سیاحتکالمز

غذر سیاحت کے آئینے میں 

تحریروتصاویر: کریم رانجھا

یوں تو گلگت بلتستان کو قدرت نے تمام تر رعنائیوں سے نوازا ہے لیکن وادی غذر کی خوبصورتی کی اپنی الگ پہچان ہے۔میٹھے پانی کے چشمے، ندیاں،جھیلیں اور ان میں موجود نایاب ٹراؤٹ مچھلی غرضیکہ فطرت نے اس وادی کو بیش بہا نعمتوں سے سرفراز کیا ہے۔اس وادی کی سرحدیں ایک جانب مشہور زمانہ شندور کے ذریعے خیبر پختونخواہ اور دوسری جانب اشکومن سے ہوتے ہوئے افغانستان اور دیگر وسط ایشیا ئی ممالک سے جاملتا ہے ۔غذر کو اگر ’’جھیلوں کی سرزمین ‘‘کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔جھیلیں ہی ہیں جو اس وادی کو دیگر علاقوں سے ممتاز بناتی ہیں۔ہندارپ،کھکھش،پھنڈر اورخلتی کی جھیلیں ٹراؤٹ مچھلی کے شکار کے لئے پاکستان بھر میں مشہور ہیں ۔ان کے علاوہ اشکومن اٹر لیک،قرمبر لیک کی خوبصورتی بھی دیدنی ہے۔اشکومن کے مرکزی گاؤں چٹورکھنڈ سے چار گھنٹے کی پیدل ٹریکنگ کے بعد نالہ شکارگاہ کے مقام پر تین بڑے بڑے جھیل موجود ہیں جن کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔اس مقام پر ایک جھیل جو کہ ’’لوٹ چھت‘‘یعنی بڑی جھیل کے نام سے مشہور ہے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب گرمیوں میں جھیل بھر جاتا ہے تو آس پاس کے نالوں(ہاسس،شیرقلعہ اور چٹورکھنڈ)میں بھی خوب چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔مقامی لوگ اس بات کی تصدیق یوں کرتے ہیں کہ نالہ شکارگاہ میں گلہ بانی کے پیشے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے گرمیوں کے موسم میں مکھن پیک کرکے ٹھنڈا رکھنے کی خاطر اس جھیل کے کنارے رکھا،اگلی صبح مکھن غائب تھا،کہتے ہیں کہ کافی عرصے بعد یہی مکھن کسی زیرآب سرنگ سے ہوتے ہوئے نالہ شیر قلعہ میں چشمے کے پاس سے ملا(دروغ بر گردن راوی)۔ٹیرو اور درکوت(یاسین) میں موجود چشموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جوڑوں کے درد میں مبتلا افراد کے لئے اکسیر ہے۔

غذر کے بیشتر نالے دروں کے ذریعے آپس میں ملے ہوئے ہیں،ملکی وغیر سیاحوں کی کثیر تعداد سالانہ ٹریکنگ کے لئے ان مقامات کا رخ کرتی ہے،قرمبر سے ایک جانب چیلینجی پاس واقع ہے اور شمال کی جانب افغانستان کی پٹی ہے۔مقامی لوگ گرمیوں کے موسم میں اس راستے کے ذریعے بروغل اور واخان کا رخ کرتے ہیں اور ان علاقوں سے خوش گاؤ اور دیگر مویشی سستے داموں لاکر فروخت کرتے ہیں۔

نالہ اسمبر سے ہوتے ہوئے یاسین کی جانب نکلا جاسکتا ہے ۔پھنڈر کے نالہ ہندارپ اور کھکش سے ہوتے ہوئے دیر ’’باشقر‘‘پہنچا جاسکتا ہے۔پکورہ،نلتر پاس ٹریکنگ کے شوقین حضرات کے لئے انتہائی پر کشش ہے۔

وادی غذر قدرتی حسن سے مالا مال ہے لیکن برسوں کی حکومتی عدم توجہی کے باعث اس وادی کو وہ مقام نہ مل سکا جو کہ اس کا حق بنتا تھا،اس پسماندگی کے لئے حکومت کا کوئی ایک ادارہ ذمہ دار نہیں بلکہ ہر شعبے میں غذر کو پیچھے دھکیل دیا گیا لیکن اس وقت ہمارا موضوع سیاحت کا شعبہ ہے جو بری طرح زوال کا شکار ہے،سیاحوں کے لئے قیام کا کوئی بندوبست نہیں،علاقے میں ٹوریسٹ انفارمیشن سینٹرز موجود نہیں ،پورے ضلع میں دو پی ٹی ڈی سی ہوٹلز ہیں،پرائیوٹ سیکٹر میں بھی اس پر کام نہیں ہورہا ،سرکا ری ریسٹ ہاؤسز میں ’’ریزرویشن‘‘کے بغیر داخلے کی اجازت نہیں۔گزشتہ دنوں تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والی طالبات کا وفد دورے پر آیا ہوا تھا،ان کے مقامی گائیڈ کے بقول ان طالبات کو ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس میں واش روم استعمال کرنے کے لئے بھی ’’اجازت نامہ‘‘طلب کیا گیا۔موجودہ حکومت ٹورزم کے فروغ کے دعوے توبہت کرتی ہے اگر سہولیات پر بھی توجہ دی جائے تو کیا ہی اچھا ہو۔غذر کے بیشتر خوبصورت مقامات سیاحوں کے لئے ابھی تک ’’ان ایکسپلورڈ‘‘ ہیں اور لوگ اس جانب آنا بھی چاہتے ہیں لیکن جب تک ہم انہیں مناسب سہولیات فراہم نہ کر سکیں کوئی توقع رکھنا عبث ہے۔ایمت (اشکومن) کے مقام پر جی بی سکاؤٹس کی چوکی قائم ہے جہاں سے آگے مقامی افراد کے علاوہ کسی پاکستانی کو بھی جانے کی اجازت نہیں حالانکہ انٹرنیشنل بارڈر اس چوکی سے 70کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

سال نو کے آغاز پر ’’غذر کلچرل اینڈ سوشل فورم‘‘ نامی طلبہ تنظیم نے لوک ورثہ اسلام آباد میں ’’ایکسپلور غذر‘‘ کے عنوان سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا تھا جس کا بنیادی مقصد علاقے میں سیاحت کا فروغ تھا۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان جناب حفیظ الرحمٰن نے اس تقریب سے بحثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے علاقے میں سیاحت کے شعبے کو درپیش مسائل کا ذکر بھی کیا اور حکومتی سطح پر ہونے والے اقدامات کی تفصیل بھی بیان کی ۔ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں سیاحت کے فروغ کے لئے پرائیوٹ سیکٹر کو بھی آگے آنا ہوگا۔حکومت اخوت بنک کے ذریعے علاقے کے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو بلاسود قرضے فراہم کرے گی نیز دو سے چار کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کے لئے بھی قرضہ دیا جائے گا لیکن اس اعلان پر عملدرآمد اب تک نہ ہوسکا۔

بلاشبہ سیاحت نہ صرف غذر بلکہ پورے گلگت بلتستان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتاہے۔امن وامان کی بہتر ہوتے صورتحال کے باعث سالانہ لاکھوں سیاح ان علاقوں کارخ کررہے ہیں لیکن یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ٹورزم انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ہم ان سیاحوں کو سنبھال نہیں سکتے۔گلگت سے ٹوریسٹ غذر کے بالائی علاقوں کی جانب جاتا ہے تو اس کو رات بسر کرنے کے لئے جگہ دستیاب نہیں لہذٰا وہ واپس گلگت کا رخ کرتا ہے۔صوبائی حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلے میں متعلقہ پرائیوٹ اداروں کی سرپرستی کرے،علاقے کے نوجوانوں کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا بھی انتظام کرے۔ہر تحصیل میں کم ازکم پی ٹی ڈی سی کا ایک موٹل تعمیر کیا جائے ،ہوٹلنگ کے شعبے سے وابستہ افراد کو آسان شرائط پہ قرضے اور تکنیکی معاونت فراہم کیا جائے تبھی ہم سیاحت کی انڈسٹری سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button