تحریر:ایس ایس ناصری
آشو اس خوبصورت جگہ کو دیکھ کر طوطلے انداز میں بولنے لگی پاپا اس طرح کی خوبصورت اور حسین جگہے اس سے قبل میں نے نہیں دیکھی تھی اور نہ ہی سنا تھا مگر یہ تو میرے خالق نے فرصت سے بنائی ہے اور کتنے خوش نصیب ہے یہان بسنے والے جن کو الله تعٰلیٰ نے تمام تر قدرتی نعمات سے مالا مال کئے ہیں اور ہر وہ نعمت عطاء کی ہے جو انسانوں کی ضرورت ہے۔ نھنی آشو کی باتیں ہر کوئی غور سے سن رہے تھے وہ چپ لینے کا نام نہیں لے رہی رہی تھی اور ہر طرف نظارہ کرتے ہوئے ہر ایک چیز پر اپنی زہن اور عقل کے مطابق کمنٹس کئے جارہے تھے آشو کی باتوں سے سب حیراں تھے ایک دوسرے سے سر گوشی کرتے ہوئے بول رہے تھے کہ آشو کو دیکھ ایسے انداز میں بولی جارہی ہے جیسے خود کو سب کچھ معلوم ہو بحر حال آشو کی باتیں بڑوں کیلے مضحکہ خیز بھی تھیں اور زراسا غوار کیا تو عقل کو حیران کرنے والی بھی مضحکہ خیز اس لیے کیونکہ وہ اپنی عمر سے بڑی بڑی باتیں کر رہی تھی اور عقل حیران کن اس لیے کی اس جگہ کو لوگوں نے اس سے قبل بھی دیکھی تھی لیکن آج تک کسی نے اس پر غور نہیں کی تھی واقعاً اس علاقے کو قدرت نے بے انتہاء قدرتی نعمات سے نوازے ہیں اور اس علاقے کی سیر کرنے والے بار بار اس علاقےمیں جانے کو ترجیح دیتے ہیں ہر طرف سبزہ ہی سبزہ، چشموں اور ندیوں کی خوبصورت آوازیں، مختلف انواع کے پرندے، رنگ برنگی اَظہار اور دل کو چھو لینے والی حسین مناظر اس علاقے میں آنے والوں کیلے توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے۔
ان سب خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی اس علاقے کی سب سے آخر میں پائے جانے والا گرم چشمہ سمیت بادشاہوں کے کھیل پولو کھیلنے کیلے بنایا گیا مخملی فرش سے معمور پولو گراؤنڈ اس علاقے کی خوبصورتی کو مزید خوبصورت بنانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔میرے اکثر وہ قارئیں جنہوں نے اپنی مصروف تریں وقت میں سے وقت نکال کر اس علاقے کی سیر کی ہو وہ جاں چکے ہوں گے اور مزید اس علاقے کی سیر کرنے کیلے منصوبہ بندی بنا رہے ہوں گے لیکن ان تمام قارئیں کو مزید شش و پنج میں رکھنا نہیں چاہوں گا محترم قارئیں یہ علاقہ سوئزرلینڈ یا کوئی اور ملک میں نہیں بلکہ خطہ گلگت بلتستان کی ایک خوبصورت علاقوں میں سے ایک ہے بلتستان کے ہیڈ کوارٹر سکردو سے 62کلومیڑ شاہراہ گلگت سکردو پر باغیچہ سے تھوڑا سا آگے جاتے ہوئے ایک میدان میں آپ کو مختلف اداروں کے سائن بورڈ نصب کئیے ہوئے نظر آئیں گے اور سکردو سے گلگت جاتے ہوئے دائیں جانب جبکہ گلگت سے سکردو آتے ہوئے بائیں جانب ایک جیب ایبل سڑک جو سنگلاخ چٹانوں کو کاٹ کر زک زک اور بل کھاتی ہوئی انداز میں بنائی ہے جیسے نیچے سے دیکھ کر ہی لوگ آنکھیں بند کرتے ہوئے زبان پر استغفراللٰہ کا ورد کرتے اپنی ہاتھوں کو کانوں کو لگا دیتے ہیں اور کہتے ہیں توبہ توبہ کون جائیں اں سڑکوں سے مقابلہ کرتے ہوئے ؟؟مگر دل ہی دل میں اس خوبصورت جگہ کو دیکھنے کی مشتاق آپ کو اس نظر آنے والی پر خطر روڈ سے مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کرتی ہے اور خدا کا نام لیکر رخت سفر باندھ لیتے ہیں سخی داس سے زک زک اور بل کھاتی سڑکوں پر سفر کرتے جب اس علاقے کا سب سےپہلا گاؤں داسو پہنچتے ہیں تو دھنگ رہ جاتے ہیں اور قدرت کی شاہکار دیکھ کر بے اختیار زبان پر تم اپنے پر وردگار کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے والی قرآنی آیت کا ورد کرنےلگےلتے ہیں اور شروع شروع میں پر خطر دیکھنے والی سڑک کی خوف مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں اور قدرتی حسن کے مناظر سے لطف اندوز ہونےلگتے ہیں قدرتی مناظر فطرت سے لیس یہ علاقہ جیسے طورمک کہا اور لکھا جاتا ہے اس کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے ہر طرف ہریالی ہی ہریالی اور مخملی پہاڑ اس علاقے میں آنے والے سیاحوں کو ویلکم کرتے ہیں۔
وادی روندو کی سب سے خوبصورت اور حسین وجمیل یہ علاقہ گرمیوں کے موسم میں سوئزرلینڈ سے کم نہیں اس علاقے کے بروق دھنسہ میں پائے جانے والی پولو گراؤنڈ میں ماہ جولائی اگست میں جشن دھنسہ کے نام سے رنگا رنگ فیسٹیول منعقد کرتے ہیں جہاں روندو کےمختلف علاقوں سے پولو کھلاڑی راجہ آف روندو کی سر پرستی میں آکر پولو کھیلتے ہیں اور خوب انجوائے کرتے ہیں یہ فیسٹیول تقریباً عرصہ تیں چار سالوں سے جاری ہے اس سے قبل یہ پولو گراؤنڈ ویران گی کی حالت میں تھے زمانہ قدیم میں اس علاقے سے بھی پولو کھلاڑی اپنے گھوڑوں کو جولاں دیتے تھے اور بڑے جوش وجذبے سے پولو میچ ہوا کرتے تھے لیکن جب جدت آتی گئی اسی رفتار سے اس طرح کے تہوار بھی ناپید ہونے لگے اب دوبارہ اس پولو گراؤنڈ کی رونقیں بحال ہونےلگی ہیں اس پولو گراؤنڈ کی خاص خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے ایک سائیڈ پر نالہ طورمک بہتا ہے اور نالہ کے دورسری طرف اس علاقے کی نصف آبادی کے برق نگر مو اپنی دامن میں مختلف اقسام کے پھول اور اشرا در جار سمیٹے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں گراؤند کی دوسری طرف علاقہ طورمک کی آخری گاؤں سُربو والوں کی بروق جیسے رنگہ سے پکارے جاتے ہیں موجود ہے یہان بنائے گئیے گھروں کے زیادہ تر دروازے گراؤنڈ میں کھتے ہیں پولو ٹورنامنٹ کے موقع پر ان گھروں کی چھتوں سے لوگ پولو میچ سے خوب محظوظ ہوتے ہیں اور کھلوڑیوں کو خوب داد دیتے ہیں پولو میچ کے علاوہ جب ان گھروں سے لوگ شام کے اوقات نکل کر پولوگراؤند میں بیٹھک کی طرح جمع ہوتے ہیں اور مرد حضرات علاقی اور ملکی سیاسی باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ مزہبی بحث ومباحثہ میں لگ جاتے ہیں جبکہ خواتیں مشک (چھنگ ڑکیل) میں لسی بنانے اور دیگر گھریلیو کاموں کو انجام دینے میں مصروف رہتے ہیں بروق پر ہر کسی کے گھر میں تقریباً کم سےکم آٹھ سے دس ظومو اور گائے وغیرہ علاوہ بکریاں موجود ہوتی ہیں اور علاقے کی روایت کے مطابق دن میں دو ٹائم ان سے دودھ دھو کر جمع کر کے لسی اور مکھن بنا لیتے ہیں جیسے بیوجن کہتے ہیں ویسے تو ہر کسی کے گھر میں گائے اور ظومو موجود ہوتے ہیں اگر کسی کے ہاں نہیں ہے تو لوگ انہیں لسی اور مکھں پہنچاتے ہیں یہ نظام صرف اس رنگہ بروق(خلاس) کا نہیں بلکہ پورے بروق میں موجود ہے اس علاقے کی سب سے آخری بروق نگر مو ہے اور یہاں بھی لوگ گرمیوں کے سیزن میں خوب لطف اندوزی کرتے ہیں اس بروق سےتقریباً ایک گھنٹہ کی مسافت پر ایک گرم چشمے کےساتھ وسیع وعریض میدان ہے جہاں جولائی اگست میں ایک عالی شان کرکٹ ٹورنامنٹ منعقد کیا جاتا ہے جس میں یوسی طورمک کے مختلف گاؤں سے بیس سے زائد کرکٹ ٹیمیں حصہ لیتی ہے اور ایک ہفتہ تک وہیں کیمپنگ کرتے ہوئے کرکٹ کھلاڑی اور دیگر شائقیں خوف لطف اندوز ہوتے ہیں اور ساتھ اس جگہ پر پائے جانے والے گرم چشمہ سے بھی مستفید ہوتے ہیں ماہرین کے مطابق اس گرم چشمے کی پانی جلدی بیماری، خارش، بھانجپن اور دیگر کئی بیماریوں کیلے علاج ہے اسی لیے بلتستان کے مختلف علاقوں اور جہگوں سے کثیر تعداد میں مرد وزن اس گرم چشمے پر آتےہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔
علاقہ طورمک سے گلگت بلتستان کے مختلف وادیوں اور علاقوں کی طرف جانے کا بھی راستہ موجود ہے اس علاقے کی بروق ژیر گونمو سے سب ڈویژن روندو کی ہیڈ کوارٹر ڈمبوداس تھوار، پکورہ سے ضلع شگر کے باشہ، لاکھل سائیڈ سے روندو کے علاقہ ستک اور لوقپر ایریاء سے گلگت بلتستان کے ضلع نگر پہنچ جاتے ہیں ماضی میں ان راستوں سے لوگوں کا آنا جانا رہتا تھا اب اس ترقی کے دور میں صرف ٹریکنگ اور ٹور کے غرض سے جانے والے ہی ان راستوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔علاوہ ازیں اس علاقے میں پرانے زمانے کے بہت سارے آثار نمایاں طور پر موجود ہے ان میں سے سپری کھر، بنگمہ کھر، رگیا کھر، بونگری کھر سمیت اس علاقے گربہ بنسہ میں قدیم طرز کی ایک چکی جیسے لقسکوری رنٹھق یعنی ہاتھ سے پیسنے والی چکی بھی موجود ہے اس علاقے میں جہاں گرم چشمے، ندی نالے، مختلف رنگون کے پھول پائے جاتے ہیں وہاں دو جھیلیں بھی مشہور ہے ان میں سے ایک جھیل بہت مشہور ہے جیسے مقامی زبان میں خلہ رزنگ کہتے ہیں یعنی دیوتاؤں کی جھیل اس جھیل کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جو بھی اس جھیل کے کنارے پاؤں ڈالتے ہوئے پانی میں جانے کی کوشش کرے اسے جھیل کے اندر کھینچ لیتے ہیں اور جھیل میں ڈھوب جاتے ہیں اس جھیل کی لمبائی تقریباً ایک کلومیٹر اور چھوڑائی آدھ کلومیٹر سے زائد ہے اس کے علاوہ بھی کئی اور چھوٹے جھیلں بھی اس علاقے کی خوبصورتی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔قدرت نے جس انداز میں علاقہ طورمک کو حسین و جمیل بنائے ہیں اس انداز میں یہاں قدرتی معدنیات اور ادویات کیلے جڑی بوٹیاں بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں قدرتی معدنیات میں زبرجت، ٹوپاس، کرسٹل، ابرق، مارگنائیٹ، بلور، سوئیں، ایپیڈوڈ، اور دیگر کئی اقسام کےقیمتی پتھر موجود ہے یہاں کےاکثر لوگ مائیننگ کرکے ان معدنیات کو نیشنل اور انٹر نیشنل مارکیٹ تک پہنچاتے ہیں اس کے ساتھ اس علاقے میں پائے جانےنوالےقدرتی جڑی بوٹیاں بھی مختلف دوائیوں میں استعمال کیلے لے جایا جاتا ہے۔ اگر بات کرے اس علاقے کی لوگوں کی معیشیت کے حوالے سے تو اس علاقے کے زیادہ تر لوگوں کا زر معاش کھیتی باڑی، زمینداری اور اپنے زمینوں پر فصلیں کاشت کرنا ہے اور اس کے ساتھ ملازمت میں بھی اچھی خاصی افراد موجود ہے اس علاقے کی فصلوں میں گندم، جو، باجرہ، آلو، مکئی، وغیرہ مشہور ہے جبکہ پھلوں میں مختلف اقسام کی خوبانی، شہتوت، سیب، ناشپاتی، اخروٹ، وغیرہ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں اسطرح اگر یوں کہا جائے کہ قدرت نے اپنے خزانے کا منہ اس علاقے کے لوگوں کیلے کھول دیا ہے تو بے جا نہ ہوگا اور واقعاً یہان کے لوگ ان نعمات کا شکر اداکرنے کے ساتھ ان کی دیکھ بال اور اسے بڑھانے میں بھی دن رات محنت کرتے ہیں اور اپنی محنت کے زریعے علاقے میں ترقی اور خوشحالی لانے میں اتحاد واتفاق سے کام لیتے ہیں یہان کے لوگ خودی اور محنتی ہیں دن رات اپنی معیشیت کو مظبوط کرنے کیلے کام کرنے کو عیب نہیں سمجھتے۔جسطرح یہاں کے لوگ محنتی اور مشقت کرنے والے ہے اس سے بڑھ کر ملنسار اور محبت کرنے والے ہیں علاقے میں آنے والے مہمانوں سے خندہ پیشانی سے پیش آنے کے ساتھ مہمان نوازی میں لگ جاتے ہیں اور اپنے پاس موجود ہر چیز اپنے مہمانوں کیلے وقف کر دیتے ہیں۔