غیرت کے نام پر ایک سالہ بچے سمیت تین افراد کا سفاکانہ قتل
سعدیہ مہ جبیں
فضل ربی اور مسماۃ ش دونوں کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقے ضلع دیامر کے تھور گاؤں سے تھے۔ مسماۃ ش پرکشش شکل وصورت کی مالکہ تھی۔ علاقہ کا ایک نامور عمر رسیدہ خان کو مسماۃ ش کی صورت پسند آئی اور اس نے دولت کی آفر کے ساتھ مسماة ش کے گھر رشتہ بھیجا۔
بتایا جارہا ہے کہ مسماۃ ش کے والدین نے دولت اور خان کی خوف سے ڈر کر اس رشتے کو قبول کر لیا.
لیکن مسماۃ ش نے عمر رسیدہ شخص جو کہ اس کے باپ کی عمر کے برابر تھا سے رشتہ کرنے سے صاف انکار کیا۔ اور اپنے ہی ایک رشتہ دار فضل ربی کے ساتھ کورٹ میرج کیا۔
(دیگر ذرائع کے مطابق مقتولہ کی نکاح پہلے سے ہو چکی تھی، لیکن انہوں نے بھاگ کر فضل ربی سے شادی کی۔ مدیر )
گاوں کے عمر رسیدہ خان کو اس عمل پر غصہ آیا اور فضل ربی کو دھمکانا شروع کیا کہ فضل ربی مسماۃ ش کو طلاق دے کیونکہ مسماۃ ش اسے پسند ہے ورنہ وہ ان دونوں کو قتل کر دے گا۔
فضل ربی اور مسماۃ ش عمر رسیدہ خان کے خوف سے علاقہ چھوڑ کر بھاگ گئے. اور خیبر پختون خواہ کا ضلع بٹگرام کے ایک دور افتادہ گاؤں میں چھپ کر زندگی گزارنے لگے۔ اسی دوران اللہ نے ان کو ایک پھول جیسی بیٹی بھی عطا کی۔
فضل ربی تھوڑی سی اجرت پر مقامی لوگوں کے کھیتوں میں مزدوری کر کے اپنے بیوی اور بچی کی محدود ضروریات پوری کر رہا تھا۔
کچھ روز قبل گاؤں کے خان کو کسی مخبر کے زریعے فضل ربی کے ٹھکانے کا پتہ چلا تو خان اپنے کچھ غنڈوں کو لیکر بٹگرام پہنچے اور اس نے اپنے غنڈوں کے ساتھ ضلع بٹگرام صوبہ خیبر پختون خواہ میں فضل ربی کے گھر پر حملہ کیا اور فضل ربی اس کی بیوی مسماۃ ش اور ان کی ایک سالہ معصوم بیٹی کو قتل کیا۔
ظالم خان نے تینوں مقتولین کی لاشوں کو بھی گاؤں میں دفنانے پر پابندی لگائی ہے۔
پاکستان میں وڈیروں اور خانوں کے ظلم کی داستانیں ہر روز پڑھتے اور سنتے آئے ہیں لیکن ظلم کی یہ دردناک داستان پاکستانی تاریخ میں پہلی دفع رقم ہوئی ہے۔
خبر کے مطابق فضل ربی اور مسماۃ ش کے والدین غریب اور علاقہ میں کم اثر رسوخ رکھنے والے ہیں۔ ان کی ایف آئی آر رسمی طور پر تھانہ بٹگرام میں چھے افراد کے خلاف درج ہوئی ہے انکے نام درج ذیل ہیں.
1: امیزجان
2: اقبال
3: حسین ولد لاجیل
4: حضرت عمر
5: موسی ولد ببریت
6: ثنااللہ ولد جہانزیب
قوم شین خیل سکینہ تھور کوٹ چلاس ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے ۔۔
لیکن ملزمان کو گرفتار کرنے کے بجائے پولیس ان کی پشت پناہی کررہی ہے۔
اب خان فضل ربی اور مسماة ش دونوں کے خاندانوں کو بھی دھمکی دے رہا ہے کہ اگر کہیں انصاف کے لیے آواز اٹھائی تو تم سب کو بھی قتل کرونگا۔
ضلع بٹگرام میڈیا کی نظر سے دور ہونے کی سبب اب تک یہ خبر بریکنگ نیوز نہیں بن سکی۔
اس دردناک اور افسوسناک خبر کو چیف جسٹس آف پاکستان، وزیراعلیٰ خیبر پختون خواہ، آئی جی خیبر پختون خواہ، وزیراعلی گلگت بلتستان، اور آئی جی گلگت بلتستان تک پہنچانے کے لیے آپ سب سے التجا ہے کہ اس پوسٹ کو شئیر کریں یا اپنی وال پر پوسٹ کریں تاکہ ناحق قتل ہونے والے فضل ربی اس کی بیوی اور ایک سالہ بیٹی کو انصاف مل سکے۔