کالمز

محنت کشوں کاعالمی دن۔۔۔۔۔۔

تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر

دنیابھرکی طرح محنت کشوں کے سرزمین پاکستان میں مزدوروں کا عالمی دن منایا جاتاہے۔محنت کشوں کی عالمی دن کے مناسبت سے یکم مئی کو ملک بھر میں مزدوروں کے لئے جلسے جلوس اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مزدور کے حق میں تقاریر کی جاتی ہیں اور سرکاری اورغیرسرکاری دونوں اداروں میں چھٹی ہوتی ہے۔ پاکستان میں مزدور پالیسی کا آغاز 1972ء میں ہوا اور یکم مئی کو پاکستان میں قانونی طور پر مزدور ڈے کا خطاب دیا گیا۔ پاکستان آج انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا ممبر ہے۔ جسکا مقصد مزدوروں کو معاشی حقوق فراہم کرنا ہے اور انہیں انکے حقوق کے بارے میں آگاہ کرنا ہے۔

اسلام ہی وہ نظام ہے جس نے درس دیا ہے کہ "مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کریں۔ مزدور پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جس کو اٹھانے کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ مزدور کو وہ ریٹ جائے جو آپ نے اسکے ساتھ طے کیا ہے۔دین اسلام میں محنت کش کو اللہ کا دوست قرار دے کر اس کی عظمت کا اعتراف کیا گیا ہے۔ حکومت وقت محنت کشوں کی فلاح وبہبود کے لئے ٹھوس اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔

محنت کشوں کی حالت زار ویسے تو کبھی اچھی نہیں رہی، لیکن شکاگو کے محنت کشوں نے جو قربانیاں دیں، ان کے نتیجے میں بہت سے امور اصولی طور پر تسلیم کرلیے گئے تھے۔ جن میں آٹھ گھنٹے کام، زائد وقت کام کا اوور ٹائم، ہفتہ وار چھٹی، تنظیم سازی اور اجتماعی سودے کاری کا حق، جیسے مطالبات شامل تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بیشتر طے شدہ امور پر دنیا کے بیشتر ممالک میں کبھی عملدر آمد نہیں ہوا۔ لیکن بحیثیت مجموعی محنت کشوں کی زندگیوں میں قدرے بہتری کے امکانات ضرور پیدا ہوئے تھے۔

ملکی ترقی، خوشحالی اور سماجی واقتصادی ترقی ،معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں محنت کشوں کا کلیدی کردار ہے۔ مزدور کی خوشحالی، احترام اور اسے بااختیاربنانے کی ضرورت ہے ۔ محنت کشوں کی لازولال جدوجہد اور بے مثال قربانیوں کے باعث مزدوروں کو وہ حقوق ملناچاہیے جن سے انہیں صدیوں سے محروم رکھا گیاہے۔

’’گذشتہ سال کے ایک اخباری رپورٹ کے مطابق۔پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سوشل سیکیورٹی کا دائرہ کار بڑھا کر اس میں وہ مزدور بھی شامل کیے جائیں جو کسی ادارے میں کام نہیں کرتے۔ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت مزدوروں کا حق کھا کر آف شور کمپنیاں بناتی ہے کراچی میں مزدورں کے عالمی دن کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ مزدوروں کے فلاح کے لیے تیزی سے کام کرنا ہو گا جیسے ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سوشل سیکیورٹی کا دائرہ کار بڑھا یا جائے اور اس میں وہ محنت کش بھی شامل کیے جائیں جو کسی ادارے کے ملازم نہیں لیکن اپنا روز گار کماتے ہیں جیسے ریڑھی لگانے والے مزدور اور رکشہ چلانے والے محنت کش اپنا کام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ لیبر کورٹس جس مقصد کے لیے بنائی گئیں وہ بھی پورا نہ ہو سکا ،کورٹس سے مزدوروں کور یلیف ملنے کے بجائے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ،سندھ حکومت اور سندھ ہائی کورٹ اس حوالے سے مل کر کام کریں تاکہ مزدوروں کے حالات کو بہتر کیا جا سکے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ صوبائی حکومت مسائل کو حل کرنا چاہتی ہے لیکن وفاقی حکومت ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے ،حکومت اورنج ٹرین بناتی ہے لیکن ہسپتال نہیں بناتی ،یہ حکومت مزدوروں کا حق کھا کر آف شور کمپنیاں بناتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ا فرادی قوت کسی بھی صنعت ومعیشت کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ،جس کے بغیرکامیابی اور ترقی کا پہیہ آگے نہیں بڑھ سکتا، حکومت محنت کش طبقات کی حالت بہتر بنانے کیلئے بھرپور توجہ دے رہی ہے، یہ دن ہمیں کارکنوں کو کام کے محفوظ، صحت مندانہ اور باوقار ماحول کی فراہمی کے اور مزدوروں کے حقوق کو یقینی بنانے کے بارے میں عزم کی تجدید کا موقع فراہم کرتا ہے‘‘

پاکستانی مزدور بھائیوں کے لئے مخلصانہ جذبات کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہوں، قوم وطن کی تعمیر میں ہر مزدور کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے جسے معاشرے میں احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، ہماری افراد کی قوت ترقی کے اہداف کو حاصل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔اس وقت مزدور طبقے کی غربت کے پیشِ نظر انکے بچے پرائمری جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ذرا سوچیئے کہ ہمارے حکمران اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دلانے اور مختلف آسائشیں دینے میں اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ غریب طبقے کے حقوق سلب کر رہے ہیں۔ وہ بچے جو پاکستان کے مستقبل ہیں ان ننھے ہاتھوں میں آج گرم اینٹیں، بھٹی ، کھیتوں میں مزدوری کا سامان اُٹھانے پرمجبورہیں۔ ہر مزدور کو اپنے حقوق کا پتہ ہے پھربھی وہ خاموش ہے کیونکہ اْسے یہ بھی پتہ ہے کہ زبان کھولتے ہی اس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا ہوسکتا ہے ۔ جب تک مزدروں کے حقوق کے لئے سرکاری طور پر کسی ادارے کو پابند اور فعال نہیں بنایاجائے اور متعلقہ ادارے کے ضمیر فروش اور ایمان فروش عملہ کے خلاف قانونی کاروائی کرکے کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور حقیقت میں محنت کشوں کی طبقاتی لڑائی کو منظم کرنے کا کوئی سنجیدہ لائحہ عمل پیش کرنے کی اشدضرورت ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button