کالمز

مظلوم آرڈر اور چیف سیکریٹری سیاست

تحریر: فہیم اختر

حکومت گلگت بلتستان آرڈر2018کی موجودہ صورتحال دیکھ کر منی بیگم کی آواز میں گایا گیا ترانہ یاد آتا ہے کہ

نادان چمن میں کلیوں نے لب کھولے نہیں ہنسنے کے لئے

وہ پوچھ رہے ہیں شبنم سے انجام ہمارا کیا ہوگا ۔

گلگت بلتستان کے لئے سابقہ وفاقی حکومت کی جانب سے تجویز کردہ انتظامی آرڈر عملدرآمد سے قبل ہی دھوبی کا کتا ہوگیا ہے ۔ سپریم اپیلٹ کورٹ گلگت بلتستان نے اس آرڈر کے خلاف رکن جی بی کونسل سید افضل (تاحیات رکن جی بی کونسل )کی جانب سے دائر کردہ درخواست اور ازخود نوٹس لئے گئے کیس کی سماعت کرتے ہوئے نئے آرڈر کو معطل کردیا اور پٹیشن کے فیصلے تک سابقہ آرڈر 2009کو دوبارہ بحال کردیا ہے ۔ سپریم اپیلٹ کورٹ نے اس کیس میں اس سے قبل دئے گئے حکم امتناعی کو نظر انداز کرتے ہوئے نیا انتظامی آرڈر جاری کرنے پر وفاقی وزیراعظم اور وزارت امور کشمیر کو نوٹسز بھی جاری کردئے گئے ہیں۔ گلگت بلتستان میں اس سے قبل بھی بڑے بڑے کیسوں کے فیصلے سنادئے گئے ہیں جن میں الطاف حسین بانی ایم کیو ایم کی گرفتاری ، میر شکیل الرحمن چیف جیو جنگ گروپ و دیگر شامل ہے جن پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے ۔ اسی طرح سوست میں تاجروں کے احتجاجی دھرنے اور کسٹم کلکٹر کی جی بی میں موجودگی پر چیف کورٹ کی جانب سے حال ہی فیصلہ آچکا ہے کہ کسٹم کلکٹراپنے تمام امور کو بند کردیں مگر اب تک کسٹم کے حکام اس حکم کو ماننے سے منکر ہیں ۔ سپریم اپیلٹ کورٹ کا فیصلہ بھی اسی نوعیت کا ہے ۔ اگر سپریم اپیلیٹ کورٹ اپنا فیصلہ پر عملدرآمد کرواتی ہے تو حقیقتا اس کے اختیارات کا علم ہوجائیگا اور اگر درج بالا فیصلوں کی طرح اس فیصلے پر بھی عملدرآمد نہیں ہوتا ہے تو شکوک و شبہات جنم لیں گے جس سے اعلیٰ عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے تاہم اس فیصلے میں جاری کئے گئے نوٹسز کے افراد چونکہ جی بی کونسل کی وجہ سے جی بی کے حدود کے اندر ہیں اس لئے امکان ہے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد ہوگا ۔ فیصلے کو ان سیاسی جماعتوں نے بھی سراہا ہے جو نئے انتظامی آرڈر کو قبول کرچکے تھے ۔ اس فیصلے میں سب سے اہم اور قابل زکر بات اب یہ ہے کہ گلگت بلتستان آرڈر 2018کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے والا مسلم لیگی ہے اور اس وقت ن لیگ کے چھتری تلے جی بی کونسل کے مختلف عہدوں پر براجمان بھی ہے ۔ سید افضل صاحب نے ،جس کا زکر وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے وزیراعظم پاکستان کے دورہ کے موقع پر خصوصی طور پر کیا تھا، آزاد انہ حیثیت سے جی بی کونسل میں فارم جمع کرائے تھے جس کے بعد ایم ڈبلیو ایم ، پیپلزپارٹی ، تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن اور آزاد امیدوار کا ووٹ حاصل کرکے رکن کونسل منتخب ہوئے ۔ بعد ازاں حکومتی چھتری میں چلے گئے ۔ اب تک حکومتی چھتری میں ہونے کے باوجود سید افضل کو حکمران جماعت نے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا ہے ۔ آئندہ چند دنوں میں سپریم اپیلٹ کورٹ میں جاری اس کیس کی سماعت حتمی شکل اختیار کرسکتی ہے ۔

چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کا دورہ گانچھے اب تک زیر بحث ہے سوشل میڈیا میں جعلی اکاؤنٹس کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہو انظر آرہا ہے ۔ چیف سیکریٹری کی حادثاتی گفتگو سے قبل یہ بات میرے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ چیف سیکریٹری بابر حیات تارڈ کسی نجی دورے پر نہیں تھے بلکہ سرکاری دورے پر تھے ۔ اور سرکاری دورے میں بھی انہوں نے کئی میگامنصوبوں پر کام مکمل نہ ہونے کا نوٹس لیا تھا اور ایکسیئن نذیر و ددیگر اہم افراد کو گرفتار کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

انتہائی معتبر زرائع کا کہنا ہے کہ اس دورے میں سڑکوں ، پلوں سمیت تعمیراتی کام میں غفلت برتنے اور تاخیر کا زمہ دار بننے والے تمام افراد کے خلاف کاروائی کا حکم دیا تھا جس کی وجہ سے سکردو کے کمشنر آفس سے گلگت وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کو کئی مرتبہ کال کرنا پڑا ۔ عوام کا تعلق عوامی نوعیت کے منصوبوں سے ہوتا ہے ۔ اسے بدقسمتی نہیں تو اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ چیف سیکریٹری کے خلاف سوشل میڈیا میں جاری مہم نے اس دورے کے ثمرات ضائع کردئے ۔ گلگت بلتستان بالخصوص سکردو ڈویژن کی عوام ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ چیف سیکریٹری کے خلاف جاری مہم کا فائدہ کس کو ہوا اور نقصان کس کو ہوا ہے ۔ چیف سیکریٹری بابر حیات تارڈ نہیں رہے تو کوئی اور آئیگا لیکن اپنے تحفظات اور خدشات کی بنیاد پر حکومتی بلکہ ریاستی اقدامات کو دیکھنے کی روش گلگت بلتستان کے لئے نقصاندہ ثابت ہوگی ۔ اس مہم میں ملک بھر کے مختلف شہروں میں مقیم شہریوں نے بھی بھرچڑھ کر حصہ لیا ۔متحدہ اپوزیشن نے بھی اس بار چیف سیکریٹری کے خلاف پریس کانفرنس کرتے ہوئے تبدیلی کے لئے ڈیڈلائن دی ہے ۔اپوزیشن اپنی جاندار اپوزیشن کے کردار کو سمجھتی تو یقیناًمطالبہ کرتی کہ چیف سیکریٹری کے دورہ بلتستان کی تفصیلات سامنے لائی جائیں اور یہ بات خارج از امکان نہیں ہے کہ جن منصوبوں پر چیف سیکریٹری نے نوٹس لیا تھا وہ سارے پیپلزپارٹی کے ہی منصوبے ہوں موجودہ حکومت کے منصوبے بھی ہوسکتے تھے ۔ عوامی تحفظات اور خدشات اس بات کی دلیل نہیں ہوتے ہیں کہ بات سچ ہوجائے ۔ احقر اس سے قبل بھی کئی بار عوامی جذبات کی بنیاد پر ہونے والے اجتماعات کے حوالے سے اپنی رائے دے چکا ہوں جس میں ٹیکس تحریک بھی شامل ہے ۔

عجیب قسمت پائی ہے خطہ شمال نے کہ جس مقصد کے حصول کے لئے پورا علاقہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اس کے ثمرات سرے سے وجود نہیں رکھتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں صوبائی حکومت کو گھٹنے ٹیک کرنے پر مجبور کرنے والی ٹیکس تحریک سے کیا اب یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ ٹیکسز ختم ہونے کے بعد اب اشیاء خوردنوش میں کس قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئی ہے ۔ کتنے اشیاء کی قیمتیں گٹھ چکی ہے اور کونسے کمپنیز ہیں جنہوں نے گلگت بلتستان میں جاری ہونے والے مصنوعات سے ٹیکسز کو ختم کردیا ہے تاکہ عوام زیادہ سے زیادہ مستفید ہوسکے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جذبات کسی کو مجبور تو کرسکتے ہیں جس سے زاتی تسکین مل جائے لیکن جذبات کی بنیاد پر مستقبل کے فیصلے نہیں کئے جاسکتے ہیں۔ چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کے اگر دورہ گانچھے میں نکالی گئی ویڈیو کو الگ کرکے مختصر دورانیہ کو دیکھا جائے تو حالات اور صورتحال یقیناًمختلف ہوتی ہے ۔ سابق چیف سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز سمیت اس سے قبل کے آفیسران کے ادوار میں پی ایس ڈی پی کا ایک منصوبہ بھی مکمل نہیں ہوسکا ہے ۔ اور ڈاکٹر کاظم نیاز کے پاس جب پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کی فائل آگئی اور سفارش کی گئی کہ پی ایس ڈی پی کے منصوبوں کا پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر وزارت امور کشمیر کے سیکریٹری کے بجائے جی بی کے چیف سیکریٹری کو مقرر کیا جائے تو انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا اس کی جگہ میں انہوں نے آئین پاکستان اور قانون کی مختلف شقوں کا حوالہ دیکر وزیراعظم سیکریٹریٹ کو خط لکھ دیا کہ پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر چیف سیکریٹری نہیں ہوسکتا ہے ۔ بابر حیات تارڈ کے آتے ہی پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر جی بی منتقل ہوگیا اب قوی امید ہے کہ عمومی بجٹ کے منصوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں جاری پی ایس ڈی پی کے منصوبے بھی تکمیل کے مرحلے تک آئینگے۔ چیف سیکریٹری سے جس نوجوان نے وائرل ہونے والی ویڈیو میں گفتگو کی ہے اسے دیکھ کر مجھے نواز خان ناجی کا یہ جملہ یاد آتا ہے کہ ’ہم اقوام متحدہ کے نمائندوں سے گلگت بلتستان کے لئے سکول اور سڑک کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ وفاقی حکومت کا کوئی وفد مل جائے تو اس سے آئینی حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں‘۔

آپ کی رائے

comments

فہیم اختر

فہیم اختر پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ گلگت بلتستان کے صدر ہیں اور مقامی اخبارات میں صدائے گلگت کے نام سے کالم لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔ پامیر ٹائمز کے مستقل کالم نگار ہیں۔

متعلقہ

Back to top button