( قسط اوّل) ایک گھوڑے کی کہانی
تحریر: سبطِ حسن
( عظیم روسی مصنف ٹالسٹائی کی ایک کہانی سے ماخوذ)
صبح ہونے میں ابھی بہت وقت تھا۔ دریا کے ارد گرد چراگاہ اور جنگل ایک کالی چادر میں چھپے ہوئے تھے۔ یہی لگتا تھا کہ جیسے یہاں کچھ بھی نہیں۔ جھینگروں کی آوازیں آرہی تھیں۔ مگر وہ بھی نظر نہیں آرہے تھے۔سورج نکلنے سے پہلے جب ہلکی سی روشنی ہوئی تو جیسے رات کا بھید کھلنے لگا۔ جو ماحول سنسی خیز اور پوشیدہ تھا، اپنے آپ کو ظاہر کرنے لگا۔ کچھ گھنٹے پہلے، رات تھی۔ رات میں آسمان، ایک چادر کی طرح زمین پر تنا ہوا تھا۔ ایسی چادر جس پر ستارے کاڑھے ہوئے تھے۔ رات میں آسمان اس کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ جیسے جیسے سورج کی کرنیں روشن ہوتی گئیں ، آسمان کی بلندی اور وسعت کا اندازہ ہونے لگا۔ گھاس پر پڑی اوس کے قطرے جھلملانے لگے۔ جنگل جہاں صرف جھینگروں کی آوازیں آرہی تھیں، میں جادوئی تبدیلی آگئی۔ ہزاروں پرندے نہ صرف نظر آرہے تھے بلکہ ان کی سریلی چہچہاہٹ سے جنگل بسا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔
گاؤں کے قریب، دریا کے پاس گھوڑوں کا ایک بڑا اصطبل تھا۔ اس میں سو کے قریب گھوڑے تھے۔ صبح ہوتے ہی اصطبل سے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ دراصل اپنے رکھوالے کو اطلاع دے رہے تھے کہ اب صبح ہو گئی ہے اور انھیں بہت بھوک لگ چکی ہے۔ ویسے بھی گھوڑوں کو بھاگنے دوڑنے اور مستیاں کرنے میں مزا آتا ہے، وہ اصطبل میں گھٹن محسوس کررہے تھے۔
آخر،بوڑھے سائیس نے اصطبل کا دروازہ کھولا۔ دروازہ چرچرایا۔ گھوڑے دروازے کی چرچرانے کی آواز سے مانوس تھے۔ انھیں پتہ تھا کہ اب وہ اصطبل سے باہر جائیں گے ۔۔۔ دریا کے ساتھ ساتھ اگی گھاس چرنے اور مستیاں کرنے کے لیے ۔۔۔ دروازہ کھلتے ہی ، دروازے کے قریب گھوڑوں میں دھکم پیل شروع ہو جاتی۔ ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ وہ سب سے پہلے اصطبل سے باہر نکلے۔
’’ارے، تم کو بہت جلدی ہے، کدھر بھاگے جا رہی ہے۔۔۔؟‘‘ سائیس نے ایک گھوڑی کو دروازے سے پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا۔
بوڑھے سائیس کا نام عالم تھا۔ اس نے ایک لمبا کوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کے ایک کندھے پر چابک اور دوسرے پر کاٹھی اور لگام وغیرہ تھے۔ عالم، گھوڑوں سے بات کرتے وقت اپنی آواز خاصی بلند کر لیتا تھا۔ اس سے، آواز میں رعب اور دبدبے کا تأثر پیدا ہو جاتا۔۔۔ مگر گھوڑوں کے لیے سائیس کے للکارنے کا مطلب بس یہی ہوتا تھاکہ اب اصطبل سے باہر جانے کا وقت آگیا ہے۔ عالم جس گھوڑی کو اصطبل سے باہر جانے پر ڈانٹ رہا تھا، ا س نے ایک اور گھوڑے سے کمر رگڑتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھنے کی کوشش جاری رکھی۔ اس کے پیچھے ایک گھوڑا، اسے دھکا دے رہا تھا۔ گھوڑی نے کچھ دیر تو اسے برداشت کیا مگر پھر ایسی جماکے دولتی ماری کہ وہ درد سے بلبلا اٹھا۔
’’لو، کر لو بات‘‘ دیکھو یہ گھوڑی کیا کر رہی ہے؟ ۔۔۔ ٹھہرو میں ابھی تمھیں سبق سکھاتا ہوں۔۔۔!‘‘ عالم نے اصطبل کے دوسرے حصے میں کھڑے اونچی آواز سے کہا۔
عالم ایک چتکبرے گھوڑے کے پاس کھڑا تھا۔ گھوڑا اصطبل کے لکڑی سے بنے ستون کو چاٹ رہا تھا۔ چاٹتے وقت اس نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ لگتا تھا کہ جیسے چاٹنے میں اسے بڑا مزا آرہا ہو۔
’’اوئے، یہ کیا کر رہے ہو؟ بند کرو یہ سب۔۔۔ بوڑھے ہوگئے مگر ابھی تک عقل نہیں آئی۔‘‘عالم نے کاٹھی اور لگام وغیرہ اس گھوڑے کے پاس رکھتے ہوئے کہا۔
گھوڑے نے ستون کو چاٹنا جاری رکھا۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے، عالم کو ایک گہری اور لمبی نظر سے دیکھا۔ وہ شاید عالم پر اپنے غصے کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔۔۔ شاید تیوری چڑھا کر، آنکھیں نکال کر بات کرنا چاہتا تھا۔ اس نے یہ سب تو نہ کیا یا شاید وہ ایسا کر نہ سکتا تھا۔۔۔ اس نے ایک جھری جھری سی لی۔ اس کے جسم کا ایک حصہ گردن سے دم تک اس طرح کانپا جیسے جلد کے نیچے پٹھوں نے بغاوت سی کر دی ہو۔
عالم نے اس کی کمر پر کپڑا ڈالا اور کاٹھی رکھتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا:
’’کیا ہوا۔۔۔؟ سسکار کیوں لے رہے ہو۔۔۔؟‘‘
گھوڑے نے اپنی دم اوپر اٹھائی۔۔۔ شاید وہ کہہ رہا تھا:
’’نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔۔!!
عالم نے کاٹھی کے تُنگ کسے۔ گھوڑے نے اپنی کمر کو تھوڑا سا خم دیا۔اس نے تیزی سے اپنے نتھنوں سے سانس چھوڑی۔ اس نے اپنے کان پشت کی طرف کیے ہوئے تھے۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ وہ شاید سواری کروانے کے لیے تیار نہ تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کی ناراضگی سے کچھ بھی ہونے والا نہیں۔۔۔ تاہم وہ اپنے جی پر پڑے بوجھ کا اظہار ضرور کرنا چاہتا تھا۔ جب کاٹھی کس دی گئی تو گھوڑے نے اپنا ایک پاؤں آگے کی طرف بڑھایا۔ یہ پاؤں سوجا ہوا تھا۔ وہ اسے چاٹنے لگا۔
عالم نے رکاب پر پاؤں رکھا اور گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ اس نے چابک کو اپنے کندھے سے اتارا۔ لمبے کوٹ کو اپنے نیچے کا ٹھی پر اور گھٹنوں پر سیدھا کیا اور ماہر سائیس کی طرح تن کر بیٹھ گیا۔ اس نے لگام کو ہلکا سا جھٹکا دیا۔ گھوڑے نے اپنا سر اوپر اٹھایا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اب وہ چلنے کے لیے تیار ہے۔ گھوڑے نے کوئی حرکت نہ کی۔ اسے پتہ تھا کہ چلنے سے پہلے ابھی عالم نے کافی شور شرابا کرنا ہے۔ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں پر رُعب جھاڑے گا۔ انھیں چیخ چیخ کر کام کرنے کے لیے کہے گا۔ واقعی ایسا ہی ہوا۔ عالم نے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھتے ہی اصطبل کو سر پر اٹھا لیا:
’’اوئے نذیرے، کیا تم نے بچوں والی گھوڑیوں کو ان کی کوٹھڑیوں سے نکالا کہ نہیں۔۔۔ تم ہر وقت سوئے ہی رہتے ہو۔۔۔ چلو، دروازہ کھولو اور پہلے بچوں والی گھوڑیوں کو باہر نکالو۔۔۔‘‘
دروازہ پھر چرچراہٹ کرتا ہوا، کھلا۔ دروازے کے پاس نذیر، سُکڑا سُکڑا اپنے آپ کو سمیٹتا ہوا، آدھا جاگا اور آدھا سویا ہوا، گھوڑے کی لگام پکڑے کھڑا تھا۔ گھوڑے تیزی سے دروازے میں سے گزرتے جا رہے تھے۔ کبھی تو یہ ایک ایک کر کے گزرتے اور جب کبھی وہ اکٹھے دروازے میں سے گزرنے کی کوشش کرتے تو گزرنا مشکل ہو جاتا۔ وہ اپنی گردنیں ایک دوسرے کی گردنوں پر ٹکائے، ایک دوسرے کے بدن کے ساتھ ترچھے چپکے ہوئے ، دروازے میں سے گزرنے کی کوشش کرتے۔ جو گھوڑا دروازے کے پَٹ کے ساتھ گھسٹتا، وہ فوراً پیچھے کی طرف سِرک جاتا۔ اس طرح جگہ بن جاتی اور باقی گھوڑے دروازے میں سے گزر جاتے۔ بچوں والی گھوڑیاں پہلے اپنے بچوں کو دروازے سے گزارتیں اور پھر خود گزرتیں۔ الہڑ بچھڑوں نے تو اودھم مچا رکھا تھا۔ انھیں ایک پل کے لیے بھی چین نہ تھا۔ وہ اچھلتے ہوئے دروازے سے گزرتے۔ ان کی مستیوں کی وجہ سے دوسرے گھوڑوں کو سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ سیدھے دروازے سے گزرنے کی بجائے ، دروازے کے پاس پڑے گھاس کی طرف لپکتے، گھاس پر منہ مارتے اور ایک آدھ تنکا منہ میں اٹھا لیتے۔ ان کو دروازے کی طرف جاتے ہوئے یہی لگتا تھا کہ وہ سیدھے دروازے میں سے گزر جائیں گے مگر ہوتا یہ تھا کہ وہ دروازے کی سیدھ میں اچھلتے ہوئے ،ایک دم مڑ کر گھاس پر منہ مارنا شروع کر دیتے۔ دروازے میں سے گزرتے وقت وہ اکٹھے، ایک دوسرے میں گتھے ہوئے گزرنے کی کوشش کرتے۔ کئی دفعہ وہ تعداد میں اس قدر زیادہ ہو جاتے کہ ان میں سے کوئی بھی دروازے سے گزر نہ پاتا۔ سب اکٹھے دروازے میں پھنس جاتے۔۔۔ پھر دھینگا مشتی شروع ہو جاتی۔ وہ بغیر سوچے سمجھے آگے کی طرف زور لگاتے مگر آگے کھڑا بچھڑا، اس سے آگے کھڑے بچھڑے کے ساتھ اٹکا ہوتا تھا۔ اس طرح آخری گھوڑا دروازے کے پٹ کے ساتھ چپکا ہوتا۔ آخر اس دھینگا مشتی کا خاتمہ یا تو سائیس چابک کے استعمال سے کرتا یا پھر زور آزمائی میں کوئی ایک بچھڑا نیچے گر پڑتا اور باقی بچھڑوں کو دروازے میں جگہ مل جاتی اور وہ دروازے سے گزر جاتے۔
دروازے سے نکلنے کے فوراً بعد، اصطبل میں سے کھلی جگہ آنے کا جشن شروع ہو جاتا۔ جوان بچھڑے اپنے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر ہنہناتے اور مستی میں کلیل کرتے ایک ہی سمت میں بھاگنا شروع کر دیتے۔ دودھ پلانے والی مائیں بھی اصطبل سے باہر تھوڑی سی آزادی محسوس کرتیں۔ وہ اپنے بچوں کو آزاد چھوڑ دیتیں۔ بچے مٹر مٹر کر پھر ماؤں کی طرف بھاگتے اور کسی بھی گھوڑی کے تھنوں سے دودھ پینے کی کوشش شروع کر دیتے۔ اسی دوران ان کی مائیں، جن کی نظریں مسلسل اپنے بچوں کا پیچھا کرتی رہتی تھیں۔ وہ ایک مدھم سی آواز سے بچوں کو اپنی طرف بلا لیتیں۔
کچھ ہی لمحوں میں اصطبل، جس میں گھوڑوں کے ہنہنانے اور پھنکارنے سے ایک رونق تھی، خاموش ہو گیا۔ اب یہاں لکڑی کے ستونوں کی قطاروں کے نیچے روندی ہوئی لید اور گھاس کے علاوہ کچھ بھی نظر نہ آرہا تھا۔ روشن، نام کے چتکبرے گھوڑے کو یہ منظر اچھا نہ لگ رہا تھا۔ اس نے اپنی گردن جھکائی اور پھر تھوڑا سا لہراتے ہوئے اسے اوپر اٹھا لیا۔ اس نے لمبی سانس چھوڑی اور گھوڑوں کے ریوڑ کے پیچھے چلنا شروع کر دیا۔
اصطبل سے باہر نکلتے ہی روشن کو دھیرے دھیرے چلتی ہوا کی خنکی بہت اچھی لگی۔
’’اب یہ بوڑھا سگریٹ جلائے گا۔۔۔!‘‘ روشن سوچنے لگا۔ اسے صبح سویرے اوس کی نمی میں سگریٹ کی خوشبو بہت اچھی لگتی تھی۔ یہ خوشبو سونگھتے ہی اسے بہت سے اچھے بُرے واقعات یاد آنے لگتے۔ عالم نے سگریٹ جلایا۔ اسے اپنے ہونٹوں کے ایک کونے میں دبایا اور کمر سیدھی کر کے بڑا اتراتا ہوا، کاٹھی کے ایک طرف جھک گیا۔ روشن کو عالم کا اس طرح بیٹھنا اچھا نہ لگتا تھا ۔اس سے اس کی کمر پر دباؤ پڑتا اور اسے تکلیف ہونے لگتی۔ مگر روشن سوچتا:
’’میں کر بھی کیا سکتا ہوں؟ اپنی کمر پر سوار عالم کو گرانے سے تو رہا۔۔۔ اب اس کی خوشی کی خاطر تکلیف تو برداشت کرنا ہی ہوگی۔ پھر یہ تکلیف کوئی نئی بات بھی تو نہ تھی۔ اب تو تکلیف اٹھانے میں لذت سی آنے لگی ہے۔۔۔ چلو، بڑے میاں، تم اترالو، میری خیر ہے۔۔۔ پتہ نہیں جو لوگ اپنے اندرسے کمزور ہوں، وہ اترانے پر کیوں خوش ہوتے ہیں۔۔۔؟‘‘
روشن، سوچ رہا تھا اور اس کی وجہ سے اس کی چال میں ٹھہراؤ سا آگیا تھا۔ اس کی ٹانگیں ٹیڑی تھیں ا ور وہ بڑی احتیاط سے سڑک کے بیچ چل رہا تھا۔
2
اصطبل سے نکلنے والی سڑک، تھوڑے سے فاصلے کے بعد دریا کے ساتھ ساتھ چلنا شروع ہو جاتی تھی۔ دریا کے ساتھ گھاس کا ایک کھلا میدان تھا، جو جنگل کے ساتھ جا ملتا تھا۔عالم نے گھاس کے میدان کے اندر پہنچتے ہی، روشن کو رکنے کا اشارہ دیا۔ وہ گھوڑے سے اترا۔روشن کے اوپر لگی کاٹھی اور لگام اتار کر اسے چرنے کے لیے کھلا چھوڑ دیا۔ کھلا چھوڑنے سے پہلے عالم نے روشن کی گردن پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرا۔ روشن کو بڑا مزا آرہا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر لیں اور ہولے ہولے دائیں سے بائیں اپنا سر ہلانا شروع کر دیا۔
’’تمھیں خدمت کروانا بہت اچھا لگتا ہے، ہے ناں۔۔۔!‘‘ عالم نے روشن سے کہا۔ روشن نے ہاں میں ہاں ملانے کے لیے اپنا سر عالم کے کندھے کے ساتھ رگڑنا شروع کر دیا۔ اچانک، روشن کو اس وقت پتہ چلا جب لگام میں لگا لوہا، اس کی کمزور ٹانگوں پر لگا۔ وہ درد سے بلبلا اٹھا۔ روشن سخت حیران ہو گیا کہ ابھی عالم، کیسے پیار سے باتیں کر رہا تھا اور اچانک اس نے کیسی بے دردی سے لگام دے مارا۔ شاید وہ روشن کو بے تکلف ہونے کی سزا دے رہا تھا۔ روشن درد سے کلبلاتا، دریا کی جانب چلنے لگا۔ عالم دریا کے ساتھ پڑے ایک لمبے سے سوکھے تنے پر جا بیٹھا۔ یہی اس کی پسندیدہ جگہ تھی، جہاں بیٹھے وہ گھوڑوں پر نظر رکھتا تھا۔
روشن کو درد توہو ہی رہی تھی۔ وہ درد سے زیادہ بے عزتی محسوس کر رہا تھا۔ اس نے درد کو خاموشی سے برداشت کر لیا اور کسی قسم کی ہو، ہائے نہ کی۔ مگر اس کے دل کو جو چوٹ لگی، اس سے اس کے پورے جسم میں ایک سناٹا برپا ہو گیا۔ اس کا دماغ سن سا ہو گیا۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے، کدھر جائے۔ وہ دُم ہلا رہا تھا اور دریا کی جانب کسی ارادے کے بغیر چلتا جا رہا تھا۔ وہ راستے میں کبھی کسی پتھر کو سونگھتا، پھنکارتا اور پھر گھاس کے چند تنکے منہ میں اٹھا کر، پھر پھینک دیتا۔ وہ یہ سب حرکتیں، اپنے ذہن پر تکلیف کا احسا س کم کرنے کے لیے کر رہا تھا۔
روشن کے ارد گرد نوجوان بچھڑے ،اپنی عادت سے مجبور، صبح کی خنکی میں خاصے خوش تھے اور ایک دوسرے سے شرارتیں کرنے میں مصروف تھے۔ روشن، اپنے آپ میں مگن، ان بدمعاشوں کے طرف دھیان دیے بغیر، دریا کے ساتھ کم ڈھلانی جگہ کی طرف جا رہاتھا۔ وہ صبح سویرے دریا پر جا کر پانی پینا چاہتا تھاتاکہ اس کے ذہن پر چھائی ذلت کی تپش کچھ کم ہو جائے۔ وہ دریا میں اس جگہ پہنچا جہاں دریا کا پانی، زمین کی سطح کے قریب تھا۔ اس نے اپنے پھٹے ہوئے لبوں کو پانی پر رکھا اور لمبے لمبے گھونٹ لے کر پانی پینے لگا۔ پانی پیتے وقت وہ اپنی چھوٹی سی، بالوں کے بغیروالی دم ہلا رہا تھا۔ اتنے میں ایک جوان گھوڑی ، پانی کے بہاؤ کے اوپر والی طرف، دریا سے پانی پینے لگی۔ وہ دراصل پانی پینے کے بہانے، روشن کی طرف بہتے پانی کو گدلا کر رہی تھی۔ روشن نے اس کی طرف دیکھا تو ضرور، مگر کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ کیا۔ وہ اس وقت تک کافی پانی پی چکا تھا۔ روشن پانی پینے کے بعد میدان کی طرف منہ کر کے، بڑی احتیاط سے چن چن کر گھاس کھانے لگا۔ اب صبح کی ذلت کا اثر کچھ کم ہو چکا تھا۔ اس نے بڑے اطمینان سے قریباً تین گھنٹے جی بھر کے گھاس کھائی۔ اس کا پیٹ بھر گیا اور پیٹ پسلیوں کے نیچے اناج سے بھری بوریوں کی طرف لٹکنے لگا۔ اسے اپنی ٹانگوں پر وزن بڑھ جانے کا احساس ہوا۔ اس نے اپنی کمزور ٹانگوں پر اپنے پیٹ کا وزن متوازی کیا اور کچھ دیر کھڑا رہا۔ اس کی ٹانگوں میں ہمیشہ ہی درد رہتا تھا۔ خاص طور پر اس کے سموں کے اندر اسے بہت زیادہ تکلیف رہتی تھی۔ روشن کو غنودگی سی ہونے لگی۔ وہ بڑی آہستگی کے ساتھ لیٹا اور پھر سو گیا۔
بڑھاپا، بعض اوقات بڑی شان والا ہوتا ہے اور بعض اوقات بہت ہی بدصورت اور قابل رحم۔ روشن کا بڑھاپا بدصورت بھی تھا اور اس میں ایک شان بھی تھی۔ وہ اونچے قد والا، عام گھوڑوں کے مقابلے میں خاصا لمبا گھوڑا تھا۔ اس کے جسم پر پیدائش سے ہی بڑے بڑے کالے دھبے تھے۔ یہ دھبے اب، بڑھاپے میں گندے سے بھورے رنگ میں تبدیل ہو گئے تھے۔ ایک دھبہ، اس کے سر پر آنکھوں کے نیچے سے شروع ہوتا تھا اور آڑھا ترچھا ہوتا ہوا گردن کے آخر تک جا پہنچتا تھا۔ اس کی گردن پر بال لمبے اور خوبصورت تھے مگر داغ کی وجہ سے کہیں بھورے، کہیں سیاہ اور کہیں سفید ہوگئے تھے۔ دوسرا نشان، اس کی کمر کے اوپر گردن کے ساتھ ملے حصے سے شروع ہوتا تھا اور جسم کے دونوں طرف تتلی کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ تیسرا نشان، اس کی پچھلی ٹانگوں کے اوپر رانوں سے شروع ہوتا تھا او رپیٹ کے بائیں طرف پھیلا ہوا تھا۔ روشن کی دُم جوانی میں خاصی لمبی تھی اور اس پر بہت سے بال تھے۔ دم کا اوپر والا حصہ سفید اور نچلا حصہ چتکبرا تھا۔ اس کا منہ لمبوترا اور آنکھوں کے خانے گہرے معلوم ہوتے تھے۔ ہونٹوں پر کالے نشان تھے اور یہ لمبے تھے۔ اب یہ پھٹے ہوئے تھے اور لٹکے رہتے تھے۔ لٹکنے کی وجہ سے خستہ، پیلے دانت بخوبی دیکھے جا سکتے تھے۔ گردن اب بہت کمزور ہو چکی تھی۔ گوشت کم ہو جانے کی وجہ سے یہ لکڑی کی بنی معلوم ہوتی تھی۔ لٹکے ہوئے ہونٹوں کے اندر کالی چھدی ہوئی زبان تھی۔ ایک کان کٹا ہوا تھا اور سیدھا رہنے کی بجائے ایک طرف جھک گیا تھا۔ یہ کبھی کبھار حرکت کرتاتھا مگر اس کی حرکت میں وہ پہلے سی چستی نہ رہی تھی۔ ماتھے کے اوپر بالوں کا گچھا خاصا لمبا اور گھنا تھا، جو دونوں کانوں کے درمیان ماتھے پر لٹکا رہتا تھا۔ ماتھے کا وہ حصہ جو بالوں میں چھپا ہوا نہیں تھا، غیر ہموار اور بوسیدہ نظر آتا تھا۔ اس کے جبڑوں پر جلد لٹکنا شروع ہوگئی تھی۔ گردن پر خون کی رگیں، الجھی الجھی، گچھا نما معلوم ہوتی تھیں۔ گردن پر مکھی بیٹھتی تو ان میں عجیب سی جھرجھری سی پیدا ہو جاتی۔ روشن کے چہرے اور چال ڈھال کو چند لمحوں کے لیے دیکھ لیں تو فوراً احساس ہو جاتا تھا کہ وہ کوئی سخت جسمانی اذیت برداشت کر رہا ہے۔ اس اذیت کو برداشت کرنے میں نہ تو وہ ہائے وائے کرتا تھا اور نہ ہی کسی کی ہمدردی کی مانگ کرتا تھا۔ بس چپ چاپ اسے برداشت کرتا رہتا تھا۔
روشن کی اگلی ٹانگیں کمان کی طرح ٹیڑھی ہوگئی تھیں۔ اس کے اگلے دونوں سموں میں سوزش تھی۔ گھٹنوں پر بھی سوزش تھی اور یہ پھول چکے تھے۔ پچھلی دونوں ٹانگیں کسی قدر بہتر تھیں مگر رانوں کے اوپر والا حصہ کاٹھی اور بگھی کھینچنے اور سامان اٹھا اٹھا کر مسلا جا چکا تھا اور اس پر بال ختم ہو چکے تھے۔ یہاں جلد جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی اور زخموں سے پانی سا رستا رہتا تھا۔ اس کا جسم اس قدر کمزور ہو چکا تھا کہ ٹانگیں اس جسم کے حساب سے کچھ زیادہ ہی لمبی ہوتی تھیں۔ بدن ، ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اور پسلیوں کو الگ الگ گنا جا سکتا تھا۔ پسلیوں کے درمیان خلا تھا اور ہر پسلی دوسری سے نمایاں اور الگ نظر آتی تھی۔ اس کی کمر پر کئی زخموں کے نشان تھے۔ کچھ تو ٹھیک ہو چکے تھے اور کچھ ابھی تک پیپ سے بھرے ہوئے تھے اور ان سے پیپ رستی رہتی تھی۔ کمر پر جہاں سے دم شروع ہوتی تھی، وہاں انسانی ہاتھ کے برابر زخم کا نشان تھا۔ اس پر سفید بال اُگ آئے تھے۔ ایک گہرا زخم ، شانے پر تھا اور اس پر سے رستا ہوا مواد لگاتار بہتا رہتا تھا اور ٹانگ پر اس کے لیے ایک راستہ سا بن گیا تھا۔
روشن کا بڑھاپا اذیت ناک تھا، وہ کمزور ہو چکا تھا اور ہر دم سخت تکلیف میں رہتا تھا۔ کوئی شخص جو گھوڑوں کے بارے میں تھوڑا بہت بھی جانتا تھا، روشن کو دیکھ کر ضرور کہتا کہ یہ اپنی جوانی میں ایک شاندار گھوڑا ہوتا ہو گا۔ ایسے چوڑے چکلے جسم، بڑے بڑے سم، خوبصورت آنکھیں، نازک ٹخنے، لمبی اور شاندار سڈول گردن، نازک جلد اور خوبصورت بال۔۔۔ ایسی نسل کے گھوڑے پورے ملک میں شاید چند ایک ہی ہوتے ہوں گے۔
یہ بات واقعی درست تھی کہ روشن کی چال ڈھال اور شخصیت میں کوئی ایسی بات ضرور تھی جو اسے سب سے الگ اور پروقار بناتی تھی۔ اس میں سب گھوڑوں سے الگ ایک خاص قسم کی خود اعتمادی تھی۔ اس کی طبیعت میں برداشت کرنے کی بے پناہ صلاحیت تھی۔۔۔ یہی صلاحیت اور طبیعت میں سکون۔۔۔ اس کی خوبصورتی اور طاقت تھی۔ یہ دُکھ کو شان سے جھیلنے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔
روشن ایک بوسیدہ عمارت کی طرح دریا کے ساتھ پھیلی چراگاہ میں کھڑا تھا۔ ایسی عمارت جو کبھی بہت عالی شان تھی۔ اس کی گرتی ہوئی اینٹوں میں اعلیٰ نقاشی کی جھلک بدستور قائم تھی۔ اس کے ارد گرد جوان گھوڑے اپنی مستانہ سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ روشن ان سے الگ تھلک ، اپنی دنیا میں مگن کھڑا تھا۔