قلندر کی کتاب اور میراپیش لفظ
یہ جولائی دوہزار بارہ کی بات ہے جب میری ڈیوٹی گوپس یاسین میں تھی۔ ایک یوتھ کیمپ کے حوالے سے کچھ دنوں کے لیے میں ہندور یاسین میں خیمہ زن تھا۔ ایک دن میں کیمپ آفس کے باہر سبزہ زار میں بیٹھا کچھ نوجوانوں کے ساتھ کسی موضوع پر محوِ گفتگو تھا۔ اتنے میں ایک نوجوان بڑے احترام سے کمر تک جھکتے ہوئے مجھ سے ملے۔ سلام دُعا کے بعد جب اس نوجوان نے اپنا نام نیت شاہ قلندرؔ بتایا تو یقین کیجیے گا مجھے وہ نوجوان نیت شاہ کم، قلندر زیادہ لگا تھا۔ ان سے اچھی طرح بات بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے اجازت لی اور دوبارہ حاضر ہونے کا کہہ کر رخصت ہوئے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری ہوگی کہ وہ نوجوان پھر حاضر ہوئے اور ایک خوبصورت ڈائری مجھے تھماتے ہوئے کہا: ’’سر! یہ میری یادوں کا البم ہے جو شاعری کی صورت میں صفحۂ قرطاس پر اُتارنے کی کوشش کی ہے۔ آپ ایک نظر اس پر ڈال دیجئے گا۔ شاید آپ کو میرے قلندر ہونے کا ثبوت ملے۔‘‘ میں ہنسا اور دِل میں یہ سوچتے ہوئے شرمندگی محسوس کی کہ یہ شاعر کتنے حساس ہوتے ہیں شاید انہوں نے میری نظروں کی حرکت کو سمجھ لیا تھا جو مجھے نیت جان کم اور قلندر زیادہ دکھا رہی تھی۔ اس میں میرا کیا دوش؟ بعض دفعہ انسان کا حلیہ اس کے اندر تک کی کہانی بتا دیتا ہے۔
خیر! میں نے اُن کی ڈائری لی اور ابھی پہلے ہی صفحے پر تھا کہ راز کھل گیا۔ نیت شاہ قلندرؔ کسی سے مخاطب تھے
کوئی رنگیں سماں نہیں ہے ابھی
کوئی شورش یہاں نہیں ہے ابھی
زندگی پر جمود طاری ہے
کوئی جذبہ جواں نہیں ہے ابھی
اب ذرا بادل چھٹنے لگے۔ جب زندگی پر جمود طاری ہو، کوئی جذبہ جواں نہ ہو اور کوئی سماں بھی رنگین نہ ہو تو انسان قلندر نہ بنے تو کیا بنے…… لیکن نیت شاہ اس قلندری کے باوجود بھی حسین مناظر کے شاہد نظر آتے ہیں اور اُن کا دعویٰ ہے کہ
حسن اِک لاجواب دیکھا ہے
جب اُنہیں بے نقاب دیکھا ہے
دن کو بھی چاندنی بکھیرے جو
میں نے وہ ماہتاب دیکھا ہے
جب انسان حسن کا اسیر ہوتا ہے تو خود کو بھول جاتا ہے اور ہر اس بات اور وقت کو لاشعوری طور پر یاد رکھتا ہے جب جب اس سے حسن سے دوچار ہونا پڑتا ہے یا یوں کہیے کہ پہلی محبت کب، کہاں اور کس سے ہوئی تھی اور کیونکر ہوئی تھی…… ایک ایک لمحہ یاد رہتا ہے جیسے نیت شاہ قلندرؔ کو بھی اچھی طرح یاد ہے
بڑی اچھی طرح سے یاد وہ چودہ نومبر ہے
بہت گہری عقیدت سے ہم اُس دن کو مناتے ہیں
قلندرؔ کا کیا دوش…… یہ ہر ایک کے ساتھ ہوتا ہے جو دردِ دل رکھتا ہے۔ میری کتاب ’’تیری یادیں‘‘ میں جب میری ایک آزاد نظم چھپی۔ جس میں جولائی کا ذکر اور پہلی محبت کا تذکرہ تھا تو گویا یہ نظم نوجوان نسل کے دل کی آواز ثابت ہوئی۔ آپ کی دلچسپی کے لیے وہ نظم آپ کی بینائیوں کی نذر کیے دیتا ہوں
وہ سب بیتے ہوئے لمحے
جو تیرے ساتھ گزرے تھے
سنہرے مسکراتے دِن
حسیں مہکی ہوئی شامیں
نشے میں ڈولتی راتیں
تیری قربت میں جو بیتے
وہ ہر پل یاد آتے ہیں!!
وہ سارے پیار کے موسم
تیری قربت میں جو بیتے،
میں اب ان یادوں کی قربت میں جیتا ہوں
جولائی کامہینہ جب بھی آتا ہے
میرا دِل جھوم جاتا ہے
اسی پیارے مہینے میں
محبت مجھ پہ اُتری تھی
سنو! پیارے!
مجھے تم یاد آتے ہو
بہت ہی یاد آتے ہو
کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں
کہ کس کو یاد رکھنا ہے
کہ کس کو بھول جانا ہے
تمہاری یاد میں اکثر
بہت برسات ہوتی ہے
تو ایسے میں سبھی گزرے ہوئے لمحے
میری آنکھوں میں آکر رقص کرتے ہیں
وہی میں ہوں، وہی تم ہو
میری آنکھیں، تیرا چہرہ
مری دھڑکن، تری چاہت
مجھے تم یاد آتے ہو!!!
انسان جتنی بھی جمیلہ کاوشیں کریں یاعظمیٰ ارادے باندھے…… شگفتہ یادیں کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں…… بس ایک سائے کی طرح ساتھ ساتھ رہتی ہیں…… میرے بیتے دنوں کی یادیں جب کتابی صورت میں نظرنواز ہوئیں تو ’’شاید پھر نہ ملیں ہم‘‘ کی صدائے بازگشت ہر طرف سنائی دی…… مگر میں تھا اور میری یادیں تھیں کہ شاید پھر نہ ملیں ہم کے تکرار کے باوجود بھی ہم روبرو رہے، ملتے رہے، بچھڑتے رہے…… پھر ’’فکرونظر‘‘ کی نظرنوازیاں بھی یادوں کی برات میں شامل ہوتی رہیں کہ یادوں کی ایک ایسی برات جو ’’تیری یادیں‘‘ کی دسترخواں میں جامِ زیست نوش کرتی رہی…… گویا ہم سب پابہ رکاب ہیں جہاں یادیں ہوں وہاں پھول اور چاند چہرے و نرگسی آنکھیں ایسے لازم و ملزوم ہوتے ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرے کا وجود ادھورا لگتا ہے۔ اکثر قارئین کو مجھ سے شکایت ہے کہ میری تحریروں میں پھولوں اور چاند چہروں و نرگسی آنکھوں کا تذکرہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ میرے مطابق ان دو چیزوں سے محبت کیے بنا انسانیت کی معراج تک پہنچنا ممکن ہی نہیں۔ ان میں سے ایک کے بغیر جہاں تصویرِ کائنات کا رنگ پھیکا پڑ جاتا ہے تو وہاں دوسرے کے بغیر کائنات کی خوبصورتی کا تصوّر ہی نہیں کیا جاسکتا۔ شاید اس لیے یہ دونوں میرے لیے غیرمعمولی ہیں۔
نیت شاہ قلندرؔ کہاں کسی سے پیچھے رہنے والے ہیں اپنی یادوں کی دُنیا سے ہم، آپ، سب سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں
بیتے دنوں کی یادوں سے کوئی کرے سوال
کیوں روز آکے ہم کو یہ آنسو پلاتے ہیں
اسی طرح اپنی کتاب میں ایک اور جگہ کہتے ہیں
کسی کی یاد میں ہم نے کیئے مٹی کی نذر
وہ موتیوں کا بھی کچھ تو حساب ہو جائے
موتیاں کیا ہیں؟ یہ عمر عزیز یا زندگی کے وہ یادگار دن ہوتے ہیں جو کسی کی یاد میں گزر جاتے ہیں۔ زندگی کے ہزار رنگ اور ہر رنگ میں ہزار داستاں…… کبھی کبھی زندگی، جوانی، یادیں، باتیں، چہرے…… ہاں چاند چہرے اور پتہ نہیں کیا کیا…… ایک دم یادوں کی سکرین میں ایسے نمودار ہوتے ہیں کہ انسان خود کو بے بس تصوّر کرنے لگتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جی چاہتا ہے کہ وقت کی زنجیر کو کھینچے مگر ایک سعیِ لاحاصل کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ جیسے مستنصر حسین تارڑ کی سفری داستاں ’’شمشال بے مثال‘‘ ہو یا سلمیٰ اعوان کی یادیں ’’سندر چترال‘‘…… ’’ہنزہ داستاں‘‘ میں ایک چاند چہرے کی طرف سے ایک گلاس پانی کا نذرانہ ہو یا میری زیر طبع کتاب ’’یہ میرا گلگت بلتستان‘‘ کا سفرنامہ…… بس داستانیں ہی ہوتی ہیں جو زندہ رہتی ہیں باقی سب نے فنا ہونا ہے یہاں تک کہ زندگی نے بھی۔ زندگی کے اسی فلسفے پر نیت شاہ قلندرؔ اپنی کتاب ’’داغ ہائے دِل‘‘ میں کہتے ہیں
آفاتِ شب و روز سے نالاں ہے زندگی
لگتا ہے جیسے مرکبِ دوراں ہے زندگی
خالی ہیں یاں قلوب سب اُلفت کے نور سے
کیا پوچھتے ہو صورتِ زنداں ہے زندگی
ایک اور جگہ کہتے ہیں
کانٹوں کی سیج ٹھہری نیتؔ اپنے واسطے
اور اُن کے واسطے گُلِ ریحاں ہے زندگی
زندگی کی اسی بے وفائی اور جان سے عزیز لوگوں کی جدائی پر ’’ہائے باباجی!‘‘ کے عنوان سے نیت شاہ قلندرؔ نے جو نظم لکھی ہے وہ ہمیں رُلانے کے لیے کافی ہے۔ اپنے مرحوم والد سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں
جاتے جاتے کاش بابا کچھ بتا دیتے مجھے
اور پھر اِک بار سینے سے لگا دیتے مجھے
لب سے کوئی بات دِل کی تم سنا دیتے مجھے
ہاتھ سے کوئی نشانی تم تھما دیتے مجھے
جا رہا ہوں کہتے بابا اب نہ لوٹ آؤں گا کاش
خود بھی روتے اور جی بھر کر رُلا دیتے مجھے
کیوں گئے ہو یوں مجھے سوتے ہوئے میں چھوڑ کر
آپ نے ویسا بھی سونا تھا جگا دیتے مجھے
ہائے رے بابا گرا دینا ہی تھا یوں فرش پر
اتنی اُونچائی تلک پھر نہ اُٹھا دیتے مجھے
ہر ہُنر ہر کام ہر اِک بات سکھلا دی تھی کاش
اپنے بن دُنیا میں جینا بھی سکھا دیتے مجھے
چھین لینا تھا مرے بابا کو بے دردی سے یوں
میرے مالک پہلے پھر پتھر بنا دیتے مجھے
ایسے حالات سے دوچار ہوکر ہمیں قلندرؔ کی شاعری میں مایوسی کی بھی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے۔ جیسے
اب کوئی بشر مجھ کو نہ جینے کی دُعا دے
اب لمحہ کوئی مجھ کو اضافی نہ خدا دے
یوں حالتِ بسمل میں پڑا رہنے سے بہتر
ہے کوئی مرے تن سے یہ گردن ہی اُڑا دے
قلندرؔ کی شاعری میں جہاں ہمیں عشق مجازی نظر آتی ہے وہاں پس منظر میں وہ عشق حقیقی کے پرچارک بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے
ترے گلاب سے رُخسار جھیل سی آنکھیں
یہ کس پری سے مجھے واسطہ پڑا توبہ
یہ اُس کے نور کی تھوڑی سی اِک جھلک تو ہے
حسین کتنا ہوگا خود مرا خدا توبہ
کسی اور جگہ کہتے ہیں
تو نے ہی بڑھایا ہے مرا رب سے تعلق
کیا سب سے جدا طرزِ عبادت جو عطا کی
المختصر، نیت شاہ قلندرؔ ایک پُزعزم نو آموز نوجوان شاعر ہیں۔ زیرنظر کتاب ان کی پہلی کاوش ہے۔ جس پر میرے قابلِ صد احترام دوستوں، عبدالخالق تاجؔ ، خوشی محمد طارقؔ اور جمشید خان دُکھیؔ کے تأثرات یقیناًقلندرؔ کی شاعری کو اٹھان دینے کے لیے کافی ہیں۔ تینوں احباب ادبِ شمال کی شان اور مان ہیں۔ ان کی رائے سند کی حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے صرف اس کتاب کی نوک پلک درست کرنے کی حامی بھر لی تھی مگر قلندرؔ کے اصرار پر کتاب کا پیش لفظ بھی لکھنا پڑا۔ قلندرؔ کی کچھ غزلیں جہاں حلقۂ ارباب ذوق گلگت کے طرحی مشاعروں کی مرہونِ منت ہیں وہاں کچھ غزلیں میری کتاب ’’شاید پھر نہ ملیں ہم‘‘ کی زمین پر لکھی گئی ہیں اور انہوں نے بہت خوب لکھا ہے۔ کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے اُسلوبِ کریمیؔ کو مشرف بہ قلندری کیا ہے۔ زمین وہی، بحر وہی، پکار وہی، یاس وہی…… پتہ نہیں کیا کیا…… لیکن ان کا انداز اور الفاظ مختلف ہیں۔ بقول سیف الدین سیفؔ
سیفؔ ! اندازِ بیاں بات بدل دیتی ہے
ورنہ دُنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
میں اس کتاب کی اشاعت پر نیت شاہ قلندرؔ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ ’’داغ ہائے دِل‘‘ سے دو اشعار آپ کی بینائیوں کی نذر کرتے ہوئے اجازت چاہوں گا
سنگین کس قدر ہے خدایا سزائے دِل
کیا جانے کوئی خود جو نہ ہو مبتلائے دِل
اب سہنے ہی پڑینگے قلندرؔ یہ رنج و غم
جب تک ہے اس جہان میں باقی قضائے دِل
نیک خواہشات اور ڈھیر ساری دُعاؤں کے ساتھ۔
نوٹ: یہ پیش لفظ نیت شاہ قلندر کی کتاب ’’داغ ہائے دل‘‘ کے لیے لکھا گیا تھا۔ ان کی کتاب شائع ہوئی ہے۔لیکن نہ جانے اس پیش لفظ میں بعض پیراگراف کو کیوں نکالا گیا ہے۔ اس لیے پورا پیش لفظ آپ کی خدمت میں پیش کی۔ شکریہ!