گلگت بلتستان میںسیاحت کے فروغ کے لئے ویزا پالیسی نرم کرنا ضروری ہے، مبارک حسین ممبر پاکستان ایسوسی ایشن آف ٹور آپریٹرز
ہنزہ( عبدالمجید) ممتاز سماجی شخصیت اور پاکستان ایسو سیشن آف ٹور آپریٹرز کے ٹاسک فورس کے ممبر مُبارک حُسین نے کہا ہے کہ صدر مملکت ممنون حُسین اور موجودہ وفاقی حُکومت پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں سیاحت کو صنعت کا درجہ بخشنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے نیز ایک بہترین اور آسان شرائط پر مبنی ٹوریزم پالیسی وضع کرے ۔ گزشتہ ماہ کے اوائل میں پاٹو کا ایک نمائندہ وفد نے وزیر داخلہ احسن اقبال سے ملاقات کیا تھا اور اس دوران ویزہ کی نظام کو آسان شرائط کی اپیل کی گئی تھی اس موقع پر انھوں نے حوصہ افزاء یقین دلایا تھا کہ پاکستان کی سیاحت کو پروان چڑھانے لے لئے الکٹرونیک ویزہ پالیسی متعارف کروایا جائے گا اور ساتھ ہی پاکستان کے لئے ذر مبادلہ کمانے والے جو پچھلے کئی سالوں سے سیاحت سے وابستہ ٹور آپریٹرز کے نام وزارت داخلہ کے ویب سائٹ پر آویزاں کرینگے ۔جس کے لئے پاکستان کے ٹور آپریٹرز منتظر ہیں ۔ اب جب کہ گلگت بلتستان میں سیاحت کاموسمی اعتبار سے آغاز ہو چکا ہے اور سیاحوں کا رخ شروع ہو چکا ہے ۔ جب سے ملک میں سیاحت کے لئے سیکورٹی حالات سازگار ہوئے ہیں۔سیاح پاکستان کو ترجیح دیتے چلے آرہے ہیں ۔ اس وقت پاکستان دنیا کا نمبر ون سیاحت کے لئے موزوں ترین ملک مانا جارہا ہے۔پاکستان کے قدرتی مناظر بین الاقوامی سیاحوں کے لئے ایک انمول تحفہ ہے ۔اس کے دلفریب مناظر ساتھ ہی دلکش نظارے انتہائی نایاب اور پُر کشش ہیں ۔ خاص کر گلگت بلتستان کی قدرتی حُسن اور جغرافیائی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے اگر اس خطے کو دنیا کا چھوٹی سوئیزر لینڈ کہا جائے تو بے جاء نہ ہوگا۔یہاں ( جی بی) پر تین پہاڑی سلسلے ۱۔ کوہ ہمالیہ،۲۔ کوہ ہندو کُش،۳۔قراقرم اپنی مثال آپ ہیں۔ پاکستان کے سات جھیل گلگت بلتستان میں ہیں نیز اس کے علاوہ دنیا کی چودہ آٹھ ہزار میٹر سے بلند پہاڑ وں میں پانچ پہاڑ گلگت بلتستان میں واقع ہیں جوجی بی کی حُسن کو دو بالا کرنے کا سبب بنے ہوئے ہیں اس لئے دنیا میں گلگت بلتستان کی ایک امتیازی حیثیت ہے ۔ دنیا بھر کے معروف کوہ پیماء ہر سال مہم جوئی کے لئے پاکستان کا رخ کرتے ہیں ۔ یہاں پر میں جی بی کونسل اور ہمارے متعلقہ اداروں سے گزارش ہے کہ جی بی میں ون ونڈوآپریشن قائم کرکے زیادہ سے زیادہ تین دنوں میں ٹرکینگ پرمٹ اور ایک ہفتے میں کلائیمنگ پرمٹ کا اجراء کیا جائے تاکہ مہم جو سیاح جلد از جلد اپنی مہم شروع کر سکیں ۔ ہر سال اور ہر موسم میں ہزاروں کی تعداد میں اندرون و بیرون ملک سے سیاح گلگت بلتستان کی تاریخی مقات کی سیاحت کے لئے یہاں کا رخ کرکے دل کو مسرور کرکے واپس چلے جاتے ہیں جن مقامات کی سیاحت کو سیاح ترجیح دیتے ہیں ان میں ہنزہ نگر، نلتر، فیری میڈوز، استور،شگر ، خپلو، دیوسائی اور پھنڈر مشہور ہیں ۔ تاریخی مقامات میں قلعہ بلتت ،قلعہ التت ہنزہ میں اور قلعہ شگر کے علاوہ قلعہ خپلو دیدہ زیب ہیں۔ نیز ہنزہ ایک ہزار سال قدیم اور تاریخی گاؤں گنش ہے جو شاہ راہ ریشم پر سب سے پہلے آباد ہونے والوں کی بستی ہے۔ سیاحوں کو ہنزہ میں اس گاؤں کی حسن سے لازمہظوظ ہونا چاہئے۔
بیرون ملک کے سیاحوں کو پاکستان آنے کے لئے ویزے کی حصولی کے دوران سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہمارے ہمسایہ ممالک نے اپنے ویزہ پالیسی نہایت ہی آسان کیا ہوا ہے جس کے سبب بین الاقوامی سیاح اُن ممالک کا سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کی وجہ سے ہم بہت بڑا زر مبادلے کی رقم سے محروم ہوجاتے ہیں کیوں کہ ان کو آئیر پورٹ پر ہی با آسانی ویزہ دستیاب ہوتا ہے ۔ یہاں پر اس بات کا خاص ذکر کرنا چاہوں گا کہ ہمارے ملک کے ٹور آپریٹرز جو کہ سیاحت کی ترویج کے لئے ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور میں بحیثیت ٹور آپریٹر گزشتہ ۳۵ برسوں سے پاکستان کی سیاحت کی ترویج کے لئے دنیا کے مختلف ممالک میں سیاحتی میلے میں شریک ہوتا رہاہوں اور اس کے علاوہ مختلف ممالک کے ٹور آپریٹرز سے ملاقات کر کے پاکستان کے لئے اپنے سیاح بھیجنے کے لئے قائل کرتا رہاہوں ۔ ایک المیہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سیاحوں کے لئے تجارتی ویزے پر اس سال گلگت بلتستان میں داخلہ ممنوع قرار دی گئی ہے جو کہ سیاحت سے وابستہ لوگوں کے لئے بہت بڑا دھچکا ہے ۔اس پابندی کو وفاقی حکومت جلد از جلد اٹھائے تاکہ سیاحت سے وابستہ افراد کا روز گار متاثر نہ ہو اور تجارتی ویزہ رکھنے والے بین الاقوامی سیاحوں کے لئے گلگت بلتستان کا دروازہ بند نہ ہو گزشتہ دو مہینوں سے بہت سے سیاح گلگت آئر پورٹ اور قراقرم ہائی وے سے واپس کیا گیا ہے ۔ یہ پابندی سیاحت کش اقدام سے تعبیر کیا جائے گا ۔ ساتھ ہی ساتھ میرا مطالبہ ہے کہ صدر مملکت اور حکومت وقت بین الاقوامی سیاحوں کے لئے صرف ۳۶ گھنٹوں کے اندر اندر ویزہ جاری کرنے کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کو یقینی بنا دیں۔ اور پاکستان کے سفارت خانوں کو احکامات صادر کئے جائے ان اقدات کو اگر عملی جامع پہنایا گیا تو پاکستان پانچ برسوں کے اندر اندر اپنے قرضوں سے چھٹکارہ پائے گا اور ترقیاتی ممالک کی صف میں شامل ہوگا ۔