افسروں کی صفوں میں واحد گوہرنایاب
لمبی داڑھی والا وہ شخص جب اندر آیاتو لگ رہاتھا کہ بہت معزز کوئی فرد ہے ۔ اسکے ہاتھ میں ایک فائل تھی ۔کرسی پر بیٹھتے ہوئے فائل میں سے ایک صفحہ نکال لیا۔ غالبا وہ ایک درخواست تھی جو کسی کی سفارش کے غرض سے لائی گئی تھی ۔سرکاری آفیسر نے مصافحہ کرتے ہوئے درخواست انکے ہاتھ سے لے کرسر نیچے کرکے درخواست پڑھنے لگے ۔کچھ دیر نیچے دیکھنے کے بعد انہوں نے اس معزز فرد کے چہرے پر نظریں جماکرکہا آپ نے اشتہار نہیں پڑھا کیا ؟ھم نے اشتہار میں باقاعدہ لکھ دیا ہے کہ اگر اس نوکری کیلئے کسی فرد نے سیاسی تعلقات یا سفارش کروانے کی کوشش کی تو اسکی درخواست کوئی وجہ بتائے بغیر رد کی جاسکتی ہے۔جس کی آپ سفارش کیلئے یہاں تشریف لائے ہیں وہ تو پہلے ہی میرٹ پر آیاہے پھر سفارش کی کیا ضرورت؟ ابھی میں اسکی درخواست کو ہی سرے سے رد کررہاہوں اور اسکی وجہ آپ ہونگے۔ سرکاری آفیسر کی زبان یہ الفاظ نکلنے تھے کہ وہ بوڑھا شخص منت سماجت کرتے ہوئے کچھ جذباتی الفاظ بولنے لگا تو جواب میں سرکاری آفیسر نے کھری کھری سناتے ہوئے کہا آپ اپنی رشتہ داری یا تعلق مضبوط کرنے کیلئے یہاں آئے ہیں تو کیا ہم ایک غیر قانونی کام کریں ؟ کیا ہم قانون کی بالادستی کو بالائے طاق رکھ دیں ؟ آپ چاہتے ہیں کہ آپکی خوشی کیلئے میں خود کوبدنام کردوں ؟ نہیں میں ہر گز ایسا نہیں کروں گا۔ میں اپنے اصولوں پر سودے بازی نہیں کروں گا آپ جائیں اپنا کام کریں اور مجھے اپنا کام کرنے دیں۔لمبے قد چوڑی چھاتی کے ساتھ چہرے پر چھوٹی داڑھی والا وہ سرکاری آفیسر کمشنر دیامر استور ڈویژن سید عبدالوحید شاہ تھے جبکہ جن صاحب سے انکی تلخ کلامی ہورہی تھی وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے رہنما ء اور سابقہ صوبائی وزیر تھے۔بہرحال وہ لمحہ تو گزرا مگر جب کمشنر صاحب بات کررہے تھے تو انکے چہرے پر بے خوفی اور الفاظ سے سچائی اور وفاداری عیاں تھی۔اس شخص کا گلگت بلتستان سے کوئی تعلق نہیں مگر آج بیوروکریسی میں بیٹھ کر جس طرح گلگت بلتستان کے مستقبل کیلئے فکرمندی کامظاہرہ کرتے ہوئے دکھائی دئیے میرے دل میں امید کی ایک کرن نظر آنے لگی۔کاش کہ ایسی ہی خلوص اور اپنے کام سے محبت دیگر بیوروکریٹس کے دل میں بھی پیداہوتی تو اس خطے سے سفارش اور کرپشن کا کلچر ہمیشہ کیلئے ختم ہوجاتا۔
گزشتہ دنوں کسی ذاتی کام کے سلسلے میں چلاس ضلع دیامر جانے کا اتفاق ہوا۔تقریبا ایک سال کے بعد میں چلاس جارہاتھا ۔ چلاس کے حدود میں پہنچتے ہی تبدیلی کے اثرات نئی تعمیر کردہ سڑکوں نے ظاہرکردئیے۔شہر میں داخل ہوکر جب ادھر اودھر نظریں دوڑائیں تو پرانے چلاس سے یکسر مختلف لگ رہاتھا۔وہ چھوٹے سے بازارپر مشتمل چلاس اب نئی مارکیٹوں اور بہت سی نئی شاہراؤں سمیت دیگر چیزیں اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔ چلاس میں میرا مسکن چونکہ شہر سے 15 منٹ کی مسافت پر واقع ہے۔اسلئے اچھی طرح چیزیں دیکھنے کاموقع ملا۔ایک ٹیکسی والے سے واسطہ پڑا ۔ گپ شپ میں ٹیکسی والے کی زبان سے کمشنر دیامر کے حوالے سے تعریفانہ جملوں کابار بار نکلنا میرے لئے حیران کن تھا۔ورنہ بیوروکریٹس کو کون اچھے الفاظ میں یاد کرتا ہے ۔
کمشنر دیامر و استور ڈویژن سید عبدالوحید شاہ سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔انکی گفتگو میں دیامر کے لوگوں کیلئے اپنائیت محسوس ہورہی تھی۔میرے سامنے ایک بڑے ادارے کے ذمہ دار کو بلاوجہ کام کی تاخیر پر فون کرکے کلاس لینا اور پھر چند گھنٹوں کا وقت دے کر کہنا کہ کام ہوجانے کے بعد مجھے رپورٹ دیں۔یہی نہیں ان کاکہنا تھا کہ دیامر کی آبادی کو دیکھتے ہوئے جو بجٹ مختص ہوتاہے وہ بہت کم ہے مگر ماضی میں اتنے کم بجٹ کے باوجود اس ضلع کا بجٹ واپس بھیجا جاتارہاہے۔انہوں نے کچھ نئے پروجیکٹس کے حوالے سے تفصیلی بات رکھی اور بجٹ کی صورتحال بھی ہمارے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ جو بجٹ پورے سال میں یہاں خرچ ہوناتھا اس سے تو تین بڑے پروجیکٹس بھی مکمل نہیں ہوپارہے۔ایسے میں یہاں تعلیم، صحت اور دیگر تعمیراتی کام پرخصوصی توجہ کیسے دی جاسکتی ہے۔ساتھ ہی وہ اس بات سے بہت پرامید تھے کہ نئے سال کے بجٹ میں دیامر کیلئے روایت سے ہٹ کرذیادہ بجٹ رکھنے کی یقین دہانی چیف سیکریٹری کروا چکے ہیں۔
چلاس میں برادریانہ نظام عروج پر ہے اسلئے سیاسی رہنماء بھی لوگوں کی بھرتیاں برادری کی بنیاد پر کرتے ہیں اس پوری صورتحال کو سمجھتے ہوئے کمشنر صاحب نے حل یہ نکالا کہ نئی آسامیوں کے اشتہار میں یہ بات بھی لکھوادی جائے، جو کوئی بھی سفارش بالخصوص سیاسی رہنماؤں کی سفارش کروائے گا اسکی درخواست بغیر وجہ بتائے رد کردی جائے گی۔یہ ایسا فیصلہ ہے کہ جس سے بڑے بڑوں کے پیروں تلے زمین کھسکتی نظر آرہی ہے۔
کمشنر دیامر و استور ڈویژن کی حکمت و دانائی اور خلوص نیت اپنی جگہ مگر انکے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے بڑے بڑے ٹھکیدار سردھڑ کی کوششوں میں لگے ہیں۔اسکی وجہ انکے پرانے مکمل کئے ہوئے ٹھیکوں کی چھان بین کا معاملہ اور نئے ٹھیکوں کی بندربانٹ کی روک تھام ہے ۔اب جب تک یہ کمشنر دیامر میں ہے کچھ بھی غلط ہونے نہیں دے گا ۔اس لئے ان کو ڈر ہے کہ کہیں انکی کھٹیاں کھڑی نہ ہوجائے۔انکی مخالفوں کی صف میں کچھ صوبائی اسمبلی کے ممبر ز بھی ہیں جن یہ ایک آنکھ نہیں بھاتے ۔انکے ہر فعل پر کڑی نظر رکھی جارہی ہے کہیں بھی چھوٹی سی غلطی کرے تو بہانہ بناکر وقت سے پہلے انکا تبادلہ کیا سکے۔مگر مجال ہے کہ ان سے کسی طرح کی کوئی کوتاہی ہوتی نظرآئے ۔
پچھلے کچھ مہینوں سے پورے ضلع دیامر میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرواتے ہوئے سکولوں میں داخلہ مہم شروع کی ہوئی ہے جس کے نتائج دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتاہے کہ وہ گاؤں اور قصبے جہاں بچوں کو سکولوں میں بھیجنے کا سرے سے رواج ہی نہیں تھا وہاں اب سینکڑوں بچے سکول جانے لگے ہیں۔کھنبری، ڈوڈشال،داریل تانگیر کے دوردراز علاقے جہاں عام لوگوں کا جانا ہی ناممکنات میں سے ہوتاہے وہاں کمشنر صاحب پہنچے اور وہاں بھی داخلہ مہم شروع کرکے صرف کھنبری اور ڈوڈشال میں سات سو بچے سکولوں میں داخل کروائے جبکہ داریل کے چند گاؤں میں چودہ سو بچوں کو سکولوں میں داخل کرواکر ملک و قوم کے معماروں میں اضافے کیلئے کیا خوب سامان اکھٹا کیا ہے۔وہ سکول جو کبھی پڑھنے والوں سے محروم تھے اب ان میں جگہ کم پڑ رہی ہے۔ ایسے کئی سکول جو بہت پہلے سے اسطبل بنے ہوئے تھے اب دوبارہ سے سکول بن گئے ہیں جبکہ اسطبل بنانے والوں سے سختی برتی گئی ۔
ایک تحریر میں اس فرد کے اب تک کئے گئے تمام منصوبوں اور انکے کام کو سمونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ لکھنے بیٹھ جائیں تو بات سے بات نکلتی ہے یوں بات ختم ہوتی نظر نہیں آتی لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ مختصراََ اس قابل اور بہترین فرد کے حوالے سے چند باتیں تحریر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے لوگ نسل نو کیلئے مثالیں ہوا کرتی ہیں۔ انکے کام اور خدمات کوقدرکی نگاہ سے دیکھنا چاہیے ۔دیامر کے عوام کیلئے اللہ تعالی نے ایسے بہترین افسر سے نوازا ہے لہذا انکی قدر کرتے ہوئے کمشنر دیامر کاساتھ دیتے ہوئے انکے ہر مخالف کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جانا چاہیے کیونکہ اب اگر اسکی قدر نہیں کی تو دیامر پھر سے تاریکی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈاب جائے گا اور اس وقت کوئی اس علاقے کاپوچھنے والا نہیں ہوگا۔