گلگت بلتستان کی حیثیت
از قلم سرور حسین سکندر
زندگی میں اگرکوئی ماضی کی یادوں میں کھو جاتا ہے تو یہ ان کی عقلی مجبوری ہوسکتی ہے ۔ لاکھ کوشش کرے دور نہیں رہ سکتے لیکن اگردماغ کام کرے تو ایک چھوٹی سی تدبیر ایسے سوچوں سے انسان کوپیچھے دھکیل سکتی ہیں ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تدبیر سے بھی اعلٰی درجے کی ایک ناقابل شکست چیزمجبوری ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں ایسے ان گنت تلخ حقیقت واقعات رونما ہوئے ہیں جسے نئی نسل کے سامنے بیان کرنا مناسب نہیں ۔ وفات قائد سے عہد نواز تک، پورا عرصہ نا انصافی ، بد عنوانی اور اقربا ء پروری کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ظلم کے نہ تھمنے والی اس بارش میں مشرق سے لے مغرب شمال سے لیکر جنوب تک سب بھیک رہے ہیں تقسیم ہند سے پہلے بھی ایسے ہزاروں انسانیت دشمن واقعات پیش آتے تھے خاص طور پر مسلمان ہند سب سے زیادہ متاثر ہو رہے تھے تو ایسے میں برصغیر کے مسلمان لیڈروں نے مسلمانوں کے لئے الگ ریاست کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا اور اپنی زندگیاں قربان کر دی گئیں اوراگر دیکھا جائے تو قیام پاکستان کا مقصد مسلمانوں پہ ہونے والے مظالم و نا انصافیوں کو روکنا تھا لیکن یہاں ہرطرح ظلم و بر بریت کی فضا سی چھائی ہوئی نظر آتی ہے اسی اثنا ء ایک مظلوم پسی ہوئی قوم آواز اٹھاتی ہے اب کی باری یہ آواز آزادی کے لیے نہیں بلکہ اپنے چھینے گئے حق کے لئے ہے۔ لیکن جب حقوق کی بات کرتے ہیں تو ہمیں باغی کہا جاتا ہے اور ہمارے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے قوم پرست لیڈروں کو پابند سلاسل رکھا جاتا ہے ہماری آواز کو ہمارے ہی نام نہاد لیڈروں کے زریعے دبائی جاتی ہے گلگت بلتستان کو متنازعہ قرار دے کر اور یہاں کتھ پتلی حکومتیں بناکر سالانہ اربوں روپے ریوینو کی مد میں تو لے جاتے ہیں لیکن بدلے میں ہمیں پاکستان سے الگ رکھا جاتا ہے اور کبھی کہتا ہے کی جی بی پاکستان کا حصہ نہیں ہے اگر ہم پاکستان کا حصہ نہیں ہے تو ہمیں بتا دیا جائے کہ ہم کس ملک کا حصہ ہیں ہماری شناخت کیا ہے اگر ماضی کی حکومتوں کی طرح دور حاضر کی حکومتیں بھی اپنا رویہ تبدیل نہ کرا سکی تو مستقبل قریب میں بلوچستان طرز کی آواز نہ چاہتے ہوئے یہاں سے بھی اٹھ سکتی ہیں جو پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ کشمیر یوں کی خاطر اس خطے کو پچھلے کئی دہایؤں سے ان کے بنیادی حقوق سے محرم رکھا جارہا ہے قومی اسمبلی اور سینٹ میں کوئی نمائندگی نہیں دی جارہی ہے کسی بھی مہذب معاشرے میں یہ چیزیں نا قابل برداشت فعل ہوتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہ داری جو کہ اس وقت جاری ہے اسی خطے سے گزرنے کے باوجود اس خطے کی ترقی خاطر خواہ منصوبے زیر غور نہیں ہے جو کہ اس خطے کے ساتھ بڑی نا انصافی ہے اس خطے نے ہمیشہ ملک عزیز کے لئے بے شمار قربانیاں دی ہے اور بدلے میں سیاست دانوں نے طشت میں محرومی کے سوا کچھ نہیں میسر کیا لاکھ انکار کے باوجود ہمیں کشمیر سے جوڑا جا تا ہے اس سے ہر اٹھنے والی آوازیں دب جاتی ہیں اور محرومیوں کے نا ختم ہونے والا بادل چھائے رہتے ہیں۔ اس خطے کی اب ایک ہی مطالبہ نظر آتا ہے کہ خطے کو پاکستان کا حصہ تسلیم کر کے پانچواں آئینی صوبہ بنا دیا جائے اور پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں سے ایک دو منصوبے گلگت بلتستان کے حق میں منظور کرائیں جو اس خطے کا حق ہے۔اگر راہدری منصوبے سے بھی دور رکھنے کی مذموم کوشش کی گئی تو راہداری منصوبہ کو تکمیل سے پہلے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے