شعر و ادبکالمز

’’گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن‘‘ (افسانہ)

فکرونظر: عبدالکریم کریمی

سورج غروب ہونے کو تھا، دریائے اشکومن کی بانہوں میں شام کی اُداسی اپنا رنگ جمانے لگی تھی، دریا کے اس پار اسمبر گاوں والےاپنی اپنی بکریوں کو ہانکتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے، دن بھر دانے دنکے کی تلاش میں اِدھر اُدھر اُڑنے والے پنچھی اب تھک ہار کر اپنے اپنے آشیانو ں کی طرف محو ِ پرواز تھے۔ دریائے اشکومن کے کنارےآباد بارجنگل گاوں کے پلے گراونڈ کے پیچھے محسن اور حسینہ آج آخری بار ملنے آئے تھے، ان کی محبت اور ان کے پیار کا یہ آخری دن تھا کیونکہ اس ملاقات کے بعد محسن کو روایات کی خونِ آشام سولی پر چڑھ کر کسی اور کا ہونا لکھا تھا، جبکہ حسینہ کے نصیب میں عمر بھر تنہائی کی آگ میں جلتے رہنا لکھا تھا، یہ احساس بھی ان کے چہروں پر افسردگی اور ہونٹوں پر قفل لگائے ہوئے تھا۔ وہ دونوں دریائے اشکومن کے پانی میں پاؤں لٹکائے نہ جانے دور اُفق میں کیا ڈھونڈ رہے تھے شاید اپنا خوبصورت ماضی یا پھر اپنے پیار کی وہ خوبصورت پرچھائیاں جن کی یادوں میں اب انہیں عمر بھر جلنا تھا۔ محسن اور حسینہ ایک ہی محلے میں رہتے تھے۔ انسان مر جائے تو رشتوں کے بندھن بھی ٹوٹ جایا کرتے ہیں مگر۔۔۔

محسن ان بدنصیب انسانوں میں سے تھا جو ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی اکیلا تھا، خاندان والے سمجھتے تھے کہ اس کی پیدائش کے وقت اس کی ماں خالقِ حقیقی سے جا ملی تھی اور اسی لمحے سے خاندان والوں کی نفرت کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا، زیست کا گزرنے والا یہ لمحہ اس کے ساتھ ہونے والی نفرت اور ناانصافیوں میں اضافہ کرتارہا، کوئی بھی اس کے سینے میں چھپی ہوئی حسرت اور اس کے ہونٹوں پر جمی ہوئی پیار کی تشنگی کو نہ جان سکا، پھر ایک روز اچانک اس کی زندگی کے تپتے صحرا میں محبت کا ایک ٹھنڈا اور گہرا بادل آیا اور اس کی زندگی کے تپتے صحرا میں گویا ہر سو پیار کی جل تھل ہوگئی، محبت کی گھٹا بن کر برسنے والی یہ حسینہ تھی، جو اس کے پڑوس میں ہی رہتی تھی۔ دبلی پتلی حسینہ میں نہ جانے کیا بات تھی کہ عمر بھر دکھوں اور نفرت کے الاؤمیں جلنے والا محسن اس پر سو جان سے مر مٹا، مگر چونکہ اُسے اپنے بدنصیبی اور کم مائیگی کا شدت سے احساس تھا، اس لیے اظہارِ محبت نہ کر سکا، بس چُپ چاپ حسینہ کو من میں بسائے اس کی پرستش کرنے لگا، اس کی خاموش اور یکطرفہ محبت کا یہ سلسلہ نہ جانے کب تک جاری رہتا کہ ایک دن ایک حسین حادثے نے دونوں کو ایک دوسرے کے اتنا قریب کر دیا کہ اُنہوں نے کھل کر ایک دوسرے سے اظہارِ محبت کر دیا۔ کہتے ہیں کہ محبت کی عمر بڑی مختصر ہوتی ہے، ان شہاب ثاقبوں کی طرح جو اس جاودانی آسمان پر بس چند لمحوں کے لیے چمکتے ہیں اور پھر آسمان کے وسیع و عریض اندھیاروں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گم ہوجاتے ہیں۔ محسن اور حسینہ کی محبت کا پھول ابھی پوری طرح کھلنے بھی نہ پایا تھا کہ بادِ خزاں کے جھونکوں نے اسے پتی پتی کرکے بکھرا دیا، وہ خواب، وہ سندر اور رنگین سپنے ابھی ان کی آنکھوں اور پلکوں میں مکمل طور پر اُترنے بھی نہ پائے تھے کہ بے دردی سے نوچ ڈالے گئے۔ محسن کی بہن کی شادی گاؤں میں ہوئی تھی۔ اس کے بہنوئی کی ایک بہن تھی جو محسن سے عمر میں دوگنی تھی اور نیم پاگل بھی تھی، اس کا ابھی تک کوئی رشتہ نہیں آیا تھا جبکہ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ اگر اس کی شادی کر دی جائے تو شاید یہ ٹھیک ہوجائے، مگر عمر کی زیادتی اور بھُدے نقوش کی وجہ سے کوئی بھی اس سے شادی کرنے کو تیار نہ تھا، چنانچہ محسن کے بہنوئی نے اُسے بڑے پیار اور دلاسوں کے جھوٹے جھال میں پھنسا کر اپنی پاگل بہن سے شادی کرنے کے لیے راضی کر لیا۔ محسن جو روزِ اول سے ہی پیار اور چاہت کے لیے ترس رہا تھا یہ چال نہ سمجھ سکا اور محض بہن بھائیوں اور خاندان والوں کو خوش کرنے کے لیے اس بے جوڑ شادی پر رضا مند ہوگیا اور اب دو دن بعد اس کی شادی ہونے والی تھی۔ اس لیے وہ اور حسینہ آج آخری بار ملنے آئے تھے۔ بیشک محسن نے شادی کے لیے ہاں کر دی تھی مگر حسینہ تو اس کی روح کی گہرائیوں میں اُتری ہوئی تھی۔

حسینہ! بالآخر محسن نے اس طویل خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا اور حسینہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، حسینہ محبت دنیا کے ہر رشتے، ہر بندھن سے زیادہ مضبوط اور طاقتور ہوتی ہے۔ یہ وہ جذبہ ہوتا ہے جو دلوں کو پاکیزگی اور گرتے ہوئے حوصلوں کو ہمت بخشتا ہے میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔۔۔ تمہیں کتنا چاہتا ہوں یہ تم کبھی بھی نہیں جان پاؤگی۔ کیا ہوا جو ہم ایک دوسرے کو نہیں پاسکے، مگر ہم ایک دوسرے کی روحوں میں ہمیشہ ہمیشہ سمائے رہیں گے۔ ہم۔۔۔ محسن! حسینہ نے اس کی بات کاٹ دی اور کہا کہ تم مردوں کے لیے محبت ایک کھیل ہے، ہم لڑکیاں تم لوگوں کے سامنے ایک خوبصورت کھلونا۔ تم لوگوں کا جب دِل چاہتا ہے اس نازک کھلونے سے کھیلتے رہتے ہو اور جب دِل بھر جاتا ہے تو مختلف مجبوریوں کی آڑ لے کر کسی نئے کھلونے کی تلاش میں نکلتے ہو۔ تم ایک مرد ہو کر مجبوریوں کے ترازو میں جُھک گئے، بہرحال تمہیں نئی زندگی مبارک ہو، مگر میں ایک لڑکی ہوں میرے دل کے مندر میں صرف تم ہی تھے اور صرف تم ہی رہو گے، کیونکہ یہی پیار کی معراج ہے اور یہی وہ رشتہ ہے جسے صرف اور صرف ایک عورت ہی نبھا سکتی ہے۔ الوداع اے میرے بزدل ساتھی الوداع۔۔۔ اتنا کہہ کر حسینہ نے روتی ہوئی آنکھوں سے محسن کو دیکھا اور تیزی سے اُٹھ کر چلی گئی، چودھویں چاند کی روشنیاں نہ صرف دریائے اشکومن کے پانی کو جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہی تھیں بلکہ دریا کے آر پار آباد دونوں گاوں بارجنگل اور اسمبر ایک خواب ناک منظر پیش کر رہے تھے۔ آسمان پر چمکتے تارے بھی رات کی سیاہی کو چاک کر رہے تھے، مگر محسن کے دل میں دُور دُور تک اندھیرا ہی اندھیرا تھا کیوں نہ ہو حسینہ کے بغیر محسن کی زندگی ویران تھی۔

گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن

بہت اُداس، بہت بے قرار گزرے گی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(میری دوسری کتاب ’’کلیاتِ کریمی‘‘ کی پہلی جلد ’’فکرونظر‘‘ سے ایک افسانہ۔)

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button