گلگت بلتستان سپریم کونسل کے نام سے نئے سیاسی اتحاد کا قیام، سیاسی و معاشی حقوق کے لئے جدوجہد کا عزم
گلگت ( سٹاف رپورٹر)گلگت بلتستان سپریم کونسل کے نام سے وطن دوست سیاسی اتحاد کا قیائم عمل میں لایا گیا۔ اتوار کے روز گلگت پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نو تشکیل پارٹی کے چیئر مین ڈاکٹر عباس نے کہا کہ موجودہ حالات میں قومی سوچ رکھنے والے طبقات کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور گلگت بلتستان کے عوام کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔اسی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے ہم گلگت بلتستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز اسی نتیجے اور اعلامیہ پر پہنچے ہے کہگزشتہ روزکو گلگت میں گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی وطن دوست سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں نے ایک مشترکہ اجلاس میں خطے کی سیاسی و معاشی حقوق کیلئے مشترکہ جدوجہد کرنے کیلئے گلگت بلتستان سپریم کونسل کے نام سے سیاسی اتحاد قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ اتحاد گلگت بلتستان کے عوام کے حق حکمرانی سمیت تمام سیاسی معاشی حقوق کے حصول کیلئے جد و جہد کرے گا اور خطے کے عوام کی حقیقی نمائندگی کرے گا۔ اجلا س میں عبوری کابینہ اور مجلس عاملہ تشکیل دی گئی جو خطے کے دیگر ہم خیال سیاسی شخصیات ، نوجوانوں ،طالب علموں اور محنت کش عوام سے رابطہ کرے گا۔
اجلاس نے ڈاکٹرعباس کوچیئر مین،تعارف عباس کو ترجمان ، انجینئر منظور پروانہ سینئر وائس چیئر مین،سلطان مددجنرل سیکریٹری اور طاہر ایوب کووائس چیئر مین بنایاگیا۔ ان کے علاوہ گلگت بلتستان کی معروف سیاسی قیادت مشتمل مجلس عاملہ تشکیل دی گئی۔ اجلاس میں قراقرم نیشنل موومنٹ ،عوامی ورکرز پارٹی ،گلگت بلتستان نیشنل موومنٹ ،جے کے ایل ایف ، بی این ایف ، بلور فورم اور متعدد دیگر تنظیموں کے رہنماوں نے شرکت کی۔
بی این ایف کے قائد رکن اسمبلی نواز خان ناجی احسان علی ایڈووکیٹ سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن ،انجینئر منظور پروانہ، جسٹس سید جعفر شاہ، ریٹائرڈ اے آئی جی حشمت اللہ خان صاحب رہنماء تحریک انصاف،طاہر ایوب صاحب نائب صدر مسلم لیگ ن،انجینئر شجاعت سربراہ گلگت بلتستان جمہوری محاذ،عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان اور دیگر اہم رہنماوں نے فیصلے سے اتفاق کیا اور شمولیت کا اعلان کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ اجلاس میں گلگت بلتستان کی موجودہ سیاسی صورتحال اور مجوزہ گلگت بلتستان آڈر 2018ء پرغورو خوص کیا گیا۔اجلاس میں اتفاق رائے سے مجوزہ پیکج کو سنگین مذاق قرار دے کر مسترد کیا گیا۔اجلاس کی رائے میں اس پیکج میں وہ معمولی نمائشی اختیارات بھی واپس کئے جارہے ہیں جو 2009کے آرڈر میں شامل تھے۔ یہ پیکج مسائل کے حل کا نہین بلکہ مسائل کی وجہ بنے گا۔ گلگت بلتستان کے عوام حق حکمرانی سمیت تمام جمہوری سیاسی ومعاشی حقوق سے محروم ہیں۔اجلاس کی رائے میں جموں و کشمیر کے دونوں حصوں کی طرح گلگت بلتستان 1947ء سے متنازعہ علاقہ ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے تحت پاکستان یکطرفہ طور پر گلگت بلتستان کی سیاسی حیثیت میں تبدیلی نہیں کرسکتا لیکن تصفیہ کشمیر تک خطے کے عوام کو مقامی حکومت سمیت تمام جمہوری اختیارات دینے کا پابند ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے مئی 1998ء کے فیصلے میں بھی گلگت بلتستان کی اسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے فیصلہ دیا گیا ہے کہ یہاں کے عوام کو حق جمہوری حکمرانی اور آزاد عدلیہ سے محروم نہیں رکھا جاسکتا ہے۔آج تک کے تمام پیکجز اور مجوزہ آڈر 2018ء میں ان فیصلوں کی خلاف ورزی کی جارہی ہے جس کی وجہ سے عوام میں احساس محرومی میں اضافہ ہورہا ہے۔
اجلاس میں قرار دیا گیا کہ گلگت بلتستان کے عوا م کی محرومی کا واحد حل مسئلہ کشمیر کے حل گلگت بلتستان میں آئین ساز اسمبلی کے قیام کے ذریعے بااختیار حکومت اور آزادی عدلیہ کا قیام ہے جس میں عوام کے جمہوری حقوق کی آئینی گارنٹی ہو۔یو این قرار دادوں کے مطابق دفاع ،امور خارجہ اور کرنسی کے معاملات حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہوں اور عوام کو اپنے سیاسی معاشی سماجی نظام قائم جکرنے کا جمہوری حق حاصل ہو۔
مرکزی کابینہ گلگت بلتستان سپریم کونسل کے نئے عہدیداروں کے نام کا بھی اعلان کیا۔ جس میں چیئر مین ڈاکٹر عباس ،سینئر وائس چیئر مین منظور پروانہ ،وائس چیئر مین امان اللہ ،وائس چیئر مین طاہر ایوب ،سیکریٹری جنرل سلطان مدد اورترجمان تعارف عباس ہو ں گے