کالمز

التواء بریگیڈ 

تین اہم خبریں ایک ہی موضوع پر اخبارات کی زینت بنی ہیں پہلی خبر یہ ہے کہ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نے جاتے جاتے اپنی سابقہ حیثیت میں الیکشن کمیشن سے انتخابات کے التواء کی اپیل کی ہے اُن کی دلیل یہ ہے کہ جولائی کے مہینے میں ووٹروں کی بڑی تعداد حج کے سفر پر جائے گی نیز گرمی بہت ہوگی اس لئے یہ مہینہ انتخابات کے لئے موزون نہیں بلوچستان اسمبلی کے رکن اور سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی انتخابات کے التوا ء کی استدعا کی ہے خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی جانے سے پہلے وزیر اعلیٰ کے دفتر سے الیکشن کمیشن کو قانونی زبان میں زبردست خط لکھا ہے خط میں اطلاع دی گئی ہے کہ ہر چند فاٹا کو صوبے میں ضم کرنے کا ایکٹ بن چکا ہے، ہر چند صدر مملکت نے ایکٹ پر دستخط کیا ہے ، ہر چند صوبائی اسمبلی نے بھی ایکٹ کے حق میں بھاری اکثریت سے فیصلہ دیدیا ہے، ہر چند کہ فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے لئے نئے حلقہ بندیوں کا عمل شروع نہیں ہوا اور ہر چند کہ فاٹا میں بھی انتخابات قومی انتخابات کیساتھ ایک ہی دن ہونے چاہیءں اس لئے جولائی 2018ء میں ہونے والے انتخابات کو ملتوی کیا جائے اخباری اطلاعات کے مطابق عنقریب انتخابات کے التواء کے لئے ایک رلی نکالی جائے گی ریلی پر 40 کروڑ روپے کا خرچہ آئے گا یہ فنڈ ’’ نا معلوم افراد‘‘ فراہم کریں گے ریلی کے شرکاء اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہیں گے کہ پہلے احتساب ہونا چاہیئے کرپٹ سیاستدانوں کے احتساب کا عمل مکمل ہونے کے بعد انتخابات ہونے چاہیءں لاہور ہائی کورٹ نے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا عمل روکنے کے لئے حکم امتناعی جاری کیاہے اس لئے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کا کام ملتوی ہوا ہے ایک موثر گروہ کا یہ بھی خیال ہے کہ ملک اس وقت مالی بحران سے گذر رہا ہے ایسے حالات میں انتخابات پر 20ارب روپے خرچ کرنا دانشمندی نہیں ’’ پیسہ بچاؤ اپنے لئے قوم کے لئے ‘‘ انتخابات کو معاشی حالت بہتر ہونے اور کشمیر کا مسئلہ حل ہونے تک ملتوی کرو الغرض انتخابات کو ملتوی کر نے پر زور دیا جارہا ہے التواء بریگیڈ کی ان دلائل کو سُن کر مجھے اگست 1977ء کے اخبارات کی سرخیاں یاد آرہی ہیں بھٹو کی قانونی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل ضیاء الحق نے90دنوں کے اندر انتخابات کرانے کا اعلا ن کیا جنرل ضیاء الحق نے دو ٹوک الفاظ میں کہا مجھے حکومت کرنے کا کوئی شوق نہیں 90دنوں کے اندرحکومت عوام کے منتخب نمائندوں کو سپرد کروں گا خفیہ اداروں نے رپورٹ دی کہ اکتوبر میں انتخابات ہوئے تو جن کا تختہ الٹ دیا گیا ہے اُن کو دوبارہ منتخب کیا جائے گا جنرل ضیاء نے کہا یہ تو بہت گڑ بڑ ہوجائے گی مگر وہ قوم کے سامنے آکر یہ بات نہیں کرسکتا تھا اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد سے ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے تاریخ کا دھارا ہی موڑ دیا سب سے پہلے کراچی سے آواز اُٹھی کہ ’’ پہلے احتساب پھر انتخابات ‘‘ اس کے بعد اُس وقت کے صوبہ سرحد موجودہ خیبر پختونخوا سے آواز اُٹھی ’’ پہلے احتساب پھر انتخابات ‘‘ اس کے بعد اسلام آباد ، لاہور، ملتان اور کوئٹہ سے مطالبے شروع ہوئے کہ’’پہلے احتساب پھر انتخابات ‘‘ یہ مطالبے اخبارات میں آنے لگے ان مطالبات کے حق میں بینر لگائے گئے ریلیاں نکالی گئیں دو چار کروڑ روپے خرچ ہونے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی ’’ رگ سیاست ‘‘ پھڑک اُٹھی انہوں نے ریڈیو اور ٹیلی وژن پر آکر قوم سے خطاب کیا اور قوم کو نیا نعرہ عنایت فرماتے ہوئے کہا کہ 90دن کے اندر انتخابات کی بات آئین سے لی گئی تھی مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں آئین کوئی مقدس کتاب نہیں اور اکتوبر کی تاریخ پتھر پر لکیر نہیں عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ مثبت نتائج کیلئے انتخابات کو ملتوی کر کے احتساب کا عمل شروع کیا جائے چنانچہ عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے انتخابات کو غیر معینہ مدت کے تک ملتوی کیا جاتا ہے انتخابات ملتوی ہوئے اس کے بعد تاریخ کا دھارا تبدیل ہوا یہ ہماری تاریخ ہے میرے دوست پروفیسر سید شمس النظر فاطمی فرماتے ہیں کہ ہمارے لئے 1988ء میں الجزائر میں ہونے والے انتخابات میں بھی ایک سبق ہے الجزائر کی فوج امریکہ کی حامی تھی عوام امریکہ کے خلاف تھے فوج کا خیال تھا کہ انتخابات کو ملتوی کیا جائے کیونکہ انتخابات ہوئے تو ملک کی مقبول جماعت ایف آئی ایف ( FIS) بھاری اکثریت سے جیت جائے گی امریکہ کا اصرار تھا کہ انتخابات ہونے چاہیءں مگر FISکوجیتنے نہ دیا جائے فوج اپنا بھرپور کردار ادا کر کےFISکا راستہ روک دے چنانچہ انتخابات ہوئے اور پارلیمنٹ کی81فیصد نشستوں پر FIS کے اُمیدواروں کو کامیابی ملی عوام نے فیصلہ دے دیا امریکہ نے فوج سے کہا انتخابات کو کالعدم قرار دے دو جیتے ہوئے لوگوں کو کرپٹ قرار دے کر جیلوں میں ڈالومزاحمت کرنے والوں پر گولی چلاؤ اس نادر شاہی فرمان کے بعد الجزائر کی فوج نے اسمبلی توڑ دی منتخب اراکین کو جیلوں میں ڈالا اور ملک میں خانہ جنگی شروع ہوئی جس کے نتیجے میں دو لاکھ 70ہزار لوگ مارے گئے سبق یہ ہے کہ عوام اکثر اوقات امریکہ اور اپنی فوج کے اشارے کنایے نہیں سمجھتے امریکہ کی مرضی اور فوجی منشاء کے مطابق ووٹ نہیں دیتے اس لئے’’ مثبت نتائج ‘‘ کی جگہ وہی لوگ حکومت میں آتے ہیں جن کا راستہ امریکہ روکنا چاہتی ہے فوج روکنا چاہتی ہے ؂

لوگوں کو ہے آفتاب عا لمتاب کا دھوکا

میں روز دکھاتا ہوں اک داغِ نہاں اور

چنانچہ التو اء بریگیڈ کی طرف سے پاکستان میں انتخابات کے التواء کا مطالبہ خاص معنی رکھتا ہے اس معنی کو سمجھنے کی ضرورت ہے برادرم صبیح احمد صاحب نے2جون کے کالم میں غالب شعر کی طرف توجہ دلائی ہے ؂

رو میں ہے رخشِ عمر کہاں جاکردیکھئے تھمے

نے ہاتھ باگ پر نے پاہے رکاب میں

صبیح احمد صاحب کی نذر کر نے کے لئے حالب ہی کا شعر ہے ؂

غلطی ہائے مضامین نہ پوچھ

لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button