تضاد
تحریر: حمزہ گلگتی (پی ایچ ڈی)
سوچتا ہوں کہ ہم سوچتے کیوں نہیں؟کس مٹی کے پتلے ہیں؟کس خمیر سے بنے ہیں؟کونسی نسل کے ہیں؟کن مخلوقات میں سے ہیں؟کیوں ہم ویسے نہیں جیسے ہم کہتے ہیں؟ کیوں ہم تھوڑا سا سوچنے کی بھی زحمت نہیں کرتے ؟ کیوں ہمارے قول وفعل میں اس قدر تضاد ہے ؟ کیوں کر ہم اپنے آپ کو جھٹلا رہے ہیں؟کیسے ہم افعال کے متضاد اعمال سے دنیا کو دھوکا دے رہیں۔یہ درحقیقت دنیا کو نہیں ہم اپنے آپ کودھوکا دے رہے ہیں۔یہ لوگوں کو نہیں ہم اپنے متضاد رویوں سے اپنے آپ کو جھٹلا رہے ہیں۔ہم ویسے کیوں نہیں جیسے ہم کہتے ہیں؟ ہم ویسے بی ہئیو کیوں نہیں کرتے جو ہم بتاتے نہیں تھکتے؟ اپنے افعال و اعمال سے ہم کتنوں کو دھوکا دے سکتے ہیں؟ہمیں سوچنا چاہئیے کہ ہمارے افعال و اعمال کے تضادات دوسروں کو متأثر کرتے ہیں۔اس لئے ہمیں محتاط رویہ اپنا نا ہوگا جو ہم کہتے ہیں اور جو کرتے ہیں،یہ صرف ہمارے اپنے تک محدود نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کا اثر دوسروں پر بھی پڑتا ہے۔کسی دانا کا قول ہے کہ’’تمہارے مثبت رویوں(اعمال) اور مثبت سوچوں کے مجموعہ کا نتیجہ تمہاری کامیابی کی صورت میں ملے گا‘‘۔آج جب ہمارا سوچ مثبت نہیں،ہمارے خیالات تضادات کا مجموعہ ہو،ہمارے اعمال و افعال میں زمیں آسماں کا فرق ہو تو خاک کامیاب ہونگے ہم؟
ہمارے اجتماعی رویوں میں ایک رویہ ایسا بھی ہے،اور بہت عام ہے، کہ ہم دوسروں کو ترغیب دیتے ہیں خود وہ نہیں کرتے۔دوسروں پر تنقیص کے تیر و ترکش برساتے ہیں مگر خود بھی انہیں راستوں کو چن لیتے ہیں۔ جو راستے بوسیدہ ہیں ان راستوں پر ہم خود ٹہلتے ہیں۔جن چھتوں کو ہم خراب کہتے ہیں ان کے نیچے خود سر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن باتوں پر خود سیخ پا ہوتے ہیں ویسی باتیں دوسروں کے لئے کر کے خوش ہوتے ہیں۔دعویٰ ہمارا مسلمانوں کا اور کام سارے غیروں کے۔’’ تم مسلماں ہو ؟ جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود‘‘، اقبال نے آج سے سو سال پہلے ہمارے ہی لئے تو کہا ہوگا۔ورنہ اُس زمانے میں اتنے گئے گزرے لوگ تو خال خال ہی ملتے ہونگے۔اور آج ہر دوسرا بندہ ویسے ملے گا۔’’وضع میں تم تو نصاریٰ ہو تمدن میں ہنود‘‘۔
منافق کی نشانیا ں جس سے بھی پوچھ لے رٹہ ہونگے مگر ہم اپنے اندر ڈھوند لیں تو یہ سارے رذائل ہمارے اند ربھی بھرے پڑے ہونگے۔ہم بھی عجب مخلوق ہیں عاجزی کا درس دیتے ہیں اور اپنے گردنوں میں من من سریا لئے پھرتے ہیں۔کرپشن کی خامیاں بتا بتا کر دوسروں کو کوسنے میں تو شاید دنیا میں ہمار اکوئی ثانی ہو،مگر اپنے اپنے استطاعت کے مطابق ہم کہیں نہ کہیں ڈنڈی مار ہی لیتے ہیں،یہ بھی تو کرپشن ہے۔اگر کسی دکاندار کا کم تولنا، کسی استاد کا دیانت داری سے اپنے فرائض کی بجا آوری نہیں کرنا،کسی طالب علم کا والدین سے چھپ کر سگریٹ پینا، کسی کلرک کا دفتر کے کاغذ گھر لیجانا ، کسی آفیسر کا سرکاری گاڑی ذاتی معاملات میں یوز کرنا، کسی ڈاکٹر کا مریض کو دیانتداری سے چیک کئے بغیر دوا لکھنا،اور دوا اپنے ساز باز والی مہنگی کمپنی کا لکھنا، کسی وکیل کا جانتے بوجھتے غلط کیس لڑنا محض پیسہ بٹورنے کے لئے، کسی ڈرائیور کا کسی انجان سے زیادہ پیسے لینا، کسی ہوٹل اور دودھ والے کا کھانوں اور دودھ میں ملاوٹ کرنا،عام افراد کا قانون توڑنا ۔۔۔وغیرہ وغیرہ یہ سب بد دیانتی اور کرپشن نہیں تو اورکیا ہیں؟؟افسوس صد افسوس کہ ان سب رذائل کو تومسلماں ہو کر بھی ہم پیروی کرتے ہیں۔۔۔اور مغرب کا ہر فرد ان کو جتنا برا ،بد دیانتی اور گھٹیا مانتا ہے،اتنا ہی ان سے نفرت کرتا ہے،دور رہتا ہے اور اپنانے کی کوشش نہیں کرتا۔۔۔
’’وضع میں تم ہونصاریٰ تو تمدن میں ہنود۔۔ تم مسلماں ہو ؟ جنہیں دیکھ کے شرمائے یہود‘‘۔
ہمارا رویہ جب تک تبدیل نہیں ہوگا چھوٹے چھوٹے معاملات کے حوالے سے ،ہم ناکام ہی رہیں گے۔ اب ہم ہی بتا دے کہ محنت کا درس دے دوسروں کو ،اور خود ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظرِ فردا رہے۔رشوت دینے اور لینے والے کے جہنمی ہونے کے بارے نبی پاک ﷺ کی حدیث سب کو بتا تے رہے، مگر خود ،وقت آنے پر، یا تو مٹھی گرم کرواتے رہے یا کرتے رہے؟قرآن پاک کو نہ سمجھنے کا طعنہ دینے والے ہزار ملیں گے ،ان ہزاروں میں ایک بھی نہیں ملے گا جو قرآن پاک کو کبھی سمجھنے کی کوشش کی ہو یا کسی چیز پر عمل کرتے ہوں۔ دوسروں میں خامیاں فوراََ ڈھونڈتے ہیں مگر اپنا کچھ نظر نہیں آتا۔اسلام کے بارے میں کہتے ہیں کہ دنیا کا خوبصورت ترین مذہب ہے(الحمداللہ اس میں کوئی شک بھی نہیں)مگر اسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ہم شرماتے ہیں۔مغرب والوں کی اچھی عادات کے تعریف کرتے ہیں(اور کرنی بھی چاہئیے)مگر خود کبھی ان اچھے افعال کو اعمال بنانے کی کوشش نہیں کرتے۔یہ ہمارا دوہرا معیار ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے اور سمجھانے کی بھی۔
ہمارے ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں سے یہ بھی ہیں کہ ہم نے کبھی بھی اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی، اور دوہرا معیار اپناتے رہے ہیں۔اس لئے کہتے ہیں کہ، ’’Your words mean nothing when your actions are the complete opposite.‘‘ یعنی ’’ اگر تمہارے اعمال الفاظ کے مکمل الٹ ہیں تو ان (الفاظ)کا کوئی مطلب نہیں‘‘۔ بہتر یہ نہیں کہ وہ بات ہم کرے ہی نہ جو ہم خود نہ کر سکتے ہیں اور نہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔لہذا اِ س نئی نسل کو یہ درس دینے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم جس چیز کو برا سمجھے وہ نہ کرے جس کو اچھا سمجھے وہ کرے۔میں تو یہی سوچتا ہوں کہ ہم سوچتے کیوں نہیں؟