ملازمانِ حرم نے وہ تنگیاں کی ہیں
تاج النسا ء
گلگت
ایک مستند اطلاع کے مطابق چند دن پہلے ایک مقامی ہوٹل "ہنزہ کوزین” پرپولیس نے چھاپ مارا ۔ اس چھا پے کا مقصد یہ تھا کہ اس ہوٹل کو موصول ہونے والی نشہ آور اشیاء ، کو قبضہ میں لیا جا سکے۔ یہ خبر علاقے کے تمام لوگوں کے لئے باعث تشویش ہے ۔ کیونکہ کئی کوششوں کے باوجود علاقے کو شراب اور "عرق” سے نجات نہ دلا سکے جس کا افسوس ختم ہی نہیں ہوا تھا کہ اس نئے انداز کے عذاب "شیشہ ” وغیرہ کی خبریں ملیں۔
دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کل ہمارے علاقے میں بہت سے شوق صرف نقل یا فیشن کے طور پر اپنائے جاتے ہیں اور بعد میں وہ عادت یا مجبوری بن جاتے ہیں جیسا کہ "عرق’ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ”شروع میں انسان "عرق” پیتا ہے، بعد میں "عرق” انسانی زندگی کو پی جاتاہے” کیونکہ نشہ کوئی بھی ہو قدرت کے تقاضوں سے جنگ کے مترادف ہے”۔
اگر نشہ کے حوالے سے ہم انے ملک کا مختصر جائزہ لیں تو "دنیا میں جہاں ۷۵ فیصد لوگ ذہنی پریشانیوں سے وقتی طور پر نجات پانے کے لئے نشہ کرتے ہیں، وہاں یہ بات بھی کہ دنیا کی بلیک مارکیٹ پر آج کل ایسے افراد کا قبضہ ہے، جن کا اثر ورسوخ حکومت کی سطح تک پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے ڈرگس کا یہ کاروبار دن بدن پھیل رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا کے ۴۴ فیصد سے زیادہ افراد مختلف قسم کا نشے کرتے ہیں جبکہ تقریباً ایک کروڑ ۵۰ لاکھ باقاعدہ سگریٹ نوشی میں مبتلا ہیں -ان میں ۷سو ملین بچے بھی شامل ہیں- عالمی ادارہ صحت نے سگریٹ نوشی کی بڑھتی لعنت پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس خطرناک رجحان پر قابو پانے کی موثر کوششیں نہیں ہوئیں تو ۲۰۳۰ء تک صرف سگریٹ نوشی کے باعث مرنے والوں کی تعداد کروڑوں تک جا سکتی ہے۔ عام طور پر سگریٹ نوشی، تمباکو نوشی اور دوسرے مہلک نشے کرنے والے افراد محض لطف اور سکون حاصل کرنے کیلئے ان کا استعمال کرتے ہیں اور انہیں یہ نہیں معلوم کہ سب سے کم مضر نشہ یعنی سگریٹ میں چالیس ہزار کیمیکلز موجود ہیں، جن میں سے ۴۳ کیمیکل ایسے ہیں جو کینسر جیسے لاعلاج مرض کا سبب بنتے ہیں،
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہمارے لوگ ہر نئی آنے والی چیز کو اپنا کر فخر محسوس کرتے ہیں۔ساتھ ہی دوسروں سے مختلف دکھنے اور برق رفتار ی سے بدلتی دنیا کا مقابلہ کرنے میں ناکام نوجواں نسل میں نشے کی عادت بڑھتی جا رہی ہے، اور اس برائی نے ہمارے علاقے میں آج ایک بڑے سماجی مسئلہ کی حیثیت اختیار کرلی ہے، اس کے شکار لوگوں میں بڑی تعداد ان کی ہے جو اپنی ذہنی پریشانی یا اقتصادی بحران سے نجات پانے کے بہانے ڈرگ لیتے ہیں-
ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بیروزگاری ہمارا علاقے کا بھی سب سے بڑا مسئلہ ہے خاص کر لڑکے اور مرد گریجویٹس اور ماسٹر- ڈگری – ہولڈرز کی تعداد اچھی خاصی ہے۔اب تک ہماری حکومت ان کو مناسب روز گار دینے میں ناکام رہی ہے۔
ان حا لات میں ہمارے علا قے کے مقامی ہو ٹلوں میں غیر سنجیدہ لوگوں کا موجود ہونا جن کا تعلق شیشہ ،گٹکھا یا اس جیسے نشہ آور اشیاء جن کے نام سن کر گھن آتی ہے ۔ ان سے ہو – تو یہ نہ صرف ہنزہ کی نوجوان نسل کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ پورے علاقے کی مستقبل کو خدانخواستہ داؤ پر لگا دینے کے باعث ہے-
اگر ہم کریم آباد ہنزہ کو مخصوص کر کے دیکھتے ہیں تو یہاں گرلز ہوسٹلوں کی بھرمار ہے جن میں نہ صرف پورے ہنزہ بلکہ گلگت بلتستان سے ہماری بیٹیاں حصول علم کے لئےآئی ہوئی ہیں۔ ہنزہ کے رسم ورواج کے مطابق عام طور پر یہاں کی تمام خواتین گھروں سے اپنے انداز سے نکلتی ہیں کوئی سکول اور کالج کے لئے، تو کوئی ملازمت کے لئے ، کوئی کھیتی باڑی کے لئے تو کوئی خریداری یا کسی اور کام کا ج کے لئے۔ ہنزہ کی خواتین چادر اور چار دیواری کی زنجیروں میں جکڑی نہیں ہیں۔ ان کا رویہ اور انداز عموما’ سب کے ساتھ مخلصانہ ہو تا ہے -مسافر مرد اور عورت سے اچھا سلوک ان کا شیوہ ہے۔جو کسی اجنبی کے لئے انوکھا بھی ہو سکتاہے۔ان تمام حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے ہنزہ کی خواتین کو ارباب اختیاران ہنز ہ سے اورخاص کر ان سیاسی راہنماؤں سے جن کو وہ بار بار اپنے رہبر چنتے رہے سخت گلہ کرتے ہوئے اپنے آپ سے یہ سوالات کرتی ہیں کہ:
1۔”انسان بھی کتنا حقیر ہے کہ باتیں تو آسمان کی کرتا ہے اور تان اپنی ذات پر توڑتا ہے” ۔(جون ایلیا)
2۔ملک کے دور دراز شہروں سے ملازمین کو لا کر نئے شروع کیے گئے مقامی ہوٹلوں میں ایسا کونسا راکٹ سائنس ہے جسے سمجھنے سے مقامی لڑکے قاصر ہیں؟
3۔ کیا علاقے کو روزگار کے مواقع دینا انہی ارباب اختیار کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں ہے؟
4۔ کیا علاقے کو نشہ آور چیزوں سے محفوظ رکھنا انھی کی زمہ داریوں میں شامل نہیں ہے؟
5۔کیا ہنزہ کے ناموس اور چین اور سکون کی حفا ظت ان کے فرائض میں شامل نہیں؟
جو بھی ان حالات و واقعات کا ذمہ دار ہے وہ عوام کی خاموشی اور برداشت کو ان کی بےوقوفی نہ سمجھے اور حالات کو قابو میں رکھیں – کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمیں یہ کہنا پڑے کہ؛
ملازمانِ حرم نے وہ تنگیاں کی ہیں
فضائیں ہی نہ رہیں رقصِ رنگ و بو کے لیے
خدارا ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے ۔ ہنزہ کے ترقیاتی کاموں کو گندی سیاست کی نذر مت کیجیے – کام کرنے والوں پر حیات تنگ کرنے کی بجائے ان کی مدد کیجیے۔
اس کے ساتھ ہم سب عوام کے لئے بھی نشہ آور اشیاء کے استعمال پر قابو پانے کیلئے مختلف سمتوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔والدین، والنٹیرز اور سماجی تنظیموں کو اس بارے میں اپنی ذمہ داری نبھانا چاہئے۔اسکول میں اساتذہ نگرانی کریں اور بچوں کو مضر اور خطرناک نتائج سے آگاہ کیا جائےاس سے جُڑے مسائل سے آگاہی دے۔اسکولوں، کالجوں کے آس پاس بھی تمباکو کی فروخت پر پابندی ہےاور جہاں ضرورت ہو قانونی دائرہ میں رہ کر اس کو روکنے کے لئے مہم چلا ئیں۔ آخر میں آئے مل کر دعا کریں کہ:
یا رب میرے وطن کو اک ایسی بہار دے
جو سارے ایشیا کی فضا کو نکھار دے )آ مین)
(احمد ندیم قاسمی)