اپنا بندہ
اپنا بندہ معنی خیز اور کار آمد ترکیب ہے ۔ اردو کی یہ ترکیب انگریزی میں بھی مختلف الفاظ میں مستعمل ہے ۔ انگریزی میں اپنا بندہ کو بلیو آئیڈ ( Blue Eyed) کہتے ہیں ۔ اردو میں ایک ضرب المثل بھی اس ترکیب کی بنیا د پر وجو دمیں آئی ہے ۔ کہتے ہیں’’ اندھا بانٹے ریوڑھی ہیر پھیر اپنے کو دے ‘‘ جس کے ہاتھ میں ریوڑھی بانٹنے کا اختیار آجائے وہ انگریزوں کے ہاں اندھا نہیں ہوتا۔ ہمارے ہاں اندھا ہوجاتا ہے ، بینائی سے محروم ہوتا ہے اور اپنا بندہ یا بلیو آئیڈ ڈھونڈ کر ساری ریوڑھیاں اُسی کے ہاتھ میں تھما دیتاہے ۔ اپنا بندہ لاڈلا بھی کہلاتا ہے ’’ لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند ‘‘ سیاسی جماعت کا چھوٹا ، بڑا یا درمیانہ لیڈر کسی کی جائز یا ناجائز سفارش کرے تو کہتاہے ’’ یہ اپنا بندہ ہے ‘‘ پولیس سٹیشن سے کسی ملزم کو چھڑا کر لانا ہو تو کہا جاتا ہے ’’ اپنا بندہ ہے ‘‘ ایف آئی اے سے کسی کو چھڑانا ہو ، کسی اور تحقیقاتی ایجنسی کے عقوبت خانے سے کسی کی جان چھڑانی ہو تو کہا جاتا ہے ’’ اپنا بندہ ہے‘‘ ۔ بینک یا مالیاتی ادارے سے کسی کا قرض معاف کرانا ہو، پبلک سروس کمیشن کے امتحان یا انٹرویو میں کسی فیل کو پاس کرانا ہو تو کہا جاتاہے اپنا بندہ ہے ۔ بورڈ یا یونیورسٹی کے امتحان میں ای (E) گریڈ کو اے ون میں لانا ہو تو کہا جاتا ہے ’’ اپنا بندہ ہے ‘‘ ۔ عدالت میں کسی ملزم کو بری کرانا ہو تو یہ جادوئی ترکیب استعمال ہوتی ہے ۔ یہ ایسی ترکیب ہے جو ملزم کے خلاف ثبوتوں کے انبار کو آگ لگادیتی ہے ۔ جلاکر بھسم کردیتی ہے ۔ پھانسی کے تختے سے ملزم کو چھڑا کر ’’ باعزت بری ‘‘کر دیتی ہے ۔ ’’ اپنا بندہ ‘‘ کی ترکیب کو بعض لوگ معجزہ یا کرامت بھی کہتے ہیں لیکن یہا ں یہ الفاظ غلط العام کے زمرے میں آئیں گے ۔ اسلامی اصطلاح میں معجزے کا تعلق پیغمبر کے ساتھ اور کرامت کا تعلق ولی کامل کے ساتھ ہوتا ہے ۔ ’’ اپنا بندہ ‘‘ والا محض دھندہ والا ہوتا ہے یا دھندے والی ہوتی ہے ۔ دو نمبر کاموں میں اس طرح کی مہارت اُسے ایسا معاشرتی مقام دلاتی ہے جہاں وہ کسی کو اپنا بندہ قرار دے کر زمین سے آسمان پر پہنچا دیتا ہے ۔ ایک ٹرک سے 40من چرس اور 20کلو ہیروئن برآمد ہو ا۔ ملزم رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ۔ پکڑنے والا جھکنے اور بکنے والا نہیں تھا ۔ اُس پر دیانت داروں کا خبط سوار تھا ۔ اُس کو بار بار فرض منصبی کے خطرناک اور جان لیوا جھٹکے آتے تھے۔ ’’ رزق حلال ‘‘ کی طلب نے اُس کے دماغ سے مصلحت کے کیڑے کو نکال دیا تھا ۔ معاشرے میں وہ نادان ، احمق اور بے حد ٹیڑھے آدمی کے طور پر مشہور تھا ۔ حکام بالا کو اُس کے خلاف شکایت کر نے والے کو اُس کے خلاف شکایت کر نے والے اُس کو ناسمجھ اور گنوار قرار دیتے تھے ۔ اُس نے بحریہ ٹاؤن میں گھر کی آفر ٹھکرادی، ڈی ایچ میں پلاٹ کی آفر کو لات ماری ۔ ملزم کا چالان ثبوتوں کے ساتھ عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ اُس کو چھڑانے والے عدالت پہنچ گئے۔ یہاں کسی دلیل ، کسی ثبوت ، کسی گواہ اور کسی قانونی نکتے کی ضرورت نہیں تھی۔ جادوئی ترکیب کام آگئی ۔ بڑے صاحب نے کہا ’’ اپنا بندہ ہے ‘‘۔ 40من چرس اور 20کلو ہیروئن کا ضبط شدہ مال بھی واپس مل گیا اور ملزم بھی باعزت بری ہو کر اپنے گھر پہنچا۔ اسی طرح دہشت گردکے قبضے سے خودکش جیکٹ پکڑا گیا تھا ۔ اُس کی نشان دہی پردہشت گردوں کے اڈے سے اسلحہ کی بڑی کھیپ بر آمد ہوئی تھی۔ خودکش جیکٹ بنانے کی فیکٹری پکڑی گئی تھی۔ دہشت گردی کی کئی وارداتوں کے ماسٹر مائنڈ گرفتار کئے گئے تھے۔ ملٹری کورٹ نے ان سب کو سزائے موت سنائی تھی۔ مگر جب کہا گیا کہ ’’ اپنا بندہ ہے ‘‘ تو انصاف کا پہیہ اُلٹے ہاتھ گھومنے لگا۔ ملٹری کورٹ کے فیصلے معطل کر دئیے گئے۔ سزائیں ختم کر دی گئیں۔ ملزمان کو باعزت بری کر دیا گیا ۔ ’’ اپنا بندہ ‘‘ ایسی کارآمد اور مفید ترکیب ہے۔ اخبارات کی تازہ سرخیاں پڑھتے ہوئے قاری کو جگہ جگہ اپنا بندہ نظر آجاتا ہے۔ ایون فیلڈ اور بنی گالہ دو جائیدادوں کے نام ہیں ۔ ایک جائیداد غلط طریقے سے قواعد و ضوابط اور قانون کے خلاف حاصل کی گئی ۔ دوسری جائیداد قانون ذرائع سے اور قانون کے تقاضوں کے مطابق خریدی گئی۔ عدالت نے دیکھا تو ایک جائیداد میں غبن اور بے قاعدگی نظر آئی۔ دوسری جائیداد میں کوئی بے قاعدگی نہیں ملی۔ اوپر سے رجوع کیا گیا۔ جس جائیداد میں بے قاعدگی ، غبن اور کرپشن تھی اس کا مالک بچ گیا ۔ ایون فیلڈ کا مالک اپنا بندہ نہیں تھا کسی بے قاعدگی کے بغیر مجرم ٹھہرایا گیا ۔ فواد حسن فواد ، احد چیمہ اور حسین لوائی پکڑے گئے ۔ تینوں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ ان کو پکڑ کر کسی اور کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنانے کا حکم تھا ۔ حکم کی تعمیل ہوئی ۔ زلفی بخاری نام کا ملزم لایا گیا ۔ ریکارڈ میں اُس کے جرائم کی لمبی فہرست دی گی تھی۔ اُس کانام ایگزٹ کنٹرو ل لسٹ ( ECL) میں ڈال دیا گیا تھا ۔ آناََ فاناََ فون کی گھنٹیاں بجنے لگیں ۔ ٹیلیفون پر ٹیلیفون آنے لگے۔ہر ٹیلیفون پر ایک ہی بات تھی ’’ اپنا بندہ ہے‘‘ ۔ چنانچہ زلفی بخاری کو تمام الزامات سے بری کر کے اُس کا نام ECL سے نکال دیا گیا۔ ’’ جو چاہے تیرا حُسن کرشمہ ساز کرے ‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمرود کو اسلام کی دعوت دی تو اس نے پوچھا ’’ اللہ کیا کرتا ہے ؟‘‘ ابراہیم علیہ السلام نے کہا وہ زندگی اور موت دیتا ہے ۔ نمرود نے ایک بے گناہ کو قتل کروایا اور جیل سے قتل کے ایک مجرم کو آزاد کروایا اور بولا یہ کام میں بھی کرسکتاہوں ۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا انصاف بھی ’’ اپنا بندہ والا تھا ‘‘۔ اُس کے سامنے سائلین کی درخواستوں کی دو ڈھیریاں رکھی جاتی تھیں ۔ وہ تخت پر بیٹھتا تو ان ڈھیریوں پر ایک نظر ڈال کر کہتا ’’ ای منجور تے ای نامنجور‘‘ اُس کے درباری اپنا بندہ والی درخواستیں ’’ منجور‘‘ والی ڈھیری میں ڈال کر فوراََ اپنا کام نکال لیتے تھے۔ زمانہ ترقی کرگیا ، دنیا کے لوگ چاند اور مریخ پر پہنچ گئے ۔ لیکن ہماری قسمت میں ’’ منجور نا منجور‘‘ لکھاہے۔ ’’ بلیو آئیڈ ‘‘ لکھا ہے اور ’’ اپنا بندہ ‘‘ لکھا ہے ۔
لیتا ہوں مکتبِ غم دل میں سبق ہنوز
مگر یہ کہ ’’ رفت‘‘ گیا اور ’’ بود ‘‘ تھا