے ہوئے بچوں کی تعداد حاکم شہر سے درخواست کرتی ہیں کہ جیل انہیں بھیج دیں جو تعلیم کے لئے بھیجتے نہیں لیکن ان لوگوں کے لئے بھی کوئی قدم اٹھائے جن کو تلاش معاش چھوڑ کر تعلیم کے قریب جانے کے لئے بھی وقت نہیں ہے۔ کیا حکومت کے پاس سوشل ویلفیئر جیسے ادارے موجود نہیں ہیں کیا سوشل ویلفیئر کو یہ سماجی پسماندگی نظر نہیں آتی ہے ۔ حکومت زکواۃ اور عشر جیسے مالی معاملات میں ان غریبوں کو نظر انداز کیوں کررہی ہے ؟ حکومت گلگت بلتستان کو اس سماجی پسماندگی کے پہلو کی جانب توجہ جلد از جلد مبذول کرنی ہوگی ۔

ہمارے عہدے کے بچے تلاش رزق میں نکلے

وہ کھلونوں سے کیا کھیلیں جنہیں بچپنی نہ ملی ہو

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button