بلاعنوان
تحریر۔مجیب الرحمان
دیہاتی کے گھر میں بچے کی پیدائش ہوئی۔پہلے بچے کی پیدائش تھی خوشی کی انتہا نہ رہی۔خوب جشن منایا گیا۔روایتی طور پر مبارکبادوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔مٹھائیاں بانٹی گئیں،تحفے تحائف بھی تقسیم ہوئے۔وقت گذرتا گیا دوسرے بچے کی بھی پیدائش ہوئی۔مگراس دفعہ پہلے بچے کی پیدائش سے نسبتاً کم ہی جشن منایا گیا۔الغرض جب تیسرے بچے کی پیدائش ہوئی۔تو دیہاتی نے حسب عادت نومولود کے چہرے پر نظر دوڑائی ۔اب یہ بچہ انہیں پہلے والے بچوں سے شکل و صورت میں مختلف یعنی بدصورت نظر آیا۔فورا ہی اپنی بیوی سے گویا ہوئے اور کہنے لگے کہ اب تو "کچھ بھی کرنے لگ گئی ہو”ــ یہی کچھ صورتحال گلگت میں عوامی ایکشن کمیٹی اور اپوزیشن جماعتوں کی ہوگئی ہے۔سابقہ حکومت کی جانب سے سیلف گورننس آرڈر کے تحت ٹیکسز کا نفاذ شروع ہوا تو عوامی رد عمل سامنے آنے لگا۔جن کی سرپرستی مذکورہ کمیٹی نے اپنے ذمہ لے لیا۔احتجاجی تحریکوں کا آغاز ہوا۔جس کے بعد موجودہ صوبائی حکومت کی کوششوں سے وفاقی حکومت نے ٹیکسز کے خاتمے کا اعلان کیا۔جس کے بعد متحدہ اپوزیشن/ایکشن کمیٹی کی خوب واہ واہ بھی ہوئی۔چونکہ سیلف گورننس آرڈر گلگت بلتستان پر نیا تجربہ تھا۔جس میں کافی زیادہ پیچیدگیاں اور مسئلے مسائل موجود تھے۔فہم وفراست رکھنے والوں کے بقول اس سیلف گورننس آرڈر کی کچھ شقیں آپس میں متصادم بھی قرار دی گئیں تھیں۔اس وقت کی حکومت نے اس سیلف گورننس آرڈر کو گلگت بلتستان کی شناخت اور قومی دھارے میں شمولیت کے لئے ایک زینہ قرار دیا تھا۔اور اس میں مزید بہتری کی گنجائش کا بھی کہا تھا۔ جس کے بعد موجودہ صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت نے اس آرڈر میں بہتری لانے اور عوامی امنگوں کی ترجمانی کے پیش نظر حالیہ دنوں اصلاحاتی پیکیج کے نام پر نیا ورژن متعارف کروایا۔خطے کے معروضی حالات جغرافیہ مسلہ کشمیر اور عالمی برادری کے دباؤ اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سمیت حساس معاملات کے پیش نظر مکمل صوبائی سیٹ اپ شاید ممکن نہ ہو سکا۔البتہ صوبائی سیٹ اپ کے تمام اختیارات دینے کی کوشش ضرور کی گئی ۔جو مکمل آئینی سیٹ اپ کی راہ ہموار کرنے کی ایک کڑی بھی ہے۔اپوزیشن جماعتوں اور ایکشن کمیٹی نے دیہاتی کے تیسرے بدصورت بچے کی پیدائش جیسا رویہ اپنا لیا۔اور آسمان سر پر اٹھا لیا۔احتجاج کو ازلی دشمن نے بھی اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے ٹول کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش بھی کی۔جس سے پوری دنیا میں ایک غلط تاثر بھی پھیل گیا۔دوسری جانب غیر ذمہ دارانہ احتجاج کے دوران علاقے کی روایات کو پس پشت ڈال کر ملک کے مہمان وزیر اعظم کے دورے پر اخلاقیات سے عاری نعرے بازی اور جوتے دکھانے سمیت دیگر غیر مہذب اقدامات اٹھائے گئے۔وزیر اعظم نے احتجاج کرنے والی جماعتوں سے اصلاحاتی پیکیج میں مزید بہتری لانے کے لئے تجاویز دینے اور اس پر فوری عملدرآمد کا اعلان بھی کیا۔مگر ہماری اپوزیشن بھی صرف اور صرف” میں نہ مانوں” کے رٹے لگائے جا رہی ہےـ غالب گمان یہی ہے کہ عوام دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیہاتی کی طرح ایکشن کمیٹی اور اپوزیشن سے کہہ دیں گے "اب تو کچھ بھی کر رہے ہیں”