کالمز

شُتر مرغ کا عقیدہ

نفسیات کی اصطلاح میں خبطِ عظمت (Megalomania)ایک ایسی بیماری کا نام ہے جس میں انسان کو احساس برتری کا گمان شدت کے ساتھ دامن گیر ہوجاتا ہے آج ہم اپنے قبیح رسوم ورواج اور فرسودہ روایات و اقدارکے متلاشی سماج کا جائزہ لیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے کا ہر طبقہ خطرناک حد تک خبطِ عظمت کا گرویدہ بن چکا ہے جس میں صاحبانِ منبر و محراب ،بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے علاوہ اہل قلم و شعراء بھی شامل ہیں۔یہاں پر اس نکتہ کو واضح کرتا چلوں کہ احساسِ کمتری بھی ایک نفسیاتی عارضہ ہے لیکن زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراداسی عارضے پر قابو پانے کی کوشش میں غیر ارادی طور پر خبطِ عظمت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لئے ہم اپنے قوت مشاہد ہ پر زور دے کر اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو ظاہری نمود و نمائش ،زرق برق عمدہ لباس ،بڑی بڑی گاڑیوں کا استعمال اور گفتگو میں انگریزی زبان کے الفاظ کا تواتر سے استعمال خبطِ عظمت کا شکار معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں
نامور شاعر مصطفٰی زیدی نے کیا خوب کہا ہے
ہر ایک شخص طلبگار تھا کہ شام و سحر
اسی کا نام لیا جائے اور اذاں کی طرح
تاریخ کے اوراق کو اٹھا کر دیکھا جائے تو ماضی میں استعماری قوتوں کے زیرِ تسط رہنے والی ریاستوں میں استعماری اثرات کو آج بھی واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے برصغیر میں برٹش سول سروس جوائن کرنے والے جوانوں کو خاص طور پر باور کرایا جاتا کہ وہ حاکم ہیں اور محکوم قوم پر حکمرانی کے واسطے آئے ہیں ان کے دفاتر کی تزئین و آرائش اور بڑے بڑے میزوں پر براجماں برطانوی جھنڈا ریاست کی ہیبت کا عکاس ہوتا جو مقامی افراد پر رعب و دبدبہ قائم رکھنے کے لئے کافی ہوتا تھااسی طرح برطانوی سامراج کے انخلاء کے بعد آج بھی مقامی بیوروکریسی میں ان اثرات کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے بڑی بڑی عالی شان گاڑیاں ،عمدہ تزئین و آرائش سے آراستہ دفاتر و محلات اور محافظوں کی فوج رعب و دبدبہ اور شان و شوکت میں اضافہ تو ضرور کرتے ہیں لیکن سائل اپنے چھوٹے سے چھوٹے کام کو حل کرانے کے لئے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔سرکاری افسر شاہی ایک لمحے کے لئے یہ بھی نہیں سوچتے کہ ریاست نے ان کو یہ تمام سہولتیں عوامی خدمت کے لئے فراہم کی ہیں لیکن عمدہ سوچ کی توقعات فکری لحاظ سے بلوغت کے درجے پر پہنچے معاشرے سے وابستہ کی جا سکتی ہیں جبکہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ تعلیمی ادارے رنگی برنگی ڈگریاں تقسیم توکر رہی ہیں اور لوگ کسی نہ کسی طرح روزگار کے حصول میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں لیکن تعمیری سوچ اور اخلاقی تربیت کا سرے سے فقدان ہے اور ہم دورِ حاضر میں بھی تعلیم کے ذریعے فکری جمود کے بتوں کو پاش پاش کرنے سے قاصرنظرآتے ہیں

بقو ل آنس معین
اس دور میں کچھ اور ہیں سچائی کے معیار
یہ بات الگ زہر کی تاثیر وہی ہے
خبطِ عظمت کے گرویدوں میں ہمارے سیاستدانوں کا انداز ہی نرالا ہے دنیا بھرکے عظیم سیاسی لیڈروں کی سوانح عمریوں کا مطالعہ کریں تو ان کی شخصیت ہمہ جہت،لائق تقلید اور دانشورانہ اوصاف کی حامل ہوتی تھیں لیکن آج کے سیاستدان کم علمی کے ساتھ ساتھ فکری جمود کا بھی شکار ہیں جب تک ان کے چاروں طرف کارِ جہل کے چند کارندے نہ منڈلائیں سیاست کو نامکمل تصور کرتے ہیں۔ کم علمی اور نالائقی کا یہ عالم ہے کہ ایک تقریر تک قلم بند کرنے سے قاصرہیں لیکن عمدہ لباس ،عالی شان گاڑیوں پر لہراتے پارٹی جھنڈوں اور محافظوں کے دستوں کے بٖغیر خود کو نا مکمل تصور کرتے ہیں جبکہ کچھ عرصے سے یہ رسم چلی ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے دفاتر کے ساتھ ساتھ مسند نشیں پارٹی کے سرکاری دفاتر میں قائد اعظم محمد علی جناح کے بجائے نواز شریف ،آصف علی زرداری یا مولانافضل الرحمن کی تصاویر آویزاں کی جاتی ہیں اب جن سیاستدانوں اور کارکنوں کے قائدین یا دلوں کی دھڑکن نواز شریف،آصف علی زرداری ،عمران خان یا مولانا فضل الرحمن جیسی شخصیات ہوں وہ فکری لحاظ سے جہالت اور تاریکی کی کیسی بھیانک راہوں میں بھٹک رہے ہونگے اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے
ایک زمانہ تھا کہ شعراء و ادباء کی خوداری کے چرچے ہوتے تھے لیکن آج کے دور میں وہ اردو ادب کی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔ ہر دور میں مختلف عادات و خصائل اور کرداروں کے حامل شعراء و ادباء گزرے ہیں کوئی دربار سے وابستگی پر نازاں رہا تو کسی نے اپنی خودداری کو کسی قیمت ٹھیس نہیں پہنچانے دی اور دربار سے وابستگی کو اپنے لئے باعث ننگ و عار تصور کیا مگر آج کے شعراء و ادباء کے تقاضے یکسر تبدیل ہو چکے ہیں اور وہ خبطِ عظمت کے اثرات سے محفوظ رہے بغیر نہیں رہ سکے۔ دور حاضر میں اہل قلم و شعراء نے کتب بینی کو پس پشت ڈال دیا ہے بلکہ اب تو کچھ اردو املاسے بھی نا بلد ہوچکے ہیں لیکن سعادت حسن منٹو،میرا جی،جوش ملیح آبادی اور میر وغالب جیسی پزیرائی کے متمنی نظر آتے ہیں۔آج شعراء ایک شعر سنائیں گے لیکن سو بار داد کے خواہشمند ہونگے سخن وری کے توسط سے صاحب ثروت افراد سے میل جول بڑھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے خالی جانے نہیں دینگے اور سرکاری اشرافیہ اورسیاستدانوں سے مراسم پر اتراتے بھی نظر آئینگے۔ چائے خانوں خانوں میں بے باک مباحثوں کے ذریعے اپنی روشن خیالی کا ڈھنڈوراپیٹتے ضرور نظرآتے ہیں لیکن اپنے نظریات کو تحریری شکل میں لانے میں مصلحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس کے علاوہ آج کے دور کے فنکاروں کا المیہ یہ ہے کہ وہ پانی کے بلبلوں کی طرح نا پائیدار شہرت کے خواہشمندہیں جبکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی فنکار کی عمدہ تخلیقی شہکار کی قدر منزلت کا تعین وقت کرتا ہے ایک عرصے کے گزرنے کے بعد تخلیقی شہکار کلاسیکل ادب کے درجہ تک رسائی حاصل کرتا ہے یا گمنامی کی تاریک راہوں میں کھو جاتا ہے
مصطفٰی زیدی نے کہا تھا
اسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
جسم بکتے ہیں،ادب بکتا ہے،فن بکتا ہے
گو کہ انسانی تہذیب کے ارتقاء کا سفر صدیوں پر محیط رہا ہے اور مختلف ادوار میں اخلاقیات کا معیار بھی مسلسل بدلتا رہا ہے۔ دنیائے عالم کے مذاہب نے انسان کو اخلاقیات کی راہ پر گامزن کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ہم مکمل طور پر دعوٰی نہیں کر سکتے کہ وہ اس میں مکمل کامیاب رہے یا ناکام ۔کیونکہ دیکھا جائے تو مذاہب کی تاریخ انسان کے خون سے رنگین ہے جبکہ آج بھی علمائے دین کی جانب سے یہ باور کرایا جائے کہ خدا صرف تمہاری عبادتوں سے خوش نہیں ہوتا بلکہ ابن آدم کی باہمی اصلاح و ترقی سے خوش ہوتا ہے تو دنیا کا نقشہ ہی یکسر بدل جائے لیکن آج فتوٰی فروشی کے ذریعے نفرتوں کی تجارت ، بے گناہ انسانوں کے قتل عام ،خود غرضی اور نفسا نفسی نے دنیا کو جہنم سے کہیں زیادہ بد تر بنا دیا ہے لیکن علمائے دین اپنی تما م توانائیاں آخرت کے قضیے پر صرف کر رہے ہیں جبکہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جو انسان دنیا کو ہی جنت بنانے سے قاصر رہا وہ بھلا کس منطق کی رو سے آخرت میں جنت کا متمنی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ایک طرف جہاں مذاہب عالم انسان کو بہترین سماجی نظام دینے میں نا کام رہے تو مادہ پرستی کا ظہور ہوا اور دنیا کودنیا کے اصول سے سمجھنے اور کاربند رہنے کا چلن عام ہوا جس کے باعث خود غرضی اور خود پسندی کا ظہور ہوا جس کے باعث اخلاقیات کا معیار خطرناک حد تک گراوٹ کا شکار ہواہے
بقول مصطفٰی زیدی
اسی گروہ میں اخلاق کے کئی نقاد
غرور فتح سے گردن اٹھا کے چلتے ہیں
آج تیسری دنیا کے ممالک خصوصا پاکستان میں اخلاقیات کا معیار جس طرح تنزّلی کا شکار ہے اور جس طرح نفسا نفسی اور خود غرضی کا دور دورہ ہے اس سے نہیں لگتا کہ ہم انسانوں کی کسی بستی میں زندگی بسر کر رہے ہوں ہر انسان دوسرے انسان کے منہ سے نوالہ چھینے کے درپے ہے اور اپنی پیٹ کی آگ کو بجھانے کی خاطر دوسرے انسان کا خون بہانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آج ہمیں سیاسی، مذہبی ا ورسماجی لفاظیوں سے کہیں زیادہ بنیادی اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ریاست میں تعلیمی نظام اور تعلمی نصاب سب کے لئے یکساں ہو لیکن اب جس ریاست کا نصاب ہی مذہبی انتہاپسندی اور ناقص اخلاقی معیار پر مبنی ہو وہاں مذہبی انتہا پسند اور خطرناک حد تک خبط عظمت کا شکار انسان نما حیوان تو پیدا ہو سکتے ہیں لیکن بہترین اخلاقیات کے اصولوں پر استوار سماج کبھی تشکیل نہیں پا سکتا۔شتر مرغ پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ فورا اپنے چھوٹے سر کو ریت میں چھپا دیتا ہے جبکہ اپنے بھاری بھر کم جسم پر منڈلاتے خطرات سے بے خبر ہو جاتا ہے آج ہم بھی اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سیاسی اورمذہبی لفاظیوں یا مذہبی تعلیم سے کہیں زیادہ بنیادی اخلاقی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button