ہمیں علم نہیں لیکن!
تحریر:رحمت غنی داریلی
جینے مرنے کے راز کو علم نہیں صرف عشق ہی بتاتا ہے۔خطرات سے مقابلہ کرنا عشق کا مذہب ہے۔لیکن جو قوم پستی پر قناعت کرے وہی قوم چیونٹیوں کی طرح راہگیروں کے پاؤں تلے روند تی چلی جائے گی۔فطرت لہو کی ساز کا نغمہ مانگتی ہے،لیکن جو قوم محفل میں مصنوعی ساز کی آواز پر کان دھرے بیٹھی رہے گی،وہ یقیناً ہی ناکام رہے گی۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ انسان میں جوش عمل کا جذبہ موجود ہو تو تقدیر کے بھید کھلنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔جوش کردار کے بغیر موت کے بعد بھی تم زندہ نہیں رہ سکتے ہو۔انہی خیالات کی متلاطم گفتگو ادھورے ضلع داریل تانگیر کے عوام میں باہم ہو رہی تھی۔
لیڈر کو انتہائی بالغ نظر وسیع قلب مدرس کی مانند جو عوا م کی نفسیات کو پڑھ سکے ناگزیر ہے۔متعلقہ عوام غیر شعوری طور پر تذبذب کا شکار ہوگئی ہے۔کیونکہ ان کا دیرینہ خواب پورا نہ ہوسکا تھا۔
انسانی سینہ عرش معلی سے کم نہیں ہے۔تاہم انسان کا مرتبہ فرشتوں اور قدسیوں سے اسلئے زیادہ بلند ہے کہ اس کا دل سوزوگداز کے جذبے سے مالا مال ہوتا ہے۔لیکن بد نیتی کے سبب انسان سے کوئی شایان شان کام نہیں بن سکتا
بقول شاعر:کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی
یہ بے سوادی یہ کم نگاہی
دیامر کا وسیع رقبہ جہاں چار اضلاع کے قیام کا امکان موجود ہے۔ایک ہی ضلعے میں مقید چیف منسٹر حافظ حفیظ الرحمان کی حفاظت میں محفوظ ہیں۔