نیا سیاسی اتحاد
لو وصل کی ساعت آپہنچی پھر حکم حضوری پر ہم نے
آنکھوں کے دریچے بند کئے اور دل کا در باز کیا
بزرگ سیاسی رہنما ، سابق وزیر اور مسلم لیگ (ق) لیڈر سلیم سیف اللہ خان نے صوبائی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آئندہ انتخابات کے لئے باہمی اتحاد کا اعلان کیا ہے ملکی سیاست میں سیف اللہ خاندان کے مثبت کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اتحاد کو مستقبل کے لئے اچھا شگون قرار دیا جاتا ہے سیاسی پارٹیوں کی تعداد میں اضافہ اور ہر سیاسی پارٹی کی الگ پرواز یا سولو فلائیٹ نے ایک طرف معاشرے کو انتشار سے دوچار کیا ہے تو دوسری طرف اس طرح کے فکری انتشار سے صوبے کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہے، ترقی کی رفتار رُک جاتی ہے اور سیاسی افراتفری میں اضافہ ہوتا ہے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے 2013ء کے انتخابات میں سولو فلائیٹ کی پالیسی اپنائی تاہم یہ پالیسی کامیاب نہیں ہوئی اور انتخابات کے بعد حکومت بنانے کے لئے تین پارٹیوں سے اتحاد کرنا پڑا
ایک پارٹی تحریک انصاف میں ضم ہوگئی ایک پارٹی دو بار آنے جانے کے بعد داغِ مفارقت دے گئی، صرف جماعت اسلامی نے ساتھ دیا اور اتنا ساتھ دیا کہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے بعد بھی پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ وفاداری نبھائی
وفاداری بشرطِ استواری اصل ایمان ہے
مرے کعبہ میں تو بت خانہ میں گاڑو برہمن کو
جماعت اسلامی کیلئے یہ ایک چیلنج تھا کہ متحدہ مجلس عمل کو بحال کرنے کے بعد صوبائی حکومت کو بے حال کیا جائے یا نہیں ؟اگر جماعت اسلامی حکومتی اتحاد سے باہر آتی تو مخلوط حکومت ٹوٹ جاتی، صوبے میں عدم استحکام کی کیفیت پیدا ہوجاتی اس لئے جماعت اسلامی کو بجا طور پر دو کشتیوں کی سواری کا کریڈٹ دیا جانا چاہیئے ویسے سچ پوچھئے تو متحدہ مجلس عمل کے دوسرے بڑے پارٹنر جمعیت العلمائے اسلام (ف) بھی دو کشتیوں میں سوار ہیں وہ محمود خان اچکزئی کو لیکر منظور پشتین اور نون لیگ کی کشتی پر بھی سوار ہیں اگر اس کشتی میں سوراخ ہوگیا تو ’’ نامعلوم افراد‘‘ کی کشتی پر بھی ان کی سواری جاری ہے گویا بقول شاعر
رُخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ کہتے ہیں
اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا پروانہ اِدھر کو آتا ہے
صوبائی وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو سیاسی گٹھ جوڑ کا ماہر قرار دیا جاتا ہے بعض لکھنے والے ’’ جوڑ توڑ کا ماہر ‘‘ بھی لکھتے ہیں لیکن جوڑ کیساتھ توڑ خود بخود آجاتا ہے کسی اور شاخ سے توڑے بغیر اپنی شاخ سے جوڑا نہیں جاسکتا سو ’’ گٹھ جوڑ ‘‘ کی ترکیب اس مہارت کے لئے درست ترکیب ہے سلیم سیف اللہ خان خیبر پختونخوا کی سیاست میں ایک طاقتور اور توانا کردار کا نام ہے آپ کا خاندان گذشتہ نصف صدی سے سیاست میں فعال کردار ادا کرتا آیا ہے بھٹو شہید نے پاکستان پیپلز پارٹی میں بھی اس خاندان کو بے حد اہمیت اور وقعت دی محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی اس خاندان کی اہمیت کو دل و جان سے تسلیم کیا جنرل ضیاء الحق ، نواز شریف ، چوہدری شجاعت حسین اور جنرل مشرف نے بھی سیف اللہ خاندان کو سیاست کا گُورو تسلیم کیا اگرچہ پاکستان تحریک انصاف نے سیف اللہ خان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے میں دیر کردی تو اس میں اچھنبے کی بات نہیں منیر نیازی کا مصرعہ ہے ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں ‘‘ صوبے کی سیاست میں ماضی میں کئی اتحاد بنے ،کئی کامیاب ہوئے ، کئی ناکام ہوئے ،سلیم سیف اللہ خان اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کا تازہ ترین اتحاد اس سلسلے کی ایک کڑی ہے اگرچہ اتحاد کابراہِ راست اثر لکی مروت ، بنوں اور دیگرجنوبی اضلاع کی سیاست پر پڑے گاتاہم دو وجوہات سے اس اتحاد کا اثر صوبائی اور قومی سطح پر بھی محسوس کیا جائے گا پہلی وجہ یہ ہے کہ اتحاد کا نقصان تین سیاسی قوتوں کو ہوگا ، مسلم لیگ نون، جمعیت العلمائے اسلام اور عوامی نیشنل پارٹی کو دھچکا لگے گا یہ دھچکا قومی اور صوبائی سطح پر اپنا اثر دکھائے گا دوسری وجہ یہ ہے کہ اس اتحاد سے مستقبل کی حکومت کیلئے کچھ مثبت اشارے مل رہے ہیں یہ اشارے صوبائی اور قومی سطح پر محسوس کئے جائیں گے اخبار بین حلقوں کو یاد ہوگا کہ 2000ء میں مسلم لیگ (ن) کی کوکھ سے جب ہم خیال گروپ جنم لے رہی تھی اس میں سیف اللہ خاندان کا نمایاں ہاتھ تھا اس سے پہلے 1985ء کی غیر جماعتی اسمبلی سے مسلم لیگ ایک تواناسیاسی قوت بن کر سامنے آئی تو اس کے ہراول دستے میں سیف اللہ خاندان کو لیا گیا تھا چوہدری شجاعت حسین نے ہم خیال لیگ کو مسلم لیگ قائد اعظم کا نام دیا جو بعد میں مسلم لیگ (ق) کہلائی سیف اللہ خاندان کا جھکاؤ جس پارٹی کی طرف ہوا اُس پارٹی نے فتح اور کامیابی کے جھنڈے ہر محاذ پر گاڑ دیے فیض نے کیا بات کہی
جس خاک میں مل کر خا ک ہوئے سرمہ چشم خلق بنی
جس خار پہ ہم نے خون چھڑکا ہم رنگِ گلِ طناز کیا