کالمز

آر وائی ایف اپنے اسلاف کے نقش قدم پر

پہاڑی سلسلوں کے درمیاں شیرِ دریا دریائے سندھ کے دائیں بائیں جانب برندو نالہ سے لیکر شہید پل تک بل کھاتی زک زک گلگت سکردو روڈ جو زیادہ تر سنگلاخ چنٹانوں کو کاٹ کر بلتستان کے عوام کیلے سہولیات بہم پہنچانے کیلے بنائی گئی ہے اس سڑک پر جب آب رات کے اندھیرے میں ملک کے دیگر شہروں کی طرف ہو یا خطہ گلگت بلتستان کے مختلف وادیوں اور علاقوں کی طرف آپ کو راہ سفر میں شہید پل سے لیکر بولاچی اور شاہ ٹوٹ تک کبھی چوٹیوں پر کبھی میدانوں میں اور کبھی نالوں کے مابین جگنو چمکنے کی طرح چھوٹی چھوٹی روشنی نظر آتے ہیں جسے دیکھ بجا اوقات انسان ششدر رہ جاتے ہیں اور حیرانگی کی عالم میں اپنے آپ سے ہم کلام ہوتے ہوئے کہنے لگتا ہے اے مالک کوں ہے جو ان پہاڑوں کے درمیان زندگی گزار رہے ہیں۔ بلتستان کے لوگوں کیلے تو یہ کوئی انوکھی بات یا حیران کن معاملہ نہیں کیونکہ بلتستان کی اکثر وبیشتر آبادی دیہاتوں اور بالائی علاقوں پر مشتمل ہیں مگر تعجب اور حیران کن ان کیلے ہیں جو پہلی بار بلتستان آرہے ہیں ان پہاڑوں کے بیجوں بیج وادی جیسے ماضی میں رنگ یول اور موجودہ دور میں روندو کہا جاتا ہے۔

شاہراہ ریشم سے عالم برج کے مقام سے جب بلتستان کا رخ کرتے ہیں تو وہیں سے تنگ اور خطرناک راستے شروع ہوتے ہیں اور پہلی بار آنے والے سڑک کے عیں لب پر شیر دل دریا دریائے سندھ کی ٹھاٹھیں مارتے ہوئے لہریں اور قاتل بنھور ،سینکروں میل کھائی اور سڑک کے دونوں جانب پہاڑوں کو دیکھ کر کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگتے ہیں اکثر مسافر ان پر خطرصورت حال سے  بچنے کیلے اپنی آنکھیں موڑ لیتی ہیں یا آنکھوں پر رومال یا پٹی باندھ لیتے ہیں واقعاً یہ منظر کوئی مبالغہ آرائی یا خوف پھیلانے سے مطلب نہیں بلکہ حقیقت پر مشتمل ہے اور اسی بنیاد پر اکثر روندو کےخوبصورت علاقے ملک کے دیگر شہریوں کی بات اپنی جگہ بلتستان کے زیادہ تر باسیوں کے نظروں سے اجھل ہیں اور وہ لب سڑک دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ روندو میں پر خطر راستے، ٹیلے، ڈھلواں، اور کئی چھوٹے بڑے گاؤں جو سڑک سے نظر آتے ہیں کے سواء کچھ نہیں حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ روندو کی اکثر آبادی نالہ جات پرمشتمل ہیں اور ان نالہ جات کی خوبصورتی کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کے زیادہ تر علاقے سوئزرلینڈ سے کم نہیں مختلف کتابوں اور مجلوں میں  موجود مختلف کہانیوں میں دنیاءکے حسین و جمیل وادیوں اور شہروں کے بارے میں جو الفاظوں کی صورت میں تصاویر ہمارے زہنوں میں اتارےگئے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ روندو کے اکثر علاقے بھی انہی جہگوں اور شہروں سے کسی بھی طرح خوبصورتی کے لحاظ سے پیچھے نہیں ہاں البتہ اگر بلتستان کی گیٹ وے سب ڈویژن روندو میں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو انفراسٹریکچر کی ہے ان علاقوں کو جانے والی سڑک کی حالت زار ناگفتہ بہ ہیں اس لیے ان علاقوں میں پائے جانے والے سیاحتی مقامات کو وہ مشہوری نہ ملی جو ملنی چاہیے تھی چلیں انشاءالله  امید بر خدا کہ آنے والے وقتوں میں یہاں کے قدرتی طور پر پائے جانے والے سیرگاہیں اور خوبصورت علاقے دنیاءکے نقشے پر ایک چمکتا ستارہ کی مانند نمودار ہوگا اگر ہم قدرتی حسن وجمال کے لحاظ سے اس وادی کا مطالعہ کرتے ہیں تو جہاں قدرت نے اس وادی کو قدرتی حسن سے نوازے ہیں توبلکل اسی انداز میں وہاں بسنے والے افراد بھی مہمان نواز،محبت کرنے والے اور شفیق ہونے کے ساتھ ہمت و بہادری کے لحاظ سے کسی دوسری وادی کے لوگوں سے پیچھے نہیں۔

اگر تاریخ کے اوراق پلٹایا جائے تو روندو کے باسیوں اور پرنس آف روندو کا جنگ آزادی بلتستان میں خدمات نمایاں نظر آتے ہیں انہوں نے نہ صرف روندو کو بچایا بلکہ پورے بلتستان کیلے اپنی خدمات پیش کی آج انہی کے بہادری، دلیری، اور ہمت کو ملحوظ نظر رکھ کے انہی کے سپوتوں نے ایک بار پھر اپنے حقوق کی پاسداری کیلے اپنے اسلاف کے کارناموں کو یاد رکھنے انہیں خراج عقیدت پیش کرنے اور ان شخصیات کی کارناموں کو دنیاءکے سامنے رکھنے کیلے اپنی ماضی کو سامنے رکھ کرنوجوانوں پر مشتمل ایک تنظیم قیام عمل میں لائی ہے جو چار سال سے زائد عرصے سے علاقے میں ہونے والےناانصافیوں، ظلم وزیادتیوں، عوامی مسائل اور مختلف محکموں میں ہونے والے نا ہمواریوں کے خلاف ایک منظم طریقے سے تحریک چلانے اور ان اداروں کے سربراہان وسیاسی سماجی شخصیات سے ان کے ادراک کیلے ایم ملاقاتیں کرنے کے ساتھ ساتھ روندو کے نوجوانوں کو مختلف فیلڈمیں آگے بڑھنےکیلے کیرئیر کوسلنگ اور گائڈنس کا بھی اہتمام کرتے ہیں روندو کے نوجوانوں کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ گلگت بلتستا میں سب سے پہلے معاشرے میں ہونے والے نا انصافیوں، اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے کیلے نوجوانوں پر مشتمل یہ فورم قیام عمل میں لائی اس فورم نے نامساعد حالات اور مشکلات کے باؤ جود بہت سارے ایشو پر آوز اٹھائی اور مختلف روخ سے آنے والی طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے جگہ پر چٹان بن کر رہے ان کو ناکام بنانا اور انہیں اپنی مشن سے ہٹانا کیسے ممکن تھا کیونکہ اس فورم کے ممبران جنہوں نے اپنی آنکھیں ان سنگلاخ چٹانوں کے بیج کھولی تھیں اور انہیں اپنے مقصد میں کامیابی کیلے ڈٹے رہنے کی عادت تھی ایسے میں یہ معمولی معمولی طوفاں کچھ نہیں کر سکتے۔بہر حال جب اس کی بنیاد ڈالی جارہی تھی ایسے میں مختلف آرائیں سامنے آئیں اور بہت سارے دوستوں نے ناکامی کی خدشات بھی ظاہر کی مگر جب نیت صاف اور مصمم ارادہ ہو تو کامیابی قدم چومتی ہے اور آج الله  کے فضل وکرم سے کامیابی کی منازل طے کر رہے ہیں ۔یہان میرے قاریں شش وپنج میں ہوگا کہ یہ کونسی تنظیم ہے جو دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے اکثر قاری جن کو ان کے کارنامے اور کارکردگی معلوم ہے وہ تو سمجھ ہی گئے ہوں گے لیکن ان قاریں میں مزید سسپنس پیدا نہیں کروں گا۔جس تنظیم کے حوالے سے بات ہورہی ہے یہ کوئی مختلف اداروں سے فنڈ لینے یا کسی کے سامنے چندہ کیلے ہاتھ پھیلانے والی تنظیم نہیں بلکہ بغیر کسی فنڈ اور چندہ کے ان تنظیمون سے بڑھ کر معاشرے میں کام اور عوام کے مسائل حل کرنے والی تنظیم ہے جو ہمہ وقت عوام کی آواز کو ایوانوں تک پہنچانے اور دیگر بہت سارے کام کرنے کیلے بغیر کسی پیسے کے تیار رہتے ہیں میری اس بات سے یقیناً پڑھنے والے ضرور سوچ لیں گے کی آج کے اس پر آشوب دور میں بغیر کسی پیسے اور فنڈ کے یہ کیسے ممکن ہے ۔۔؟مگر یہ بات اظہر المنشمس ہےکہ اگر آپکی نیت صاف ہو اور دِکھا وے کے بغیر فی سبی اللہ عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنا کر میدان میں قدم رکھیں تو کامیابی دینے والا وہ خالق لم یزل ہے جس کے قبضہ قدرت میں ساری کائنات ہے۔ خداوند متعال کے فضل وکرم سے عرصہ چار سالوں سے زائد کے عرصے میں اس تنظیم نے ایسے ایسے کار نامے انجام دیے ہیں جو اس تنظیم کے ممبران خود بھی نہیں سوچ سکتے تھےمگر بات پھر وہیں آکر رکتی ہے کہ اگر کمٹمنٹ اور ایمانداری سے کام کریں تو کوئی بھی مشکل نہیں۔ یہ صرف اور صرف نوجونوں پر مشتمل وہ پلیٹ فارم ہے جس کے بعد پورے گلگت بلتستان کے نوجوں نے ان کی پیروی کرتے ہوئے اپنے اپنے علاقوں میں متحد ہونا شروع ہوئے یہ قابل تقلید تنظیم نہ مزہبی ہے اور نہ سیاسی یہ روندو کے جوانوں پر مشتمل تنظیم روندو یوتھ فورم ہے۔یہ فورم روندو کے عوامی مسائل کے حل کیلے دن رات مصروف عمل ہے اور اس فورم کی کامیابی میں نہ صرف  روندو کے نوجوں کا ہاتھ ہے بلکہ روندو کے علمائے کرام، سیاسی نمائندے، عمائدیں، بزرگ، تاجر حضرات، اساتذہ کرام، ہماری مائیں بہنیں، مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں خدمات سر انجام دینے والی شخصیات سمیت گلگت بلتستان کے صحافت سے وابستہ صحافی برادری اور اخباری مالکان کے کردار بھی قابل زکر ہیں جنہوں نے ہمیشہ رہنمائی کرتے ہوئے اس فورم کی بقاء اور ترقی میں اپنے حصّے کا شمع جلائے ان حضرات کا اس فورم سے تعاون اور نگرانی کا مین مقصد اس فورم کا کسی مزہنی اور سیاسی تنظیم سے وابستہ نہ ہونا ہے روندو یوتھ فورم نے ہمیشہ سیاست اور دیگر چیزوں سے بالا تر ہوکر صرف اور صرف عوامی ایشو پر آوز بلند کی خصوصاً روندو میں تعلیم اور صحت کے شعبے میں بہتری لانے میں ہمیشہ کردار ادا کیا اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے اس مقصد کو سامنے رکھ کر اس فورم کو مزید فعال بنانے کیلے ممبر سازی مہم کا آغاز کیا ہے اور اس سلسلے میں روندو کے باشعور افراد اور نوجوانوں سے اپیل کی کی جاتی ہے کہ اس ممبر سازی مہم کو کامیاب بنانے میں ہمارے ہاتھ مضبوط کریں اورآروائی ایف کا حصہ بنیں تاکہ آپ لوگوں کی سرپرستی میں یہ ایک مضبوط فورم بنے اور روندو جیسے بلتستان کا گیٹ کا اعزاز ہے واقعاً حقیقی معنوں میں گیٹ وے بنے اور مختلف شہروں،ملکوں اور خطوں سے آنے والے مہمان اس گیٹ کو دیکھر بلتستان کے بارے میں ایک مثبت تاثر لیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button